حقوق انسانی

گورکھ پور میڈیکل کالج میں اکتوبر کے 15 دنوں میں 231 بچّوں کی موت

گورکھ پور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بدنظمی کا سلسلہ جاری ہے۔ اگست مہینے میں بچّوں کی موت کو فطری بتانے والی یوپی حکومت کے وزیر اب اس بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

GorakhpurCollegeReutersآکسیجن کی کمی سے یوپی کے گورکھپور بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچّوں کی موت کے واقعات کے دو مہینہ بعد بھی ایڈمنسٹریشن  میں کوئی تبدیلی ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ اگست کے بعد ستمبر مہینے میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے بچّوں کی موت میں اضافہ ہوااور اکتوبر مہینے کے 15 دنوں میں 231 بچّوں کی موت ہو چکی ہے۔

بی آر ڈی میڈیکل کالج میں صفائی کی حالت بدتر ہے، وسائل کی کمی ہے، ڈاکٹراوردوسرے ملازموں کو وقت پر  تنخواہ تک نہیں مل رہا ہے۔بی آر ڈی میڈیکل کالج کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں ہونے پر گورکھپور کے ضلع مجسٹریٹ نے سخت لفظو ں میں  تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے، ‘کالج میں کام کو پورا کرنے  کے لئے کوئی واضح نظام متعین نہیں ہے جس کی وجہ سے ہرایک شخص کام کی ذمہ داری سے آزاد ہوکر دوسرے پر جوابدہی ڈالنا مناسب سمجھتا ہے۔ ‘

10 اگست کی شام 7:30بجے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں لکویڈ آکسیجن کی سپلائی ٹھپ ہو گئی تھی۔یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کیونکہ آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کے قریب 70 لاکھ روپے کی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔لکویڈ آکسیجن ختم ہونے کی بات جانتے  ہوئے بھی آپشن کے طور پر خاطر خواہ جمبو آکسیجن سلینڈر کا انتظام نہیں کیا گیا ،جس سے 100 بیڈ والے انسیفلائٹس وارڈ اور 54-54 بیڈ کے ایپڈیمک وارڈ 12اور 14 میں آکسیجن سپلائی متاثر ہوئی۔ اس دوران دو دنوں میں 34 بچّوں اور 18جوان لوگوں  کی موت ہوئی۔

اس حادثے میں آکسیجن کی کمی سے بچّوں کی موت کی بات کو حکومت اور انتظامیہ پہلے دن سے ہی نہیں مان رہی تھی۔ اب تو حکومت نے مختلف تفتیشی کمیٹیوں کا حوالہ دیتے ہوئے صاف کہا ہے کہ آکسیجن کی کمی سے کسی کی بھی موت نہیں ہوئی پھر بھی اس معاملے میں بد عنوانی، پرائیویٹ پریکٹس، فرائض کے ادائیگی میں لاپروائی کے الزام میں میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل، ان کی بیوی، دو ڈاکٹر اور پانچ دیگر لوگوں کے خلاف  انسانی قتل کی سزا کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے۔ یہ سبھی لوگ اس وقت جیل میں ہیں۔ نچلی عدالت سے ضمانت خارج ہو گئی ہے۔

اس حادثے کے بعد بی آر ڈی میڈیکل کالج میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی اور وقت سے تنخواہ نہیں ملنے، ضروری اوزاروں کی کمی اور بد انتظامی کی باتیں عام  ہوچکی ہیں۔

یہ بات بھی عام ہوئی کہ نیونیٹل انٹیسوکیئر یونٹ (این آئی سی یو) میں ایک بیڈ پر تین سے چار بچّوں کو رکھنا پڑ رہا ہے۔ یہاں وارمر بیڈ کی کمی ہے، جس کے بارے میں میڈیکل کالج انتظامیہ سے لےکر لکھنؤ تک کے افسروں کو ایک سال سے واقف کرایا جا رہا ہے لیکن اس پر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔این آئی سی یو کی توسیع کی تجویز پر بھی ایک سال سے ذمہ دار خاموش ہیں۔ اسی طرح پیڈیاٹرک آئی سی یو (پی آئی سی یو) کو اپ گریڈ کرنے کی مانگ کو بھی ان سنا کیا جا رہا ہے۔پی ایم آرتو بند ہونے کے حالت میں  ہے کیونکہ وہاں کام کررہے  طبی عملوں کو 26 مہینے سے تنخواہ ہی نہیں مل رہی ہے۔

آکسیجن حادثے کے بعد بی آر ڈی میڈیکل کالج میں پندرہ دنوں  سے زیادہ وقت تک وزیروں اور دلّی سے لکھنؤ تک کے بڑے افسروں کے دورے ہوتے رہے۔ اس سے ایسا لگا کہ انتظامات درست ہو جائیں گے۔ڈی ایم نے اپنی سطح سے ایک کمیٹی تشکیل کی جو روز میڈیکل کالج کا دورہ کر وہاں کی خامیوں کے بارے میں رپورٹ دے‌گی۔ کمیٹی کے چاروں ممبر روز میڈیکل کالج کا دورہ کر اپنی رپورٹ بھی دے رہے ہیں ،لیکن کوئی تبدیلی  نظر نہیں آرہی ہے۔سب ایک دوسرے کو خط لکھ رہے ہیں اور حالات پہلے جیسے ہی  ہیں۔

میڈیکل کالج میں تمام وارڈوں میں کتّے گھومتے اور آرام فرماتے مل جائیں‌گے۔ ایپڈیمک وارڈ نمبر 12کے پاس گندا پانی پورے دن پھیلا رہتا ہے۔ یہی حال ایپڈیمک وارڈ 14 کا ہے۔ یہاں پر انسیفلائٹس اور دیگر بیماریوں میں مبتلا بالغ مریض بھرتی ہوتے ہیں۔ یہاں کے کئی ائیرکنڈیشن کام نہیں کر رہے۔ اس کا آئسولیشن کمرہ، ہرطرف سے کھلا ہے۔ گرمی سے پریشان تمام مریض خود پنکھے کا انتظام کرتے ہیں۔10 اگست کے بعد محض ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ این آئی سی یو کے لئے 24نئے وارمر منگائے گئے اور تین کیبن میں ان کو انسٹال کر دیا گیا۔ اس سے این آئی سی یو میں سیپٹک، اسیپٹک، کنگارو مدر کیئر کے کیبن الگ الگ ہو گئے۔

بیڈ کی تعداد بھی بڑھ گئی ،جس سے ایک ہی بیڈ پر چار چار بچّوں کو رکھنے جیسی حالت نہیں رہی ،لیکن ان بڑھے ہوئے بیڈ کے لئے نرسوں کا انتظام آج تک نہیں ہو سکا۔

فوجی فلاح و بہبود  کارپوریشن کی طرف سے جن 6نرسوں کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی، وہ کام پر آئی ہی نہیں۔ آخر میں ان کو ہٹا دیا گیا لیکن ان کی جگہ پر نئی تقرری نہیں ہو پائی، جس کی وجہ سے پہلے سے کام کر رہی نرسوں پر کام کا بوجھ کافی بڑھ گیا ہے۔اس کے علاوہ دوسرےاسپتالوں سے 18ڈاکٹر منگائے گئے جو اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ انسیفلائٹس وارڈ میں کام کر رہے  تقریباً 300 معالج،نرسوں،وارڈ بوائے اور دیگر ملازمین کو پچھلے تین مہینے جولائی، اگست، ستمبر کی تنخواہ نہیں ملی ہے۔

دیوالی کے ایک دن پہلے ان کی ایک مہینے کی تنخواہ دی گئی۔ ان ملازمن کا 18 مہینے کے ایریئر کی بھی ادائیگی نہیں ہوئی۔ ملازمین نے اس تعلق سے کئی بار پرنسپل کو خط دیا لیکن وہ تنخواہ دلانے میں ناکام ہوئے۔آخری بار چار اکتوبر کو قریب 100 ڈاکٹر، نرس اور ملازم ان کے دفتر میں تنخواہ نہ ملنے کی شکایت لےکر  گئے تو وہ انہی پر ناراض ہو گئے اور کہا کہ اپنی بات کہنے کے لئے صرف دو سے تین لوگوں کو ہی آنا چاہئے تھا۔

ان ملازمین کے لئے دسہرہ، محرّم، دیوالی، دھن تیرس جیسے تہوار اور عید پھیکے رہے۔ ان ملازمین کی آکسیجن حادثہ کے پہلے بھی 6 مہینے کی تنخواہ بقایہ تھی جو ان کو اگست مہینے میں ملی تھی۔اس کے علاوہ تمام نرسوں کا زچگی لیو، میڈیکل لیو کا پیسہ نہیں ملا ہے۔ پی ایم آر شعبے کے 11ملازمین کا تو اور بھی برا حال ہے۔ ان کو 28 مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ ان کو تنخواہ دینے کے بارے میں کوئی بات بھی نہیں کر رہا ہے۔

آکسیجن حادثہ  کے بعد انچارچ پرنسپل بنے پی کے سنگھ نے اگست مہینے میں کہا تھا کہ متعلق افسر چھٹی پر ہیں، اس لئے تنخواہ نہیں مل پا رہی ہے۔ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں انہوں نے کہا کہ افسر آ گئے ہیں اور اس معاملے کو دیکھا جا رہا ہے۔اسی بیچ بی آر ڈی میڈیکل کالج کےسی ایم ایس اور پیڈیاٹرک، صدر شعبہ کے درمیان اس بات کے لئے خط و کتابت والی  جنگ شروع ہوئی کہ انسیفلائٹس کی رپورٹنگ کون کرے۔پہلے کے نظام کے مطابق سی ایم ایس آفس ہی اس کی رپورٹنگ کرتا رہا ہے، لیکن اب سی ایم ایس کہہ رہے ہیں کہ پیڈیاٹرک شعبہ اس کی ذمہ داری اٹھائے۔

پیڈیاٹرک شعبے کی صدر کہہ رہی ہیں کہ ان کا شعبہ بچّوں کے علاج کرے کہ رپورٹنگ کا اضافی کام دیکھے۔ ادھرڈی ایم، بی آر ڈی میڈیکل کالج انتظامیہ سے اس بات پر ناراض ہو گئے ہیں کہ ان کے ذریعے بنائی گئی ٹیم کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔انہوں نے پرنسپل کو 20ستمبر کو لکھے ایک خط میں کہا کہ تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ پروضاحت دستیاب نہیں کرائی جا رہی ہے۔

پرنسپل نے ڈی ایم کا خط سی ایم ایس کو فارورڈ کر دیا اور ان سے  وضاحت دینے کو کہا۔ میڈیکل کالج میں نظام سدھارنے کے لئے اسی طرح سے کام ہو رہا ہے۔ان سب کے درمیان بچّوں کی موت چاہے وہ انسیفلائٹس سے ہو اور دیگر بیماریوں سے، بڑھتی جا رہی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی موت کے اعداد و شمار تو بےحد پریشان کر دینے والے ہیں۔ اگست مہینے میں بی آر ڈی میڈیکل کالج میں نوزائیدہ  بچوں سمیت 415 اور ستمبر مہینے میں 433 بچّوں کی موت ہوئی۔

اکتوبر مہینے کے 15دنوں میں 155نوزائیدہ بچوں سمیت 231 بچّوں کی موت ہو چکی ہے۔ اگست مہینے میں بچّوں کی موت کو فطری بتانے والی یوپی حکومت کے وزیر اب اس بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور گورکھ پور فلم فیسٹیول کے منتظمین میں ہیں۔)