ادبستان

گوگل ڈوڈل والے عبدالقوی دسنوی کا ’شورش ‘سے کیا رشتہ تھا؟

عبدالقوی دسنوی نے اشاریہ سازی کے فن کو معیار اور وقعت عطا کی،بنگلہ کی شیرینی سے بہت متاثر تھے۔آج دسنوی کے یوم پیدائش پرسر چ انجن گُوگل نےڈوڈل متعارف کرایاہے۔

AbdulQaviDesnaviعبدالقوی دسنوی،آج ہی کے دن1930کو،دسنہ،نالندہ(بہارشریف)صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دسنہ اورآرہ میں ہوئی ،سینٹ زیویرس کالج بمبئی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ان کے والد سید سعیدرضا سینٹ زیویرس کالج میں ہی پروفیسر تھے،سعید صاحب  کو آزادی کے بعد کراچی یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر آنے کی دعوت ملی تھی،لیکن انہوں نے انکار کر دیا ،ان کی فارسی دانی کے ایرانی بھی معترف تھے،اردو میں بھی شعر کہتے تھے۔

دسنہ لائبریری کی وجہ سے عبدالقوی دسنوی کے دل میں کتا ب خریدنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔اپنی بستی میں ہی انہوں نے بابائے اردومولوی عبدالحق کو تقریر کرتے دیکھا ،یہیں سید سلیمان ندوی کو بھی دیکھا اور سنا۔بنگالی زبا ن کی شیرینی اور بنگالیوں کےپڑھنے لکھنے کی کوشش سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی رسالوں کی ادارت کی اور بزم ادب وغیرہ کے کنوینر رہے۔

دسنوی نے بھارت چھوڑو تحریک کے دوران سیاسی مضامین بھی لکھے۔اسی زمانے میں شاعری بھی کی ۔ شورش تخلص کرتے تھے۔ آزادی کے جذبے سے سرشار کئی پرجوش نظمیں لکھیں ۔اس زمانے میں جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ان پر ہر قسم کا لباس پھبتا تھا ،کافی وجیہ تھے۔وہ کتابیں خریدتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کی حفاظت کا بھی خاص اہتمام  کرتے تھے ۔کتاب کے معاملے میں ان کا اصول یہ تھا کہ  کتاب کسی کو نہ دی جائے ۔زیادہ سے زیادہ یہ  ہوتا تھا کہ وہ  اپنے گھر بلا کر ایک پیالی چائے کے ساتھ کتاب کی زیارت کروادیتےتھے۔

desnabi_photo

ان کی ابتدائی کتاب’حسرت کی سیاسی زندگی کی جھلکیاں’کے مقدمے میں سردار جعفری نے لکھا تھاکہ؛

حسرت موہانی کی سیاسی زندگی پر نو عمر ادیب عبدالقوی دسنوی کا۔۔۔مقالہ ایک اچھا مطالعہ ہے۔زبان میں بڑی سادگی اور روانی ہے۔

‘نئی کتاب والے شاہد علی خاں صاحب کے علاوہ ان کو کیفی اعظمی ،سردارجعفری ،خواجہ احمد عباس،عصمت چغتائی ، ظ انصاری اور باقر مہدی وغیرہ سے خاص لگاؤ تھا۔انہوں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ بمبئی میں گزارا،اس شہر کے بارے میں  انہوں نے لکھا کہ ؛

اس عظیم الشان شہر نے مجھے زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا۔

1961 میں بھوپال آئے اور یہاں سیفیہ کالج میں ملازم ہوئے۔ہمارے زمانے کے مشہور ادیب اور شاعر مظفر حنفی شعبہ اردو سیفیہ کالج کے پہلے پی ایچ ڈی ہیں ،انہوں نے دسنوی صاحب کی نگرانی میں ہی اپنی تحقیق مکمل کی ۔شعبہ کے عزیزان میں انہوں نے مظفر حنفی ،جاوید اختراور یعقوب یاور جیسے لوگوں کا ذکر تے ہوئے لکھا ہے کہ ؛کالج کے وقار میں نمایاں اضافہ کیا اور شعبہ اردو کو نیک نام کیا۔’دسنوی  نےشعبہ اردو میں لائبریری کی بنیادبھی  ڈالی ۔ایک اچھے استاد کے طور پر آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے ہیں۔

Desnavi_CV

مولانا ابولکلام آزاد کے حوالے سے کئی کتابیں لکھیں اور آزاد پر ہی نو سو صفحوں کی ایک کتاب تحریر کی۔ان کی تحقیق و تنقید او رترتیب وتدوین کا سلسلہ کافی پھیلا ہوا ہے۔اشاریے بھی ترتیب دیے۔مظفر حنفی کے بقول ‘اشاریہ سازی کے فن کو انہوں نے جو معیار اور وقعت عطا کی اردو والے اسے فراموش نہیں کر سکتے۔’

غالب کی مشہور زمانہ کتاب قادر نامہ غالب کی نوترتیب بھی ان کا ایک کارنامہ ہے ۔قادر نامہ کی مختلف اشاعتوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے اس کتاب کی ترتیب و تدوین کی ہے۔دراصل یہ کتاب غالب نے اپنی اہلیہ کے بھانجے زین العابدین خاں کے بچوں کے لیے لکھی تھی ۔

آج دسنوی کے یوم پیدائش پرسر چ انجن گُوگل نےڈوڈل متعارف کرایاہے ،جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر باتیں ہو رہی ہیں،اور لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔