فکر و نظر

سیاسی نظام میں تبدیلی وقت کی ضرورت

سیاست دانوں نے اس ملک کا حال ایسا بنا دیاہے جس سے لکھ پتی اور کروڑپتی لوگوں کے سوا کوئی غریب یا متوسط طبقے  کا آدمی انتخاب میں حصہ لے نہیں سکتا۔

PoliticalRally_PTI

علامتی تصویر | PTI

ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تعلق سے تمل  ناڈو فلم انڈسڑی کی مشہور شخصیت سیمان نے کہامٹی بھی وہی سانچہ بھی وہی ہوتو نئی شکل کی اینٹ نہیں بنے گی۔ نئی قسم کی اینٹ درکار ہو تو مٹی یا سانچہ دونوں میں سے کسی ایک کو بدلنا ضروری ہے۔اسی فلم انڈسڑی کی ایک اور مشہور شخصیت رجنی کانت نے کہاکہ اس پورے سسٹم کو بدلنے کی ضرورت ہے۔مشہورتمل اداکار کمل ہاسن بھی تبدیلی کانعرہ لگانے والوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگ موجودہ سیاسی نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

سیاست دانوں نے اس ملک کا حال ایسا بنا دیاہے جس سے لکھ پتی اور کروڑپتی لوگوں کے سوا کوئی غریب یا متوسط طبقے  کا آدمی انتخاب میں حصہ لے نہیں سکتا۔اکثرسیاست دان عوام کے فائدے سے زیادہ اپنا اور اپنی پارٹی کے فائدے کے لیے ہی کام کرتے ہیں۔تقریباً تمام سیاست دانوں کے دماغ میں یہ بات ہوتی ہی نہیں کہ عوام نے جومرتبہ یا عہدہ اُنہیں دیا ہے؛وہ عوام کی خدمت کے لیے ہے ؛ اُن پرحکم چلانے کے لیے نہیں۔اس کے برخلاف وہ اپنی تقریروں سے عوام کے دماغ میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کر تے ہیں کہ مرغی کا کام چارہ کھانا اور انڈے دینا ہے ۔ یہ سوچنا اُس کا کام نہیں ہے کہ اُس کے انڈے کون کھارہا ہے؟بالکل اسی طرح عوام کا کام صرف ووٹ ڈالنا ہے۔ملک کے حالات کو سمجھنا اور اُنہیں بدلنے کی کوشش کرنا؛ اُن کا کام نہیں۔یہ سیاست دانوں کاکام ہے اورسیاست دان جو کچھ کرتے ہیں:عوام کے لیے ہی کرتے ہیں ۔

بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار کواچانک شراب کی برائیاں نظرآئیں تو اُنہوں نے شراب پرپابندی لگادی ۔اُنہیں یہ خیال نہیں آیاکہ شرابی بھی عوام ہی میں شامل ہیں اور کسی نہ کسی کوووٹ دیتے ہیں۔ لہٰذااُن کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر شراب ترک کرنے میں اُن کی مدد کرنی چاہیے ۔اس کے برخلاف پابندی کے بعد پینے والوں کوسخت سزا یا جرمانہ لگانے سے وہ لوگ ذمہ دارانسان بن نہیں سکتے۔

عرصہ درازسے جئے جوان جئے کسان کانعرہ بہت زوروشور سے لگایا جاتا ہے ۔ٹمل ناڈو کے کسان اپنا دکھڑ ا سنانے کے لیے دہلی پہنچے اور گرمی کے موسم میں میدان میں بیٹھے رہے ۔ننگی پیٹھ سڑکوں پرلیٹتے اور لڑکھتے رہےمگرکسی وزیر یا افسر کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔مہاراشٹر کے کسانوں نے سبزیاں اور پھل سڑکوں پر پھینکا اور شاہ راہ پر دودھ پانی کی طرح بہاکر اپنے غصہ کا اظہار کیا۔مدھیہ پردیش کے کسانوں نے لوگوں کواپنا حال بتایا توپولیس والوں نے کسانوں پر گولیاں برسائیں اور پانچ کسانوں کوموت کے گھاٹ اُتاردیا ۔ یہ ہے سیاست دانوں کا حال مگرنعرہ لگاتے ہیں جئے کسان !

اس وقت آزاد ہندوستان میں سب سے بڑا سوا ل یہ ہے کہ کیا ہندوستان کے تمام دیہاتوںمیں پکی سڑکیں،پانی کے پائپ اور بجلی کی تاریں بچھادی گئیں؟ کیانوٹ بندی  سے کالا دھن ختم ہوگیا؟کیاغریبی دورکرنے کے لیے ہی لاکھوں روپیوں کے مجسّمے کھڑے کیے جاتے ہیں ؟ کیا غریبوں کے مسائل حل کرنے کے لیے عوام کوگوشت خوری سے روکاجارہاہے اور Exporters کو کُھلی چھوٹ دی جارہی ہے؟ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے،کیوں کہ ان کو حل کیے بنا نظام کی تبدیلی ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔