خبریں

القاعدہ سے رشتہ رکھنے کے نام پر گرفتار مولانا انظر شاہ قاسمی کے خلاف دہشت گردی کا الزام خارج

جنوری 2016سے مولانا مسلسل جیل میں ہیں اور ان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔

AnzarShah_PTIنئی دہلی:  مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت گرفتار کیے گئے مولانا انظر شاہ قاسمی کے خلاف مقدمہ کو  گزشتہ منگل کو دہلی کی ایک عدالت نے خارج کر دیا ہے۔اس معاملے میں  دہلی  پولیس کے اسپشل سیل کا دعویٰ تھا کہ بنگلور سے تعلق رکھنے والے امام وخطیب مولانا انظر شاہ قاسمی نہ صرف دہشت گرد ہیں اور القاعدہ کےہندوستانی نیٹ ورک سے تعلقنن رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی تقریروں کے ذریعہ لوگوں کو دہشت گردی کے لیے آمادہ کرتے ہیں،اور اس کام کے لئے بھرتیاں بھی کرتےہیں۔لیکن یہ دعویٰ اس وقت  ڈھیر ہوگیا،جب دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نےمنگل کوفرد جرم عائد کرتے وقت یہ پایا کہ مولانا انظر شاہ قاسمی کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کے لئے ثبوت موجود نہیں ہیں۔

مولانا قاسمی کے وکیل ایم ایس خان کے مطابق  دہلی پولیس کا الزام تھا کہ مولانا نے القاعدہ کی ہندوستانی ٹیم کے ایک مبینہ رکن کی دوسرے رکن  سے بنگلور میں ملاقات کرانے میں مدد کی تھی اور اس میں سے ایک کو پولیس نے اترپردیش کے سنبھل شہر سے گرفتار بھی کیا تھا۔ پولیس کا  یہ بھی دعویٰ تھا کہ مولانا قاسمی اور سنبھل سے گرفتار کئے گئے شخص کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہواتھا ،لیکن پولیس ایک بھی خط عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔ پولیس نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ مولانا نے  ایسی تقاریر کی ہیں جس میں انہوں نے لوگوں کوتشد د کے لئے ابھارا تھا، لیکن پولیس اس طرح کی کوئی بھی تقریرعدالت میں پیش نہ کرسکی۔

حالاں کہ اس معاملے میں پولیس نے گذشتہ سال جون میں مولانا سمیت 5ملزمین کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کردی تھی، لیکن پٹیالہ ہاؤس کے ایڈیشنل سیشن جج سدھیر شرمافرد جرم عائد کرتے وقت دفاع اور استغاثہ  کی بحث سننے کے بعد اس فیصلے پر پہنچے کہ پولیس مولانا کے خلاف لگائے گئے الزامات کو عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے اور وہ اس ضمن میں کوئی ثبوتبھی پیش نہیں کرپائی ہے  اسی لئے فاضل جج نے مولاناکا نام مقدمہ چلائے بغیر ہی اس کیس سے خارج کردیا۔

واضح رہے کہ مولانا انظر شاہ قاسمی کی شخصیت  بنگلو ر،کرناٹک اورجنوبی ہند کے ایک بڑے حصے میں معروف ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا مختلف مساجد سے بحیثیت امام و خطیب وابستہ رہے اور گرفتاری کے وقت آپ بنشنکری علاقے کی مسجد سے بحیثیت امام و خطیب اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ پولیس نے مولانا قاسمی  کو جنوری 2016میں گرفتار کیا تھا۔ اس وقت بنگلور اور کرناٹک سمیت ملک کے مختلف حصوں میں عوام نے گرفتاری  کے خلاف احتجاج بلند کیا تھا۔ملک کے متعدد اداروں اور تنظیموں نے مسلکی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر مولانا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یگانگت کیا تھا۔ مولانا کے اہل خانہ نے شروع سے ہی ان سارے الزامات کو غلط اور فرضی قراردیا تھااور اس بات کو بار بار دہرایا کہ اگر ان کے ساتھ انصاف ہوا تو مولانا بہت جلد ہی بری ہوجائیں گے۔

جنوری 2016سے مولانا مسلسل جیل میں ہیں اور ان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خطرناک الزام سے باعزت بری ہونے کی مولانا انظر شاہ کی کہانی نئی ہے بلکہ گذشتہ چند سالوں سے اس طرح کی خبریں مسلسل آرہی ہیں کہ عدالتوں نے کہیں 5سال،کہیں 10 توکہیں 14سال بعد مقدمہ چلانے اور معصوم افراد کو دہشت گردی کے الزام میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بے گناہ پایا ہے۔

غور طلب ہے کی چند سال قبل دہلی کی جامعہ ٹیچرس سولیڈارٹی ایسوسی ایشن نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں صرف دہلی کے ایسے 16 مقدمات کی تفصیل پیش کی تھی جس میں درجنوں ملزمین کو سالہا سال عتاب کا شکار ہونا پڑا اور بالآخر عدالت نے ان کو بے گناہ قراردیا۔لیکن اس سلسلے میں خاطی پولیس افسران کی جواب دہی آج تک طے نہیں ہوسکی ہے شاید اسی لئے بے گناہوں کے بری ہونے کے باوجود بھی پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے رویے میں کئی فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔