حقوق انسانی

ایمس میں بہاری مریضوں کی بھیڑ : معاف کیجیے منسٹر صاحب

یہ مریض کا حق ہے کہ وہ خودمحسوس کرے  کہ وہ کتنا بیمار ہے؟ محسوس کرنا مزاج کی بات ہے۔ اور میں یہ امید کروں‌گا کہ آپ مریض کی نوعیت میں تو تبدیلی نہیں کرنا چاہیں‌گے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو پلیز مت کیجئے سر۔ یہ کسی بھی طرح سے  ٹھیک بات نہیں ہوگی سر۔۔!

AshwiniChoubeyمیں ایک ڈاکٹر ہوں، ایمس نئیدہلی میں کام کرتا ہوں۔ گزشتہ 14 سالوں سے میں ہر قسم کے مریض کا علاج کرتا رہا ہوں۔ ہر قسم سے میرا مطلب ہے کہ ہر قسم کے مریض؛چاہےوہ جس بھی مذہب، ذات، علاقہ، جنس، سماجی حیثیت اور یہاں تک کہ غیر ملک کے ہوں تب بھی۔ میں نے نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، ایران، دبئی، منگولیا، سری لنکا، پاکستان، نائیجیریا، عراق، افغانستان کے اور نہ جانے کتنے اور مریضوں کا علاج کیا ہے۔

بہار کے مریضوں کے بارے میں آپ کے کمنٹ کو دیکھنے اور پڑھنے کے میں بہت افسردہ  ہوں۔اس لیے میں نے آپ کو لکھنے کے بارے میں سوچا۔ اپنے بیان میں آپ نے کہا تھا کہ، ‘میں نے ایمس کے ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ جو مریض پٹنہ ایمس میں ٹھیک ہو سکتے ہوں آپ ان کو فوراً ریفر کر دیجئے۔ یہاں بھیڑ بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مریض یہاں کیسی بھیڑ لگاتے ہیں۔ ‘یہاں کچھ باتوں  کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔آپ  وزیر مملکت برائے صحت ہیں،اس لیے ان باتوں سے آپ کی واقفیت ضروری ہے۔یہ باتیں قانونی نقطہ نظر  سے بھی بےحد اہم ہیں۔

ڈاکٹر کے طور پر، ہم کسی بھی مریض کو اس کے مذہب، ذات، فرقہ، جنس، سماجی حیثیت اور شہریت کی بنیاد پر علاج سے منا نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف اخلاقی بنیاد پر غلط ہے بلکہ قانونی طور پر بھی غلط ہے۔ اس لئے، برائے مہربانی ایمس کے ڈاکٹروں کو صلاح نہ دیں اور بلکہ آپ کی حکومت کے اندر کام کر رہے ملک کے کسی بھی ڈاکٹر کو اس بارے میں صلاح نہ دیں۔ ڈاکٹر آپ کی صلاح کو اخلاقی اور قانونی بنیاد پر ٹھکراکر بھی صحیح ثابت ہوں گے۔

ایمس اس ملک کا بہترین ریفرل ادارہ ہے جس کو ملک کی پالیسی سازوں نے  دور اندیشی ‌کے ساتھ بنایا تھا۔ دور ہونے کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ دور سے آنے والے مریض یہاں بھیڑ بڑھاتے ہوں۔ میں اس بات سے متّفق ہوں کہ اس سے علاج کرنے میں رکاوٹ بھی آتی ہے۔ لیکن یہ مریض کی غلطی نہیں ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایمس میں روز مرّہ کے کسی بھی دن علاج کے لئے آنا، پھر لمبی قطاروں میں لگ‌کر پرچہ بنوانا اور پھر ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔

آپ کے بیان کے مطابق بہاری چھوٹی بیماریوں کے لئے بھی ایمس میں آکر بھیڑ بڑھاتے ہیں۔ میں ایک دن بھی برباد نہیں کروں‌گا،مر رہے اور بیمار لوگوں کے لئے۔اگر میں دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے گھر کے پاس ٹھیک ہو سکتا ہے توبھی میں اس کو دیکھوں‌گا۔ کیونکہ وہ میرے پاس میری صلاح لینے آیا ہے۔ اور اگر اس کو یہ یقین ہے کہ میرے دیکھنے سے اس کا علاج بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے تو میں اس کو علاج کے لئے انکار نہیں کروں‌گا۔ یہ مریض کا یقین ہی ہے، جو اس کو ٹھیک کر سکتا ہے۔

یہ مریض کا حق ہے کہ وہ خودمحسوس کرے  کہ وہ کتنا بیمار ہے؟ محسوس کرنا مزاج کی بات ہے۔ اور میں یہ امید کروں‌گا کہ آپ مریض کی نوعیت میں تو تبدیلی نہیں کرنا چاہیں‌گے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو پلیز مت کیجئے سر۔ یہ کسی بھی طرح سے  ٹھیک بات نہیں ہوگی سر۔۔!

ایمس میں بھیڑ بڑھنے کا سبب بہاری، یوپی ، راجستھانی یا پھر چھتّیس گڑھی نہیں ہے۔ یہ ملک کے کمزور انفراسٹرکچر اور صحت سے متعلق خدمات کی وجہ سے ہوتی ہے،اور آپ سے بہتر اس کو کون سمجھ سکتا ہے، سر۔۔! آپ کے حکم سے ہی کئی بار شائع مضمون اور آرٹیکل ہی اس مسئلہ کو اٹھاتے رہے ہیں۔ حال ہی میں لانسیٹ میں شائع جرنل گولڈن برڈن آف ڈزیز اسٹڈی میں یہ بات اجاگر ہوئی تھی۔ (یہ بےحد اہم میڈیکل جرنل ہے، سر) یہ ملک کے تمام ہندوستانی وطن پرست شہریوں کے لئے دل توڑنے والی بات ہے۔

مجھے امید ہے کہ آپ اس بات کو جانتے ہوں‌گے۔ اس لئے ایسے ملک میں جہاں صحت سے متعلق بے حد کمزورخدمات ہوں اور ڈاکٹروں، ہسپتالوں، دواؤں اور دیگر کئی چیزوں کی بھاری کمی ہو، اگر ڈاکٹر مریضوں کا صرف بھیڑ کی وجہ سے علاج کرنے سے انکار کر دیں‌گے تو وہ لوگ کہاں جائیں‌گے۔ غریب لوگ عام طور پر بےحد سمجھ دار ہوتے ہیں۔ وہ امید کی وجہ سے ہی بھیڑ لگاتے ہیں۔ اس لئے ان کو ایسا کرنے دیجئے، ان کے یقین کو مت توڑئیے۔

آخر میں، سر، ایک 14 سال کے مریض نے، جس کو پورے جسم میں خوفناک بون کینسر ہوا ہے، شاید وہ اس ٹھنڈ میں زندہ بھی نہ بچے۔ کل مجھ سے ملنے آیا۔ وہ بہار سے ہے۔ اس سنگین بیماری کے بعد بھی اس نے اپنی زندگی کی امید نہیں چھوڑی ہے۔ کل، آپ کے بیان کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا آپ بہار کے مریضوں کو دیکھنا تو نہیں چھوڑیں‌گے؟ میں نے اس سے کہا کہ مجھ سے اگلے ہفتے ملو۔ اس نے اپنے پتلے، معصوم لبوں سے میرے ہاتھوں کو چوم لیا۔

مجھے معاف کیجئے سر، میں آپ کے حکم کی تعمیل  نہیں کر سکتا۔ اس کی آنکھوں میں ابھی بھی زندگی کی امید باقی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے دکھ اور اس معذرت نامہ  کو سمجھ سکیں‌گے۔

(شاہ عالم خان ایمس نئی دہلی میں آرتھو پیڈک کے پروفیسر ہیں۔یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔)