حقوق انسانی

جھارکھنڈ : ایک سنتوشی مر گئی، مگر بھات کی بات ابھی باقی ہے

گراؤنڈ رپورٹ :سرکاری دعوے سے الگ جھارکھنڈ میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ آدھار اور نیٹ ورک جیسی تکنیکی دقتوں اور انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے  بڑی تعداد میں غریب ،مزدور بھوک سے جوجھنے کو مجبور ہیں۔

jharkhand_nirajکیدار ناگ نے پھٹی  پرانی تھیلی میں راشن کارڈ جتن سے رکھا ہے تاکہ کبھی کسی سرکاری نمائندے کو دکھا اور بتا سکے کہ دو سال سے ان کو اناج نہیں ملا ہے۔ مقامی مُنڈاری زبان میں وہ بتاتے ہیں کہ کئی موقعے پر بھوک سے انتڑیاں کلبلاتی ہیں۔ تب کمانے کے لئے پردیس گئے بیٹے کی یاد ستاتی ہے۔ کیونکہ دوتین مہینے پر وہی کچھ پیسے بھیج دیتا ہے۔اس آدیواسی کا درد چہرے پر چھلک اٹھتا ہے، جب گاؤں کے لوگ اس کو بتاتے ہیں کہ آدھار نہیں ہونے کی وجہ سے ان کو راشن ملنا بند ہو گیا ہے اور نیا راشن کارڈ بننا مشکل ہے، کیونکہ واضح طور پر اس کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ جس سے ان کا آدھار کارڈ بننے میں دقت ہوگی۔

جھارکھنڈ کے سمڈیگا ضلع واقع کاری ماٹی گاؤں میں گیارہ سال کی بچّی سنتوشی کی مبینہ طور پر بھوک سے ہوئی موت سرخیوں میں ہے۔ دراصل سسٹم کی خامیوں اور سرکاری دعووں کے درمیان سنتوشی بھات بھات کہتے مر گئی۔ویسے سنتوشی اکیلی نہیں۔ سسٹم کے پینچ میں الجھ‌کر جھارکھنڈ کے گاؤں ، قصبوں ، جنگلوں اور پہاڑوں کے درمیان بڑی تعداد میں غریب ، بےبس بھات روٹی کے درد کا سامنا کرتے رہے ہیں۔انہی مشکلوں کو جاننے، جنگلوں اور ناہموار راستے طے کر ہم کھونٹی ضلع کے آدیواسیوں کی آبادی والے سگا گاؤں پہنچے تھے، جہاں کیدار ناگ رہتے ہیں۔

یہ گاؤں جھارکھنڈ کی راجدھانی سے قریب ساٹھ کلومیٹر دور ہے۔ باروڈیہہ پنچایت کے اس گاؤں میں آدیواسیوں کے چالیس پریوار ہیں۔کیدار ناگ کی بیوی کی سالوں پہلے موت ہو گئی ہے۔ ایک بیٹا رامناگ کمانے کے لئے پنجاب گیا ہے، جبکہ دوسرا بیٹا باگ رائے ناگ بول نہیں پاتا۔ اس کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی باپ پر ہے۔پچکے اور ٹوٹے برتن، گندے کپڑوں کی گٹھری، مٹی کے چولہے پر کالک کی پرتیں، اور ایک کونے میں رکھا نمک اور مرچائی کے کچھ ٹکڑے۔ کیدار کے گھر کے اندرباہر کی یہ تصویر ایک نظر میں بہت کچھ بیاں کر رہی تھی۔

سنیچر کو انہوں نے دن میں موٹا والا چاول (گوڑا چاول)اور سنئی ساگ پکایا تھا۔ اس کو ہی تین پہر سے کھاتے رہے ہیں۔ وہ بتانے لگے آخر اکیلا جان کیاکیا سنبھالے۔ جینےکھانے لائق کھیت زمین نہیں ہے، لہذا خود بھی دہاڑی کھٹتے ہیں۔جبکہ سالوں سےان کی آنکھیں اسی طرح ہے، جو پوری طرح کھلتی نہیں، لیکن وہ دیکھ پاتے ہیں۔البتہ اس گنوئی انسان کو یہ پتا نہیں کہ ڈیجٹل اور نیو انڈیا کی ہوڑ میں آدھار کارڈ کون بنائے‌گا اور اس سے آنکھوں کا کیا تعلق ہے۔

اسی گاؤں کے نوجوان ناردے منڈوں اپنی کمیونٹی کے فائدہ اور گاؤں کی ترقی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے رہے ہیں۔ ناردے کی فکر ہے کہ کیدار کو کم سے کم اناج مل جاتا۔وہ بتانے لگے کئی پریواروں میں راشن کارڈ سے ممبروں کا نام غائب ہے۔ خود ان کے پریوار میں دس لوگ ہیں اور دس کلو اناج مل رہا ہے۔ناردے کی اس بات پر گاؤں کے کئی لوگ غصے کے ساتھ حامی بھرتے ہیں۔ غذائی تحفظ قانون کے تحت دو زمرے میں اناج کی حکومت تقسیم کرتی ہے۔

جن کے پاس پیلا کارڈ ہوتا ہے وہ لوگ انتیودے مانے جاتے ہیں۔ اس پریوار میں ممبروں کی تعداد چاہے جو ہو، 35 کلو اناج ان کو دیا جاتا ہے۔ انتیودے کارڈ والے بےحد لاچار، غریب، بےبس مانے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ پرائیریٹی ہاؤس ہولڈ یعنی پی ایچ اسکیم کے زمرہ میں جن کو شامل کیا گیا ہے اس میں پریوار کے فی ممبر کے حساب سے پانچ کلو اناج دیا جانا ہے۔رائٹ ٹو فوڈ کینپن سے جڑے دھیرج بتاتے ہیں کہ بڑی تعداد میں لوگوں کی ناراضگی ہے کہ گھر کے تمام ممبروں کا نام ہی کارڈ میں درج نہیں کیا گیا، جس سے وہ اپنے حق سے محروم ہو رہے۔

ظاہر ہے ہم آدیواسی-غریب جب اکٹّھے بیٹھتے ہیں، تو یہ سوال بھی اٹھتے ہیں کہ قانون سے بھوک نہیں مٹتی۔ پھر افسر بابو دوردراز گاؤں میں آتے نہیں اور غریبوں کی پہنچ سسٹم تک ہوتی نہیں۔برسی منڈوں نے اپنے شوہر اور دو بچّوں کا آدھار کارڈ بنوا لیا ہے۔برسی  بتاتی ہیں کہ ان کے سسر ساؤ منڈا کو اناج تو ملتا ہے۔ وہ لوگ الگ رہتے ہیں لیکن ابتک راشن کارڈ نہیں بنا ہے۔ ہمارے غریب ہونے کا ثبوت کسی کو چاہیے، تو گھر آکر دیکھ جائے۔ کلیبا-بیاری (صبح شام کا کھانا) جٹانے کی فکر ہمیں کس طرح ستاتی ہے۔

جھارکھنڈ کے کئی علاقوں میں اناج بانٹنے کا کام گاؤں کی ‘مہیلا سمیتیوں’ کے ذمہ ہے۔ باروڈیہہ میں یہ کام مسی اُبر مہیلا گروپ سنبھال رہی ہیں۔اس گروپ کی سربراہ میری منڈوں بتاتی ہیں کہ فہرست میں ایک درجن پریواروں کے نام نہیں ہونے سے گاؤں کے لوگ خاتون کمیٹی پر ہی شک کرتے ہیں کہ وہ لوگ اناج بیچ دیتے ہیں، جبکہ اوپر سے ہی ان لوگوں کا نام کٹ گیا ہے۔

میرو منڈوں کے بیٹے توپال منڈوں بتاتے ہیں کہ اناج سے محروم لوگوں کی درخواست آدھار کارڈ کے ساتھ انہوں نے سرکاری دفتر میں پہنچایا ہے، لیکن ابتک حل نہیں نکلا۔اسی گاؤں کے توبیس منڈوں اور سنکا ناگ غصے میں دکھے۔ توبیس کی بیٹی انیتا بتاتی ہیں کہ وہ لوگ لکڑی بیچ‌کر گزربسر کرتے ہیں۔

توبیس منڈوں کی بیوی ساودھانی منڈوں کے نام سے جاری راشن کارڈ میں جولائی 2016 کے بعد راشن نہیں ملا۔ جبکہ ان لوگوں کے پاس آدھار کارڈ بھی ہے۔ اس سے پہلے 1997 سے 2006 تک کے لئے جاری کارڈ کو بھی ان لوگوں نے سنبھال‌کر رکھا ہے۔انیتا کا سوال ہے کہ ماں یا بابا کے نام نیا راشن کارڈ کیوں نہیں جاری کیا گیا۔ راشن دکاندار کے پاس جانے سے وہ الگ ہی ڈانٹتا ہے۔ شاید غریب ہونے کی یہ سزا ہے۔جبکہ کھونٹی بلاک کے فراہم کردہ اہلکار کرن پرساد کا کہنا ہے کہ ان گاؤں کا مسئلہ سے کسی متاثر نے واقف نہیں کرایا ہے۔

حال ہی میں پورے بلاک سے 6200 لوگوں کے نام نئے سرے سے جوڑنے کے لئے انہوں نے فائل بڑھائی ہے۔ نئے انتظام کے تحت راشن کارڈ کے لئے فائدہ اٹھانے والے کو ان مراکز اور سرکاری دفتروں میں جانا چاہیے۔بی جے پی حکومت کے ایک ہزار دن پورے ہونے کے موقع پر پچھلے سات ستمبر کو اشیائےخوردنی فراہمی محکمہ کے سیکریٹری ونے چوبے نے میڈیا کے سامنے محکمے کی کامیابیاں گناتے ہوئے کہا تھا ریاست کے ہرایک شہری کو اناج دستیاب کرانے میں محکمہ کامیاب رہا ہے۔

دعویٰ یہ بھی کیا گیا کہ سو فیصد راشن کارڈ کو آدھار سے جوڑ دیا گیا ہے۔

ادھر سمڈیگا ضلع انتظامیہ کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ سنتوشی کے پریوار کا آدھار  راشن کارڈ سے جڑا نہیں تھا آٹھ مہینے سے ان لوگوں کو سرکاری اناج بھی نہیں ملا تھا۔جبکہ راشن تقسیم کے جائزےکے لئے شروع کی گئی مہم کے تحت محکمہ جاتی وزیر سریو رائے 20 اکتوبر کو جب سنگھ بھوم کے قدیم قبائلی اکثریت گاؤں اودال اور لودھاشولی پہنچے، تو سیکڑوں باشندوں نے بے بسی بتائی کہ مقامی ڈیلر نے چار مہینے سے ان لوگوں کو اناج نہیں دیا ہے۔ تب وزیر نے افسروں کی پھٹکار لگائی تھی۔

غور طلب ہے کہ سال 2015 کے اکتوبر مہینے سے جھارکھنڈ میں قومی اشیائےخوردنی تحفظ قانون نافذ کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت 56 لاکھ، چھ ہزار 879 پریواروں کو ایک روپے کی در سے گیہو ں اور چاول مہیّا کرایا جا رہا ہے۔حقیقت جاننے ہم اور بھی کئی گاؤں پہنچے، جہاں دیکھاسنا کہ بڑی تعداد میں غریب مزدور بھوک سے جوجھنے کو مجبور ہیں۔ ہزاروں لوگوں کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔ جبکہ زمینی حقیقت جانے بنا بہتوں کے کارڈ ردکر دئے گئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ریاست میں قریب 11لاکھ راشن کارڈ رد کئے گئے ہیں جبکہ قریب ساڑھے نو لاکھ نام جوڑے گئے ہیں۔ریاست کی چیف سیکریٹری راج بالا ورما نے پچھلے 27 مارچ کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے تمام ضلعوں کے افسروں سے کہا تھا کہ پانچ اپریل تک آدھار سے راشن کارڈ کو نہیں جوڑے جانے کی حالت میں اناج کا اٹھاو نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی راشن کارڈ خودبخود ختم ہو جائے‌گا۔ادھر، سمڈیگا کے واقعہ کے بعد 21 اکتوبر کو رانچی میں ‘ رائٹ ٹو فوڈ کیمپین ‘ اور ‘ نریگا واچ ‘ نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ چیف سیکریٹری کے اس حکم سے ریاست بھر میں ناموافق اثر پڑا ہے۔کیمپن اور واچ کے لوگوں نے سنتوشی کی موت کے لئے چیف سیکریٹری کو ذمہ دار بتاتے ہوئے کارروائی کی مانگ کی۔

jharkhand-1-1

‘ رائٹ ٹو فوڈ کیمپن ‘سے جڑے دھیرج کہتے ہیں :غور کیجئے حکومت کے دعووں اور گاؤں وغیرہ میں لوگوں کے بیچ الگ الگ قسم کی پریشانیوں پر۔ اس لئے ہماری مانگ ہے کہ آدھار سیڈنگ نہیں ہونے کی وجہ سے جتنے راشن کارڈ رد ہوئے ہیں انہیں بحال کئے جائیں۔اس بیچ 21 اکتوبر کو ریاست کے اشیائےخوردنی فراہمی وزیر سریو رائے نے چیف سیکریٹری کے ذریعے جاری آدھار مبنی راشن اٹھاؤ کے حکم کو ردکرنے کو کہا ہے۔ان کا زور ہے کہ چیف سیکریٹری کا یہ حکم حکومت ہند اور سپریم کورٹ کے احکام کے برعکس ہے۔اس سے پہلے بھی وزیر نے چیف سیکریٹری کے ویڈیو کانفرنس پر سوال اٹھائے تھے۔ جبکہ حکومت کی معاون آجسو پارٹی نے بھی موجودہ حالات کے لئے چیف سیکریٹری کو ذمہ دار بتایا ہے۔ان کے علاوہ وزیر نے آدھار نہیں ہونے اور مشین سے انگوٹھا میچ نہیں کرنے کی حالت میں فائدہ اٹھانے والے کو رجسٹری نظام کے ذریعے اناج دینے کو کہا ہے۔

اس بیچ مشہور ماہر اقتصادیات جیاں دریج اور  غذائی حقوق پر کام کرتے رہے بلرام نے 22 اکتوبر کو اپنی ٹیم کے ساتھ کاریماٹی گاؤں جاکر سنتوشی کی موت کے بعد پیدا شدہ حالات کا جائزہ لیا ہے۔ کھانے کے سوال اور سسٹم کے موجودہ حالات پر دونوں نے فکر جتائی ہے۔ ادھر حزب مخالف جماعتوں اور کئی سماجی اور قبائلی تنظیموں نے سنتوشی کی موت پر بی جے پی حکومت کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ مظاہرہ کا سلسلہ جاری ہے۔سابق وزیراعلیٰ ہیمنت سورین، بابولال مرانڈی سابق مرکزی وزیر سبودھ کانت سہائے، کانگریس کے ریاستی صدر سکھدیو بھگت جیسے رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت غریبی نہیں غریب کو ختم کر رہی ہے۔ بدلے میں بی جے پی ان پر  اوچھی سیاست کا الزام لگا رہی ہے۔جھارکھنڈ میں راشن کی تقسیم بایومیٹرک سسٹم سے کی جا رہی ہے۔ راشن ڈیلروں کو پی او ایس (پوائنٹ آف سیل)دی گئی ہے۔

اس سسٹم کے تحت فائدہ اٹھانے والے کو ہینڈ ڈیوائس پر انگوٹھا لگانا ہوتا ہے۔ تب ایک پرچی نکلتی ہے کہ اس کو کتنا اناج ملے‌گا۔ اشیائےخوردنی تحفظ قانون میں شفافیت کے لئے اس کو نافذ کیا گیا ہے۔ تب الگ الگ جگہوں پر غریب اپنے انگوٹھا کو دیکھ‌کر اکثر اداس ہوتے رہے ہیں کہ اس مہینے بھی بھوک تڑپائے‌گی تو نہیں۔دراصل کئی قسم کی تکنیکی خامیوں کی وجہ سے فائدہ اٹھانے والوں کے انگوٹھا کا نشان ای پاس سسٹم پر میچ نہیں کرتا۔ تب دور دراز گاؤں میں بہت سے راشن دکاندار بھی اس تکنیکی خامیوں کی واضح جانکاری نہیں دے پاتے۔ لیکن کئی جاننے والے یہ بتاتے ہیں کہ آدھار کارڈ کا ڈیٹا پی او ایس مشین کے سرور میں اپلوڈ نہیں ہے۔ اس سبب ان کو چاول نہیں مل سکتا۔

فائدہ اٹھانے والا صرف مٹی کا تیل پا سکتا ہے، کیونکہ مٹی کے تیل کے لئے انگوٹھا کا میچ کرنا ضروری نہیں ہے۔ پچھلے مہینے ہی کھونٹی میں اسی سوال پر گاؤں والوں نے  مظاہرہ کیا تھا۔اسی سلسلے میں 23 اکتوبر کو دیوگھر ضلع کے بھگوان پور گاؤں میں  روپ لال مرانڈی کی موت پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بایومیٹرک پر انگوٹھا میچ نہیں کرنے سے دو مہینے سے اس پریوار کو راشن نہیں ملا تھا۔ مرانڈی کے گھر والے بتا رہے ہیں کہ دو دنوں سے چولہا نہیں جلا تھا۔

گزشتہ دنوں کھانے کے حقوق سمیت کئی موضوعات پر کام کرتے رہے مشہور ماہر اقتصادیات جیاں دریج کی ٹیم نے انہی پریشانیوں پر سروے شروع کیا، تو فکر بڑھانے والی تصویریں سامنے آئیں۔کٹمکلّی گاؤں کی برسی دیوی اپنی 78 سال کی ماں کے ساتھ رہتی ہیں۔ دونوں کو چھ مہینے تک اناج نہیں ملے کیونکہ دونوں کے بایومیٹرک آتھنٹیکشن فیل تھے۔ان کے علاوہ کئی علاقوں میں نیٹ ورکنگ کے مسئلہ نے لوگوں کی مشکلات بڑھا دی ہے۔ کئی جگہوں پر مرد وعورت کئی کلومیٹر چل‌کر اونچی جگہوں پر پہنچتے ہیں، جہاں راشن دکاندار بھی ہینڈ ڈیوائس لےکر جاتا ہے۔ دراصل ان علاقوں میں زیادہ تر وقت موبائل نیٹ ورک کام نہیں کرتا۔

پہاڑ کی چوٹی پر ڈیوائس نے کام کیا، تو وہیں پرچی دے دی جاتی ہے۔ پھر دیہی دکاندار گاؤں کی راہ پکڑتے ہیں۔ تب زراعت-مزدوری چھوڑ‌کر کئی دنوں تک ان کو اناج کے لئے چکر لگانے ہوتے ہیں۔ کئی گاؤں میں راشن ڈیلر درختوں پر کئی قسم کا انتظام لگاکر ڈیوائس کنیکٹ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔جیاں دریج ان دنوں آدیواسیوں اور غریبوں کی اسی بے بسی پر عوام شنوائی کے ساتھ آدھار مبنی پی ڈی ایس سسٹم کا گہرا سروے کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جن کو اناج کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہی آدھار اور نیٹ ورک کی وجہ سے محروم ہو رہے ہیں۔ سنتھال پرگنہ کے کئی دوردراز قبائلی علاقوں میں حالات واقعی اچھے نہیں ہیں۔وہ لوگ آدھار مبنی بایومیٹرک آتھنٹیکشن کی تکنیک کو کئی علاقے کے لئے غیر مناسب بھی بتاتے رہے ہیں۔ اس لئے ای-پاس سسٹم میں جو خامیاں ہیں اس کو سنجیدگی سے دور کیا جانا چاہیے۔

(مضمون نگار فری لانس جرنلسٹ  ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں)