فکر و نظر

مغلوں سے انگریزوں کا موازنہ کتنا صحیح؟

ہندوستان میں انگریزوں کے دیر سے آنے اور جلدی چلے جانے سے غمزدہ روحیں ذرا یہ بھی پتا لگائیں کہ ان ایک سو نوے سالوں میں انگلینڈ کی فی کس آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا؟

British_Raj_1904_-_1906_23

ادھر دیکھنے میں آرہا ہے کہ مغل سے انگریزوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ انگریزی حکومت تو بہت اچھی تھی، ریل لائی،ٹیلی گراف لائی ……

اس طرح کے”راشٹروادیوں”کے علاوہ بھی بہت سے جنوادی اورترقی پسندلوگ بھی ہندوستان میں انگریزی حکومت‌ کے تئیں بہت زیادہ احسان مندی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت میں اپنی کتاب “اَکتھ کہانی پریم کی: کبیر کی کویتا اور ان کا سمے”(2009)کا ایک حصہ پیش کر رہا ہوں؛

ہندوستان میں انگریزی راج کے رول کے بارے میں مائک ڈیوس کی کتاب ‘ لیٹ وکٹورین ہولوکاسٹس:ایل نینو فیمائنس اینڈ میکنگ آف دی تھرڈ ورلڈ'(2001)میں کچھ باتیں ہیں۔ یوروپ میں ‘ہولوکاسٹ’لگ بھگ ایک طے شدہ اصطلاحی لفظ ہے۔ اس لفظ کا استعمال بیسویں صدی میں، نازیوں کے ذریعے کئے گئے یہودیوں کی نسل کشی کے لئے کیا جاتا ہے۔ مائک ڈیوس یاد دلانا چاہتے ہیں کہ  انتہائی دریادل انگریزی حکومت بےحدنرم دل اور مشفق وکٹوریہ کے عہدحکومت میں ہندوستان میں ویسا ہی کچھ کر رہی تھی۔ ڈیوس کے مطابق1878-1876کے تین سالوں میں 60 سے 80لاکھ ہندوستانی قحط کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔

97-1896اور پھر 1900-1800کے قحط میں مرنے والوں کی تعداد تھی،پونے دو کروڑ سے دو کروڑ کے بیچ یعنی،راج راجیشوری، ‘چاندی کی کٹوری سی وکٹوریہ رانی ‘کے دورحکومت کے ان لگ بھگ پچیس سالوں میں،اوسطاً ہرسال،زیادہ نہیں،صرف 10لاکھ لوگ کال کے گال میں سما گئے تھے۔

28 اپریل 2009 کے ‘دی ٹائمس آف انڈیا ‘ میں معروف ماہر اقتصادیات جان دریج نے ایک مضمون لکھا۔ ان کا ارادہ نیک ہی تھا۔ ہندوستان کے سارے مسائل غیرملکیوں نے ہی پیدا کیے ہیں ،اس خیال کی تردید ضروری ہے۔ لیکن تاریخی حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔دایاں محاذکی سیاست کے خلاف اس وقت پالی مکس کے جوش میں نوآبادیاتی اقتدار کو حسن سلوک کی بےبنیاد سنددینے کے نتیجے خراب ہی ہوتے ہیں، آپ کے ارادے کتنے ہی نیک کیوں نہ ہوں۔ جان دریج نے بڑے جوش کے ساتھ نشان زد کیا ہے کہ رامائن اور مہابھارت کے زمانے میں بھی ہندوستان میں قحط پڑتے تھے۔ ہندوستان تکثیری سماج ( Land of abundance)  کبھی بھی نہیں تھا۔بالکلیہ سچ ہے۔ ماقبل برٹش، ہندوستان کے پچھڑےپن کی قطبی سچائی کی ، بھلا کون ‘مقصدی شعور سے مالا مال ‘آدمی  تردید کر سکتا ہے،اسی کے ساتھ مائک ڈیوس اور دیگر سنجیدہ محققین کے ذریعے نشان زد کی گئی اس چھوٹی سی حقیقت کو بھی یاد رکھنے کی گزارش ہے کہ 1770 سے 1890 کے درمیان کے ایک سو بیس سالوں کی “جدید”مدت میں ہندوستان میں31 بڑے قحط پڑے تھے اور اس کے پہلے کے ” پچھڑےپن ” کے پورے دو ہزار سالوں میں 17۔

اکیلے 1770-1769میں ہی، کمپنی کی لوٹ اور موسم کے قہر نے مل‌کر، “بنگال کی ایک تہائی آبادی کو بھوک مری اور موت کے منھ میں دھکیل دیا تھا “۔ اس وقت بنگال کی آبادی تھی، ڈیڑھ کروڑ، اس کا ایک تہائی یعنی پچاس لاکھ لوگ!یہ سلسلہ دوسری جنگ عظیم کے دوران”ترقی پسند”انگریزی حکومت کے ذریعے پیدا کئے گئے، ‘ بنگال کے قحط’ تک جاری رہا۔

علامتی تصویر

قدرتی آفات سے زیادہ سخت تھی نوآبادیاتی اقتدار کی بےرحمی۔ قحط پہلے بھی پڑتے تھے، لیکن’مشرقی استبدادی حکومت’ (اورینٹل ڈیسپاٹزم)کا شکار جن کو بتایا جاتا ہے، وہ ماقبل برطانوی حکمراں فصل کی بنیاد پر لگان لیتے تھے۔ جس سال فصل اچھی نہ ہو، اس سال کسان کی دین داری اپنےآپ گھٹ جاتی تھی۔ ‘ترقی پسند’انگریزی حکومت کو اپنی جنگوں کے لئے پیسہ چاہیے تھا، اس نے پیداوار  کی مقدار کے بجائے  کاشت کی بنیادپر’ریونیو’وصول کرنا شروع کیا۔ اوپر سے قحط وغیرہ کے وقت حکومت کے ذریعے راحت دینے کی’رجعت پسندی’ ہندوستا نی حکمرانوں کے پچھڑےپن میں مبتلا طریقہ کو پوری طرح ترک کر دیا۔

 1878 کی قحط کمیشن کی رپورٹ میں دو ٹوک کہا گیا، ‘قحط کے وقت کسانوں اور رعایا کو راحت دینے کا اصول اگر مان لیں، تو یہ بھی ماننا ہوگا کہ دوسری حالتوں میں بھی راحت دی جائے۔ ایسا مان لینے کے نتائج نقصان دہ ہوں‌گے’۔ایسے مہلک نتائج سے ‘راج’ کو بچانے کے لئے وائسرائے لٹن نے مقامی حکمرانوں کو کڑی ہدایت دی کہ ‘قیمتیں گھٹانے کے لئے سرکاری طور پر کسی بھی طرح کی کوئی مداخلت کرنے کی بات سوچیں تک نہیں’اور’ انسان دوستی والی باتیں یا پاگل پن'(ہیومن ٹیرین ہسٹیرکس)کی بیماری سے بچ‌کر رہیں۔ 1899 کے قحط کے پیش نظر لارڈ کرزن نے فرمایا کہ’قحط زدہ لوگوں کی مدد کرکے ان کی خود مختاری کو گھٹانا اور ان کی اخلاقی طاقت کو کم کرنا، اصل میں پبلک کرائم ہوگا ‘۔

ہندوستان کے عام لوگوں کی عزت نفس کی اس المناک ‘کرزنی سوچ’ سے جو گدگد نہ ہو جائے، انگریزوں کے حساب سے بھی اور آج کل کے کچھ انقلابیوں (اور راشٹروادیوں)کے حساب سے بھی، وہ احسان فراموش ہے!

1899-1900 عیسوی یعنی وکرمی سن 1956۔ ‘ چھپّنیا قحط ‘شمالی ہندوستان کےعوامی حافظے میں لمبے عرصے تک قدرت کے قہر اور اقتدار کی بےرحمی کا استعارہ بن‌کر موجود رہی۔ قدرتی آفت اور  حکومت کی بےرحمی کےڈراونے اتفاق کو’ چھپّنیا قحط جیسا حال ‘کہتے  خاندان اور محلے کے بزرگ مجھے آج تک یاد ہیں۔

قحط بلاشبہ پہلے بھی پڑتے تھے، حالانکہ انگریزی حکومت‌کے ترقی پسند قدم پچھڑے ہندوستان میں پڑنے کے پہلے نہ تو اتنی جلدی جلدی پڑتے تھے، نہ اتنے لوگوں کو اپنی گرفت میں لیتے تھے۔’مشرقی استبدادی حکومت’قحط کے وقت راحت پہنچانے کو ہیومنٹیرین ہسٹیرکس کی بیماری نہیں، حکمراں کا فرض مانتی تھی۔ 1857 کے باغی جس “قدیم نظام” کی طرف داری میں ہونے کی وجہ سے رنگ برنگے انقلابیوں کے عتاب کا شکاربنتے ہیں، اس کو یہ فخر سچ مچ حاصل نہیں ہو سکتا تھا کہ اوسطاً ہرسال دس لاکھ موتیں قحط کی وجہ سے ہو جائیں، اور حکمراں ‘انسان دوستی کی بیماری ‘سے دور رہیں!

برٹش حکومت کو دلتوں -پچھڑوں کا نجات دہندہ اور 1857 کے باغیوں کو برہمنوادی  بتانے والوں کو اندازہ لگانا چاہیے کہ چوتھائی صدی میں قحط کی وجہ سے کال کے گراس میں سماجانے والے ہمارے ان ڈھائی-تین کروڑ بدقسمت آباواجداد میں سے کتنے دلت -پچھڑے رہے ہوں‌گے اور کتنے برہمنوادی!

خود برٹش انتظامیہ کی ایک رپورٹ (1881)کے مطابق قحط کے شکار بننے والوں میں سے اسّی فیصدی سماج کے بےحد پسماندہ طبقات کے تھے!

غریبی سے لڑنے کو کمیٹیڈجان دریج اور مختلف انقلابیوں کے حافظے سے مائک ڈیوس کے ذریعے نشان زد یہ بات بھی غائب ہے کہ “ہندوستان میں برٹش حکومت‌کی تاریخ کو اگر ایک بات میں سمیٹنا ہو تو وہ بات ہے : 1757 سے لےکر 1947 تک ہندوستان کی فی شخص آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا “۔

 ہندوستان میں انگریزوں کے دیر سے آنے اور جلدی چلے جانے سے غمزدہ روحیں ذرا یہ بھی پتا لگائیں کہ ان ایک سو نوے سالوں میں انگلینڈ کی فی کس آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا۔

نیال فرگیوسن نے 2002 میں ایک کتاب لکھی تھی ‘ انپائر :دی رائز اینڈ ڈمائز آف دی برٹش ورلڈ آرڈر اینڈ دی لیسنس فار دی گلوبل پاور’۔اس میں انہوں نے برٹش حکومت کو دنیا بھر میں قانون کی حکومت قائم کرنے، اور بیوقوف غیریورپیوں کےشعور کی”جدیدکاری”کا سہرا تو دیا ہی، گرمٹیا مزدوری کے”ترقی پسند”رول پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ بہار،اترپردیش،آندھرپردیش اور تمل ناڈو سے جو لاکھوں لوگ غلام بناکر ماریشس اور ویسٹ اینڈیز لے جائے گئے، جن کے اوپرسخت ظلم کئے گئے، فرگیوسن کے مطابق ان کو بھی برٹش حکومت کا احسان مند ہونا چاہیے، کیونکہ آخرکار ان کو روزگار تو ملا۔ عالمی تجارت کی ترقی میں تو اس کم خرچ، ‘ ریشنل ‘نظام کی خدمات مسلم الثبوت ہے ہی۔ پہلے، مصنوعی قحط کو پیدا کرنا، کروڑوں لوگوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے مجبور کر دینا،پھران کوغلام بناکر ہزاروں میل دور لے جاکر پٹک دینا،سامراجی’عقلیت پسندی’اور’  سولائزنگ مشن ‘ کا ماحصل یہی تھا۔

فرگیوسن صاحب کو افسوس اسی بات کا ہے کہ احسان فراموش غیریورپیوں کی وجہ سے یہ ‘ مشن ‘ پورا نہ ہو سکا،اور اب ‘ گلوبل پاور ‘ کے لئے ‘سبق’ یہی ہے کہ وہ اس نامکمل مشن کو جلدی سے جلدی سے پورا کرے۔

جہاں تک غیرمہذب غیریورپیوں کو قانون کی حکومت سکھانے کی بات ہے، تو ایک قانون 1836 میں بنایا گیا ‘ ٹھگی ایکٹ ‘ بھی تھا، جس میں انتظام کیا گیا تھا،” جس کسی کے بھی بارے میں یہ ثابت ہو کہ وہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد یا پہلے ٹھگوں کے گروہ سے وابستہ رہا ہے، اس کوبامشقّت عمر قید دی جائے‌گی “۔یعنی ضروری نہیں کہ کوئی ٹھگی کا جرم کرے، ساری عمر جیل میں سڑانے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ کبھی، کسی زمانے میں اس کا تعلق ‘ ٹھگوں کے کسی گروہ سے ‘رہا ہو۔

کیا ہو سکتا ہے،اس سے بہتر قانون کاراج! کیا ہو سکتا ہے، اس سے بہترین ڈھنگ گنوار، بیوقوف ہندوستانیوں کو قانون راج سکھانے کا۔ سارے کے سارے انسانی ہجوم کو پیدائش سے ہی مجرم گردان کر، ان سے کبھی بھی وابستہ رہے کسی بھی انسان کو پیدائش سے ہی سزا کے لائق مجرم ماننے کے ایسے کارنامے اور بھی کئے گئے تھے۔ نوآبادیاتی اقتدار اورگیان کانڈ(وید کے ایک خاص شعبے کا علم جس میں انسان اور کائنات کے آپسی رشتوں کی تاویلیں موجود ہیں۔) کی ہندوستانی سماج کے ذات پات والے نظام  کے ساتھ ہمنوائی فطری ہی تھی۔

(پرشوتم اگروال ہندی ادب کے ممتاز نقاد ،فکشن رائٹر اور دانشور ہیں۔)