فکر و نظر

پہلے شہر میں سیاست ہوتی تھی، اب شہروں کی سیاست ہوتی ہے

ہمارے شہر ہماری سیاست اور ہمارے سماج کو دکھاتے ہیں۔ شہر سماجی اور ثقافتی طریقوں اور رنگارنگیوں کا اسپیس کم اورحصول دولت کا ذریعہ زیادہ بن گیا ہے۔خاص کر ‘ چھوٹے ‘ شہر جو اب واقعی چھوٹے رہے نہیں۔

Saffron-Bus-Uttar-Pradeshارٹیاں اور حکومتیں بدلتی ہیں تو صرف نکڑ اور چوراہوں پر لگے اشتہار ہی نہیں بدلتے بلکہ سارے کے سارے شہر کا پوشاک بدل جاتا ہے۔شہر اور رنگ میں وابستگی تو ہوتی ہے۔ بات اگر پہچان کی ہے تو شاید ہونی بھی چاہیے۔ ایک مخصوص لُک آتا ہے جب کسی بھی شہر کی کچھ عمارتیں یا وہاں کی عوامی سہولت کے وسائل ایک ہی رنگ میں ڈھکے ہوتے ہیں۔

لندن کی بسیں لال ہیں، تو برلن کی میٹرو پیلی۔ ایک رنگ کسی شہر کی ایک الگ پہچان بھی بناتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کچھ صفحوں کو بھی دکھاتا ہے۔اس کے ہونے کی وجہ سے کبھی تاریخی ہوتے ہیں اور کبھی ماحولیاتی۔ لندن کی سڑکوں پر رکتی-دوڑتی بسیں ساتھ میں کچھ تاریخ بھی لئے گھومتی ہیں۔

گزشتہ سو سال سے زیادہ عرصہ سے وہاں کی بسیں لال ہیں۔ ان کے ماڈل بدلتے چلے گئے، دروازے کھلنے اور بند ہونے کی تکنیک بدلتی گئی، اس میں آنے جانے والے لوگ سواری  سے کسٹمر بن گئے اور کالا کوٹ پہن‌کر کھڑی ٹکٹ کنڈکٹر کی جگہ پیلے رنگ‌کے کارڈ ریڈر لگ گئے۔ لیکن بسوں کا رنگ وہی رہا لال، جس کو لندن ٹرانسپورٹ نے 1933 میں ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی سے اپنایا تھا۔

الگ الگ سیاسی پارٹیوں کے میئر بدلنے سے پالیسیاں ضرور بدلیں، کھڑکیوں کے کھلنے پر بھی پابندی لگی، لیکن رنگ نہیں بدلے۔اب جب لیبر پارٹی کے صادق خان میئر بنے ہیں تو بورس جانسن کے زمانے کی بسیں اور پالیسیاں دونوں بدلیں‌گی، لیکن شاید ہی رنگ بدلے۔اگر بدل جائے تو نہ جانے ان سیکڑوں چھوٹے-چھوٹے فنکاروں کا کیا ہوگا جو ایک سفید کاغذ پر اگر صرف ایک سڑک، ایک لال بس اور کچھ عمارتیں کھینچ دے تو دیکھنے والا جھٹ سے کہہ دے ‘ لندن ‘۔

بس‌کے بغل یا پیچھے یا کسی موڑ پر اگر لال رنگ کا ہی فون بوتھ بھی بنا دے تو پھر بچا-کھچا خدشہ بھی دور۔اب اگر یہ رنگ بدل جائے تو تصویر دکھانا بھی مشکل ہو جائے‌گی اور دیکھنا بھی، فنکار کا تصور بھی طنز ہو جائے‌گا اور فن کی پہچان بھی اور  شہر کی پہچان بھی بدل جائے‌گی۔پرانی تصویروں پر نئے رنگ چڑھانے ہوں‌گے اور نئے شہر میں پرانے رنگ‌کی تاریخ کو عجائب گھروں میں ڈھونڈنا پڑے‌گا۔ ویسے، فون بوتھ ابھی بھی سڑک کنارے تاریخ، شہر اور شہر کی سیکس لائف کے اشتہارات کا محافظ خانہ بنے کھڑے ہیں۔

ہندوستان تو تاریخ اور رنگوں کا ملک ہے۔ جہاں ایشور یا اللہ کو ہی رنگریز کہا جائے، وہاں رنگوں کی اہمیت پر کیا بولنا۔ ماتا کا دوپٹہ لال، شیو کا کنٹھ نیلا، سرسوتی کی ساڑی پیلی۔الگ الگ رواجوں کے الگ الگ رنگ۔ الگ الگ رنگوں کی الگ الگ روایت۔ سیاست بھی ان سے اچھوتی نہیں ہے۔ انتخابی سیاست بھلےہی لال اور بھگواکے درمیان جم کر آمنے سامنے نہ ہوئی ہو لیکن نظریاتی قطب تارا خصوصاً انہی دو رنگوں سے بنا ہے۔

رویش کمار نے بڑے انداز  سے ‘ عشق میں شہر ہونا ‘ بتلایا۔ ایک نظر یوں ہی پھیر لیتے ہیں کہ شہر میں رنگ ہونا کیسا دکھتا ہے۔چھوٹے شہروں میں اب رنگوں کی کثرت ہے۔ عمارتیں روپا، ایئرٹیل اور اپّو کے بینر اور بل بورڈوں سے پٹی پڑی ہیں۔ بجلی کے ستونوں پر تاریں کم اور رنگ-برنگے نوٹس بورڈ زیادہ نظر آتے ہیں۔

نیا کباب سینٹر، گپتا سوئٹس اور چھ ہفتے میں تیز رفتار انگریزی بولنے کا کرنٹ پورے شہر میں دوڑ سا گیا ہے۔گھروں کے ایک طرف کی لمبی دیواروں پر کبھی امبوجا سیمنٹ کا باہوبلی دکھتا ہے تو کبھی کینٹ کی تشہیر کرتیں ہوئیں ہیما مالنی کی بھروسہ مند مسکان۔ روٹی، کپڑا اور مکان میں اگر موبائل جوڑ دیں، تو آج کل کے شہروں کے اشتہارات کا حال بیاں ہو جائے۔

بڑے شہر کچھ الگ ہیں۔ دلّی کی عمارتوں کی تاریخ شاہی ہے اور انداز بھی۔ لٹینس کی دلّی کے نئے میٹرو اسٹیشن بھی پرانے پتھروں کی یاد دلاتے ہیں۔اور اب ہمارے پاس دلّی کی سفید میٹرو بھی ہے جو فلموں میں دور سے لئے ہوئے شاٹس میں بےحد حسین بھی لگتی ہے۔ ابھی تک تو سفید ہے اور شاید آگے بھی ویسی ہی رہے لیکن ہمارے یہاں کا مزاج کچھ زیادہ ہی رنگوں سے شرابور ہے۔ اس رنگین مزاج کا اثر شہروں پر بھی دکھتا ہے۔ سیاست کا گھول رنگوں کو گاڑھا بھی بنا دیتا ہے اور بےمعنی، بد رنگ بھی۔

امید ہے کہ کچھ اصول تو ہوں‌گے حکومت کے پاس کہ سیاسی پارٹیوں کے بدلنے سے شہر میں کیا بدلنا جائز ہے اور کیا نہیں۔ ویسے لگتا نہیں ہے کہ ان سب معاملات کے لئے ایسا کوئی فعال قانون ہے بھی۔ اس لئے جو دکھ رہا ہے اسی کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔پارٹیاں اور حکومتیں بدلتی ہیں تو صرف نکڑ اور چوراہوں پر لگے اشتہار نہیں بدل جاتے بلکہ سارے کے سارے شہر کا پوشاک بدل جاتا ہے۔ ہرجگہ نہیں، لیکن جہاں ہوتی ہے وہاں یہ تبدیلی ساری حدوں کو پار‌کر کےڈنکے کی چوٹ پر ہوتی ہے۔

کلکتّہ پر نیلا آسمان چھا جاتا ہے تو اتّر پردیش کی سڑکوں کے بغل میں اینٹ اور پتھر کے ہاتھی دکھنے لگتے ہیں۔ پڑھا تھا پہلے کہیں کہ جب اتّر پردیش میں حکومت بدلی تھی تو لکھنؤ کے کچھ بڑے ہاتھیوں پر سفید چادر ڈلوا دئے گئے تھے۔ تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ خود دیکھا نہیں۔ہاتھی کی سواری جب تھمی تو سائیکل کا زمانہ آیا۔ ہندوستان کے باہر کے ملکوں میں بھی سائیکل کا زمانہ آیا ہے، کسی سیاسی نشان کے تحت نہیں بلکہ ماحول اور جسمانی فٹنس کے معنی سے۔

برلن اور لندن جیسے شہروں میں گزشتہ کچھ سالوں میں بہت سارے سائیکل لین بنے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی بنے جیسے نوئیڈا میں، لیکن رنگوں نے پیچھا نہیں چھوڑا!ابتک تو عمارتوں پر ہی رنگوں کا نشہ تھا، اب زمین بھی رنگین ہونے لگی ہے۔ بات تو علاقے کو سبز بنانے کی تھی، لیکن پیدل راستہ اور سائیکل لین لال اور ہرے ہونے لگے۔

سیاست کی سائیکل کتنے لوگوں کی زمینی حالت بدل پائی یہ ایک الگ موضوع ہے، پر زمین کا رنگ ضرور بدل دیا۔

ہمارے شہر ہماری سیاست اور ہمارے سماج کو دکھاتے ہیں۔ شہر سماجی اور ثقافتی طریقوں اور رنگارنگیوں کا اسپیس کم اورحصول دولت کا ذریعہ زیادہ بن گیا ہے۔خاص کر ‘ چھوٹے ‘ شہر جو اب واقعی چھوٹے رہے نہیں۔ ایک بھدّا پن جھلکتا ہے سڑکوں، گلیوں اور مکانوں پر جب وہ صرف بڑی بڑی کمپنیوں کے اشتہارات کا ذریعہ بن‌کر محدود ہو گئے ہیں۔

پہلے شہر میں سیاست ہوتی تھی۔ اب شہروں کی سیاست ہوتی ہے۔ نیلا، لال، ہرا، گیروا اب سیاست کے مظہر ہیں اور شہروں کے بھی۔ اب جب پھر سے اتّر پردیش کی حکومت بدلی ہے تو انداز رنگ بھی جدا ہے۔

فی الحال تو ان ہاتھیوں کے بیچ سے گیروا بسیں دوڑیں‌گی۔ سائیکل لین پر کنول کھلیں‌گے کہ نہیں اس کا تو پتا نہیں۔

(مضمون نگار زیڈ ایم او (سینٹر فار ماڈرن اورینٹل اسٹڈیز)، برلن میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔)