فکر و نظر

مودی جی کے لئے وزیر اعظم ہونا انتخابی دوروں کے درمیان کا ‘انٹرول ‘ ہے

 یہ شاید ملک کی پہلی حکومت ہوگی، جس کے مخالفین کی لسٹ اتنی لمبی ہے-ہندو-مخالف، گئوماتا-مخالف، ملک-مخالف اور اب ترقی-مخالف۔ گجراتی منتخب کر لیں کہ وہ اپنا نام کہاں درج کرانا چاہتے ہیں۔

Narendra-Modi-Vadodhara-Rally-PTIلگتا ہے کہ اعلان کےجوش میں خوش وزیر اعظم  بھول گئے کہ وہ دلّی میں ایک آئینی حکومت چلاتے ہیں کوئی دربارخاص نہیں کہ جس کو  چاہا اشرفیوں سے لاد دیا اور جس کو  چاہا زنداں میں ڈال دیا۔اس میں سارا قصور وزیر اعظم کا نہیں ہے۔ انتخابی جوش کا ویر رس سادھتے-سادھتے انسان آپا کھو سکتا ہے۔ پھر یہ کوئی معمولی انتخاب نہیں ہے۔ گجرات ہے۔ مودی جی کا اپنا گجرات۔یہ ان کی ‘ عزت ‘ کا سوال ہے۔ لیکن صرف اتناہی نہیں بلکہ ان کے سیاسی مستقبل کا بھی سوال ہے۔ سیاست کے آسمان میں کب اور کون سا نیا ستارہ آپ کی جگہ لے لے‌گا، کہنا مشکل ہوتا ہے۔

مودی جی سے بہتر بھلا کون جانے‌گا۔ بی جے پی کے آسمان میں بھی نئے ستارے لانچ ہو رہے ہیں۔ یوگی راج بھی اسٹاروں کی لسٹ میں اپنا نام گاڑھا کرتے جا رہے ہیں۔ادھر، مخالف بھی کم نہیں پڑ رہا ہے۔ بوکھلائے ہوئے سورما پتے کی سنسناہٹ سے بھی جارحانہ ہو اٹھتے ہیں۔ راہل گاندھی تو اچّھی خاصی چہل-پہل مچائے ہوئے ہیں۔ایسے میں غلطی ہو سکتی ہے، کسی سے بھی۔ اور مودی جی کو تو انتخابی موڈ میں رہنا زیادہ پسند ہے۔ اس میں وہ اپنا ‘ نیچرل گیم ‘ کھیلتے ہیں۔ ان کے لئے وزیر اعظم ہونا تو انتخابی دوروں کے درمیان کا ‘ انٹرول ‘ ہے۔

وڑودرا میں 3،650 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا اعلان کرتے ہوئے مودی جی نے نعرہ دیا کہ ‘ ترقی مخالف ‘ ریاستی حکومتوں کو مرکز کی طرف سے ایک پیسہ نہیں ملے‌گا۔یہ وزیر اعظم کا بیان نہیں لگتا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ مودی جی وزیر اعظم کے عہدے سے چھٹی لےکر تشہیر کرنے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی جیب سے پیسہ دینے یا نہ دینے کی بات کر رہے ہیں۔

وہ بات کر رہے ہیں مرکزی حکومت کے خزانے سے ریاستوں کو پیسہ دینے کی۔ اس لئے ان کے اس قول سے کئی سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ مرکز کے پاس پیسہ آتا ہے ملک کے شہریوں سے جو ہر ریاست میں ہیں۔اگر آپ کسی ریاست کو پیسہ نہیں دے رہے ہیں تو اصل میں آپ اس ریاست کے شہریوں پر حملہ کر رہے ہیں نہ کہ اس ریاست کی حکومت پر۔ اور اگر وزیر اعظم کا اشارہ یہ تھا کہ غیربی جے پی ریاستی حکومتوں کو پیسہ نہیں دیں‌گے تو پھر یہ تو ہر اس شہری کے خلاف اعلان ہے جو بی جے پی کو ووٹ نہیں دے‌گا یا دے‌گی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جیسی زبان کارپوریشن کا انتخاب لڑ رہے کسی نوآموز  کے لئے بھی غیر مناسب ہوگا وہ ملک کا وزیر اعظم بول رہا ہے!

لگتا ہے کہ اعلان کے جوش میں خوش وزیر اعظم بھول گئے کہ وہ دلّی میں ایک آئینی حکومت چلاتے ہیں کوئی دربارخاص نہیں کہ جس کو چاہا اشرفیوں سے لاد دیا اور جس کو جی چاہا زنداں میں ڈال دیا۔یہ دیگر بات ہے کہ وڈودرا میں ان کا انداز دربار والا ہی تھا۔ انہوں نے لوگوں کو بتا دیا کہ وہاں ایک دن میں انہوں نے 3،650 کروڑ روپے کے ‘ ڈیویلپمینٹ پروجیکٹوں ‘ کا افتتاح کیا ہے۔

وہ چاہتے تو ایسا نہیں بھی کر سکتے تھے۔ لوگوں کو ان کا احسان ماننا چاہئے اور ان کو ہی ووٹ دینا چاہئے۔ انہوں نے لوگوں کو مثال دےکر سمجھایا بھی کہ دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیں‌گے تو دلّی کے شہنشاہ ان پروجیکٹوں کو رکوا بھی سکتے ہیں۔

زبان کاانداز اور سوچ کو اگر تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھ دیں تو وزیر اعظم کا بیان دوسریوجہوں سے بھی قابل اعتراض ہے۔ مرکز اور ریاستوں کے درمیان رقم کی تقسیم آئین اورقانون کے تحت ہوتی ہے، نہ کہ وزیر اعظم یا مرکز کی مرضی سے۔اس بٹوارے میں تبدیلی کے لئے آئین اور قانونی عمل میں بھاری تبدیلی کرنی پڑے‌گی۔ ایسے میں اس طرح کی دھمکی دینے کا کیا معنی نکالا جانا چاہئے؟

کیا مرکزی حکومت ملک کے وفاقی ڈھانچے کو بدل دے‌گی تاکہ اس کی من مرضی سے ریاستوں کو پیسہ دیا جائے یا روک لیا جائے۔ یہ آسان نہیں ہوگا، لیکن آئینی ڈھانچے کےتعلق سے حکومت کا جو عام رویہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس کی منشاء کو درکنار نہیں کیا جا سکتا۔رہی بات کسی حکومت کے ‘ ترقی-مخالف ‘ ہونے یا نہ ہونے کی، تو یہ فیصلہ کون کرے‌گا اور کن بنیادوں پر؟ ‘ ترقی ‘ کے الگ الگ معنی اور راستے ہو سکتے ہیں اور وفاقی جمہوریت میں ایک منتخب کی ہوئی حکومت ترقی کے کسی الگ ماڈل کو اپنائے، اس کی گنجائش ہونی چاہئے۔ لیکن وزیر اعظم کا بیان اس گنجائش کو خارج کرتا ہے۔

وزیر اعظم کی بات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ترقی کی اختیاری تعریفوں کے لئے یا ترقی کے نظریہ پر ہی سوال اٹھانے والے نظریات کے لئے ان کے ذہن میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ بھی کہ وزیر اعظم اور مرکزی حکومت جمہوری‎ ڈسکورس  کی کتنی عزّت کرتے ہیں۔یہاں یہ جوڑنا بھی مناسب ہوگا کہ سرمایہ دارانہ ترقی پر مبنی وفاقی ڈھانچے میں اس طرح کی گنجائش ویسے بھی محدود ہی ہوتی ہے۔ مودی جی‌کے بیان کے بارے میں صرف یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابی گہما گہمی میں منھ سے نکل گیا۔

اگر ایسا ہےبھی تو اس کو ‘ فرایڈین سلپ ‘ کی طرح دیکھا جانا چاہئے۔ یعنی جوش و خروش میں ایسی بات کہہ دی جو اصلی چہرے کو کھول دیتی ہے۔ مودی جی نے جو کہا، وہ اصل میں اس کارپوریٹ دنیا کی زبان ہے جو ترقی کا صرف ایک ماڈل پورے ملک میں چاہتا ہے-وسائل اور محنت کی زیادہ سے زیادہ لوٹ کا ماڈل۔ جو بھی اس سے الگ جائے‌گا، وہ حکومت کی نظر میں ‘ ترقی-مخالف ‘ ہوگا۔

آخر میں، یہ شاید ملک کی پہلی حکومت ہوگی، جس کے مخالفین کی لسٹ اتنی لمبی ہے-ہندو-مخالف، گئوماتا-مخالف، ملک-مخالف اور اب ترقی-مخالف۔ گجراتی منتخب کر لیں کہ وہ اپنا نام کہاں درج کرانا چاہتے ہیں۔

(مصنف آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں ۔)