فکر و نظر

جب ٹیپو سلطان نے شنکر آچاریہ سے کہا ؛آپ وشو گرو ہیں

 چونکہ ٹیپو مذہب سے ایک مسلم حکمراں تھا، سامراجی مؤرخ کی یہ وضاحت فرقہ وارانہ  تاریخی تحریر کی روایت میں زندہ رہی کیونکہ آر ایس ایس جیسی تنظیم نے اس کو آگے بڑھایا۔

Tipu-Sultan-3

انگریزی حکومت‌کے شروعاتی دنوں سے ہی ٹیپو سلطان کو لےکر ایک فرضی کہانی کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا۔ بعدکے زمانے میں بھی یہ عمل بدستور جاری رہا کیونکہ عوام میں ٹیپو ایک ہیرو کی طرح اندر تک گھسا ہوا تھا اور لوگ اس کو انگریزوں کے خلاف لوہا لینے والا ایک بہادر سپاہی مانتے تھے۔ ٹیپو بہت بہادر تھا اور اس کو جنگ کی حکمت عملی بنانے میں زبردست مہارت حاصل تھی۔ اس نے 17 سال کی عمر میں انگریزوں کے خلاف اپنے والد حیدر علی کی رہنمائی میں پہلی جنگ لڑی تھی۔ دوسری آنگل-میسور جنگ کے دوران جب حیدر علی کی موت ہو گئی تو 1782 میں ٹیپو نے میسور کی گدی سنبھالی۔ اس جنگ کے خاتمہ پر ٹیپو نے انگریزوں کو ایک قابل مذمت معاہدہ پر راضی کرنے کو مجبور کیا۔ ٹیپو نے انگریزوں سے لوہا لینے کے لئے اپنی فوجوں کو یورپی طریقے سے تربیت  دلوایا اور ہندوستان کی پہلی جدید بحری فوج کی بنیاد رکھی۔ ٹیپو نے اپنے وقت کےجاں بازسپہ سالار کارنوالس اور ویلزلی— کی آنکھوں کی نیند اڑا دی تھی۔ اس نے انگریزوں کو گھیرنے کے مقصدسے فرانس سے قربتیں بڑھائیں اور ایک بین الاقوامی معاہدہ تیار کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس طرح، ٹیپو انگریزی حکومت‌کے خلاف لڑنے کے لئے ہندوستانیوں کا حوصلہ تھا۔ وہ ایسا  ہیرو تھا جس کو انگریز پھوٹی آنکھ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

ٹیپو کی اس امیج کو توڑ نے کے لئے تاریخ کو مسخ کرنا ضروری تھا۔ چونکہ ٹیپو مذہب سے ایک مسلم حکمراں تھا، سامراجی مؤرخ کی یہ وضاحت فرقہ وارانہ  تاریخی تحریر کی روایت میں زندہ رہی کیونکہ آر ایس ایس جیسی تنظیم نے اس کو آگے بڑھایا۔ اس لئے ٹیپو کو فرقہ وارانہ لٹریچر میں ٹھیک اسی طرح پیش کیا گیا جیسا انگریزوں نے کیا تھا۔ اس لئے جب کرناٹک کی کانگریس حکومت نے ٹیپو کا سالانہ یوم پیدائش منانے کا اعلان کیا، وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کو ایک من پسند موضوع مل گیا۔ سامراجی دور کے حامی مؤرخوں، سفرنامہ نگاروں اور مصنفین نے ٹیپو کی تاریخ کے جس اصول پر سب سے زیادہ زور دیا، وہ تھا ٹیپو کے ہندوؤں پر ظلم ڈھانا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم ہندوؤں اور ہندو مذہبی مقامات کے تعلق سے ٹیپو کی پالیسی کی تشخیص کرنے کے لئے اس وقت کے میسور سےمتعلق ابتدائی ماخذ کو بنیاد بنائیں تو تصویر ایک دم الگ ہو جاتی ہے۔ مثلاً یہی ٹیپو ہندو مندروں، اداروں اور زیارتی مقامات کے محافظ کی شکل میں سامنے آتا ہے ؛ ہندو مندروں کو تحائف بھیجتا ہے اور ہندو مندروں میں مختلف فرقوں کے درمیان چل رہے تنازعات میں ثالثی کا کردار بھی نبھاتا ہے۔

اس کی ریاست میں ریاست کے ذریعے مندروں کی حفاظت اوردیکھ بھال کے لئے باقاعدہ ایک منصب  ہے جس کو  شریمتو دیواستھانادسمے کہا جاتا تھا۔ اس کا صدر کپیا نامی ایک برہمن تھا۔ ایک بار میسور کے میل کوٹے مندر میں کی جانے والی ایک عبادت کے پرانے طرز کا ایک حصہ ایک فرقہ کے دباؤ میں نکال دیا گیا۔ ایسا میسور کے بادشاہ کے حکم سے ہوا تھا اور اس کو لےکر  خالص  پسندو ں  میں ناراضگی تھی۔ ٹیپو نے ایک حکم جاری کرتے ہوئے کپّیا کو دونوں کمیونٹیوں وڈگلے اور تینگلے— کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت دی۔

ٹیپو کئی اہم ہندو مندروں کو باقاعدہ تحائف بھیجتا تھا اور ان کے پجاری طبقے کو احترام کے ساتھ خطاب کرتا تھا۔ اس بات کے کئی ثبوت موجود ہیں۔ میسور کے کم سے کم چار بڑے مندروں کے بارے میں تو یہ بات پورے ثبوت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔ ان مندروں میں سیرنگاپٹّنم کا رنگناتھ مندر، میلکوٹ کا نرسمہا مندر، میلوکوٹ کا ہی نارائن سوامی مندر، کلالے کا لکشمی کانت مندر اور ننجنگوڈ کا شری کنتیشوارا مندر قابل ذکر ہیں۔ ان مندروں کو چاندی کے برتن وغیرہ تحائف کے طور پر بھیجے جاتے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ٹیپو اپنی ریاست میں واقع ان ہندو مذہبی مقامات کے تعلق سے اپنے احترام سے ان کا اعتماد جیتنا چاہتا تھا۔ بلکہ یہ پالیسی تو ٹیپو سے پہلے حیدر علی کے وقت ہی شروع ہو گئی تھی اور حیدر علی نے میسور کے عوام کے درمیان اپنی  فراخ دلی کے مظاہرے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ٹیپو کے ذریعے مشہور شررنگیری مٹھ کو لکھے گئے تقریباً تیس خط اس بات کے گواہ ہیں کہ ٹیپو کو اپنی ریاست کے مذہبی تنوع کا اندازہ تھا اور وہ سب کا یقین جیتنے کا حامی تھا۔ ایک خط میں تو ٹیپو اپنی ریاست پر تین دشمنوں حیدر آباد کے نظام، انگریز اور مراٹھوں کا حوالہ دےکر مٹھ کے سوامی سے التجا کرتا ہے کہ وہ ریاست کی فتح  کی دعا کے ساتھ سو چنڈی اور سہستر چنڈی منت کریں۔ جس کے لئے ضروری سامان کا انتظام ریاست کی دیکھ-ریکھ میں کیا گیا۔ یہ مذہبی عمل پوری مذہبی روایت کے ساتھ مکمل ہوا جس میں برہمن کو مناسب تحائف دئے گئے اور کئی دنوں تک چلنے والے ہون میں لگ بھگ ایک ہزار برہمن کو روزانہ کھانا کھلایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : تاریخ کیا ہے اس سوال کو عوامی جذبات کے نام پر سڑکوں پر طے نہیں کیا جا سکتا

یہی نہیں شررنگیری مٹھ پر مراٹھا حملے کے وقت ٹیپو ہندو مذہب کے محافظ کے طور پر سامنے آیا۔ ٹیپو نے مراٹھا حملے سے تباہ شدہ مٹھ کی مرمت کرائی جس میں شاردا دیوی کا مجسمہ بھی شامل تھا۔ غور طلب ہے کہ مراٹھا سپہ سالار پرشورام بھاؤ کو نہ ہی میسور کے ہندو عوام اور نہ ہی ہندو علم کے عظیم مرکز شررنگیری کے سوامی کو ہندو عابد کی شکل میں دیکھا۔ ایسے موقع پر ان کی نظر اپنے حکمراں سلطان ٹیپو کی طرف تھی جس نے ان کو مایوس نہیں کیا۔ یہاں سلطان کے ذریعے مٹھ کے سوامی کو لکھے ایک خط سے اس کے ہندو مذہب اور اس کے مذہبی اداروں سے متعلق رخ کا پتا چلتا ہے۔ 1793 کے ایک خط میں ٹیپو لکھتا ہے،

آپ جگدگرو ہیں، دنیا کے استاد۔ آپ نے ہمیشہ پوری دنیاکی بھلائی کے لئے اور اس لئے کہ لوگ خوشی سے جی سکیں تکلیف اٹھائے ہیں۔ برائے مہربانی ایشور سے ہماری خوشحالی کی دعا کریں۔ جس کسی بھی ملک میں آپ جیسی  پاکیزہ روحیں قیام کریں‌گے، اچھی بارش اور فصل سے ملک کی خوشحالی ہوگی۔

یہاں ایک بات واضح کر دینا ضروری ہے۔ عام قرون وسطی یا قدیم و جدید حکمراں کی طرح ٹیپو کو نہ صرف اپنی ریاست کی حفاظت کرنی تھی بلکہ اس کی توسیع کرنا بھی اس کی ترجیحات میں تھی۔ اس لئے اس نے میسور کے آس-پاس کے علاقوں پر حملے کئے اور ان کو میسور میں شامل کیا۔ حیدر علی نے مالابار، کوجھیکوڈ، کوڈگو، تریچور اور کوچّی کو جیت لیا تھا۔ انگریزوں اور مراٹھوں سے جنگوں کے سلسلے میں ٹیپو کو کوڈگو اور کوچّی پر پھر حملے کئے۔ ان دونوں علاقوں اور مالابار اور کوجھیکوڈ پر قبضہ بنائے رکھنے کے سلسلے میں ایک عہد وسطی کےحکمراں کی طرح اس نے گاؤں کے گاؤں جلوا دئے اور اجتماعی سزا متعین کئے۔ اور اسی سلسلے میں مندروں اور چرچوں کو بھی منہدم کیا۔ لیکن کسی بھی حکمراں کی مذہبی پالیسی کی تشخیص اس کے جنگی کارناموں کی بنیاد پر نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس کی داخلی پالیسی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ٹیپو کے لئے کوڈگو پر قبضہ منگلور بندرگاہ پر قابو رکھنے کے لئے ضروری تھا۔ کیونکہ انگریز دکن اور کرناٹک کے ساحل پر قبضہ کرکے اپنے نئے فری کنٹرول کاروبار کے راستے کھولنا چاہتے تھے۔ اس لئے کوڈگو کو اس نے ہر حال میں میسور کے قبضے میں رکھنا چاہا۔ اس لئے آج بھی کوڈگو کے علاقے میں ٹیپو ایک حکمراں کی طرح نہیں ایک حملہ آور کی طرح دیکھا جاتا ہے۔

یعنی کہ ٹیپو کی تاریخ دو مختلف ماخذ کی بنیاد پر لکھی جا سکتی ہے نوآبادیاتی ماخذ کی بنیاد پر اور ہندوستانی ماخذ کی بنیاد پر۔ جن کو پہلی طرح کے ماخذ زیادہ قابل اعتماد لگتے ہیں یا وہ ان کی سیاست کے لئے مفید ہیں، وہ ٹیپو سلطان کو بدمعاش ماننے کے لئے آزاد ہیں۔ جن کو تاریخ اور تاریخی تحریر کی سمجھ ہے وہ ٹیپو سلطان کو اس کے نقطہٴ نظر میں رکھ‌کر تشخیص کرنے کی کوشش کریں‌گے۔ اور، جو لوگ ایسا کریں‌گے وہ ٹیپو کی نوآبادیاتی وضاحت کو دیگر ماخذ کے ساتھ رکھ‌کر جانچیں‌گے۔ اور بھیڑ کی ہوشمندی سے پرے ہٹ‌کر جب بھی ٹیپو سلطان کی تشخیص کی جائے‌گی، وہ انگریزی حکومت کے خطرہ کو پہچاننے اور اس کے خلاف لڑ‌کر شہید ہونے والے حکمراں کے طور پر یاد رکھا جائے‌گا۔

(مضمون نگار لوک راشٹریہ فرنٹ نامی تنظیم کے  کنوینر ہیں۔)