فکر و نظر

کشمیر مذاکرات : پچھلی کوششوں سے سبق حاصل کرنےکی ضرورت

امید ہے کہ مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین عقل و دانش سے کام لے کر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ نئی تاریخ رقم کرنے کے بجائے اس سے سبق حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا کرکے مذاکرات کو مضبوط بنیاد فراہم کریں۔

dineshwar-sharma_ptiظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے بعد لگتا ہےکہ ہندوستان کی وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کو ہوش آیا کہ مسئلہ کشمیر کو صرف طاقت کے زور پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نے انٹیلی جنس بیورو کے حال ہی میں سبکدوش ہوئے سربراہ دنیشور شرما کومذاکرات کار مقرر کیا ۔ یہ ایک طرح سے پچھلے تین سالوں سے جاری سخت گیر پالیسی کی ناکامی اور حالات کی سنگینی کا اعتراف ہے۔کانگریسی اور دیگر حکومتوں نے کشمیر میں چانکیہ کی سختی اور اشک شوئی کی پالیسی اپنائی تھی۔ مگر موجودہ حکومت کے طریقہ کار نے ان عناصر کو بھی جوہندوستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے د لبرداشتہ کر دیا ۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ نئی دہلی کے حکمرانوں نے ابھی تک عموماً مذاکراتی عمل کو صرف وقت گذاری اور عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے استعمال کیا ہے۔معنی خیز بات یہ ہے کہ دنیشور شرما کی تعیناتی کا اعلان بھی اس وقت کیا گیا جب امریکہ کے خارجہ سیکریٹری ریکس ٹلرسن اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نئی دہلی پہنچنے والے تھے۔اندرون ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ سے کابل بھی نئی دہلی کو باور کرارہا ہے کہ کشمیر میں سیاسی عمل کے ثمرات کامثبت اثر افغانستان پر بھی پڑے گا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ کشمیر کے لئے کوئی ثالث مقرر کیا گیا، بلکہ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ ایسی کوششیں ہوچکی ہیں جن کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ کیونکہ یہ مذاکرات کار بجائے ایک غیر جانبدار کردار نبھانے کےہندوستان کے مفادات کی آبیاری کرنے کی غرض سے کشمیر میں اتفاق رائے کے نقطوں پر توجہ مرکوز کرنے کے اختلافات کو ہوا دینے کا کام کرتے ہیں اور آخر میں پیغام دیتے ہیں کہ مسئلہ کے سلسلے میں کشمیر ی خود منقسم ہیں۔ لداخ اور جموں کے احساسات جداگانہ ہیں۔ اس لیے اسٹیٹس کو یعنی جو ں کی توں پوزیشن میں بس کچھ معمولی رد و بدل سب کے مفاد میں ہے۔معاملات اس قدر الجھائے جاتے ہیں، کہ اصل مسئلہ ہی پس پشت چلا جاتا ہے۔

اگست 1953ء میں ریاست کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی معزولی اور گرفتاری پر خاطر خواہ عوامی رد عمل نہ ہونے کی وجہ سےہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو یہ نتیجہ اخذ کرگئے تھے کہ کشمیریوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ خزانوں کے منہ کھول کر چاول پر سبسڈی اور دیگر مراعات دیکر وہ اب مسئلہ کشمیر گفت و شنید کیلئے تیار نظر نہیں آتے تھے۔ مگر ان کا یہ بھرم اسوقت ٹوٹ گیاجب 26اور27دسمبر 1963ء کی درمیانی شب کو سرینگر کی درگاہ حضرت بل سے موئے مبارک نہایت پراسرار طور پر چوری ہوگیا۔ اس نے کشمیر کی مردہ روح میں اچانک زندگی پھونک دی۔ بقول مرحوم بزرگ صحافی ثناؤاللہ بٹ کہ ایک آتش فشاں، جسے جبر و استبدادسے خاموش کر دیا گیا تھا، اچانک پھوٹ پڑا اور ایک عجیب انقلاب کی سی کیفیت شروع ہوگئی۔ پاکستان میں ہندوستان کے سفیر رہے ٹی سی اے راگھون اپنی حال ہی میں منظر عام پر آئی تصنیف The People Next Door: The Curious History of India’s Relations with Pakistanمیں رقم طراز ہیں، کہ کشمیر کی اس صورتحال سے نہرو کی ا نا کو زبردست ٹھیس پہنچی اور یہ چوٹ ایک سال قبل چین کے ہاتھوں شکست کھانے سے بھی زیادہ شدید تھی۔ اس حد تک ان کی انا مجروح ہوئی کہ وہ علیل ہوگئے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے انہوں نے اپنے دست راست لال بہادر شاستری اور ایک افسر وشواناتھن کو سرینگر مذاکرات کیلئے بھیجا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ کو رہا کردیا گیا، وہ کشمیر سازش کیس میں تقریباً سات سال سے نظر بند تھے۔دہلی آکر وہ نہرو کی رہائش گاہ پر ٹھہرے، گلہ شکوہ دور ہوئے اور وہ پاکستانی لیڈرشپ کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے پاکستان روانہ ہوگئے۔ مگر ان کے دورہ کے دوران ہی نہرو کا انتقال ہوگیا اور ایک سال بعد وہ پھر سلاخوں کے پیچھے تھے۔

قیام بنگلہ دیش کے بعد 1972ء میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان شملہ سمجھوتہ کے فوراً بعد ہی اندرا گاندھی نے اپنے ایک تامل برہمن معتمد جی پارتھاسارتھی کو شیخ عبداللہ کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے نامزد کیا۔ شیخ عبداللہ نے بھی اپنے قریبی ساتھی مرزا محمد افضل بیگ کو تفصیلات طے کرنے کیلئے مامور کیا۔ تین سال تک چلنے والی 46 ادوار کی بات چیت کا ماحاصل فروری 1975 ء کےاندرا،عبداللہ ایکارڈکی شکل میں ظاہر ہوا۔اس ایکارڈ کی رو سے کشمیر کی زمام اقتدار شیخ عبداللہ کے سپرد کی گئی۔ گو کہ شیخ صاحب نے سات سال حکومت کی ، مگر 1982ء میں اپنی وفات تک وہ شکوہ کرتے رہے کہ نئی دہلی نے ایکارڈ کے مندرجات کے نفاذ میں لیت و لعل سے کام لیا۔ ایکارڈ کی دفعہ چار کے تحت حکومت جموں و کشمیر کو اختیار دیا گیا تھا، کہ 1953ء کے بعد اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ذریعے لائے گئے قوانین کا ازسر نو جائزہ لے۔ اگر صرف اسی دفعہ کا اطلاق ہوجاتا تو کشمیر میں ہندوستان کی عملداری پر لگام لگ جاتی۔ 1986ء میں شیخ عبداللہ کے فرزند فاروق عبداللہ کو شیشے میں اتارنے کیلئے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اپنے مشیر راجیش پائلٹ کی خدمات حاصل کی۔ جن کی کاوشوں سے 1986ء کا راجیو،فاروق ایکارڈ وجود میں آیا۔

اس کے مندرجات کم و بیش وہی تھے ، جو 1975ء میں شیخ عبداللہ کے ساتھ طے کئے گئے تھے، مگر اس بار نئی دہلی نے فاروق کو مجبور کیا، کہ کانگریس کو ریاستی حکومت میں حصہ داری ملے ۔اس ایکارڈ کو کشمیری عوام نے مسترد کردیا۔ بھرم رکھنے اور اس ایکارڈ کو کامیاب ثابت کرنے کیلئے اگلے سال 1987ء کے اسمبلی انتخابات میں دھاندلیوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ جمہوری نظام سے عوام کا رشتہ ہی ختم کروایا گیا۔ اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات نے کشمیر میں عسکریت کو متعارف کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔1990ء میں جب عسکری جدوجہد کا آغاز ہوا، تو نئے وزیر اعظم وی پی سنگھ نے سوشلسٹ لیڈر جارج فرنانڈیز کو سیاسی عمل کیلئے میدان ہموار کرنے کیلئے نامزد کیا، پہلی بار دہلی میں وزارت امور کشمیر قائم ہوئی اور فرنانڈیز کو اسکا انچارج بنایا گیا۔ مگر اسی کے ساتھ کشمیر میں ایک انتہائی سخت گیر ہندو قوم پرست جگموہن کو گورنر بناکر بھیجا گیا۔ دونوں افراد مسئلہ کو متضاد نظروں سے دیکھتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ فرنانڈیز نے کچھ سیاسی راہنماؤں تک رسائی حاصل کی تھی، جن میں مرحوم میرواعظ مولوی محمد فاروق بھی شامل تھے۔رات کے اندھیرے میں فرنانڈیز چھانہ پورہ وغیرہ علاقوں جہاں جگموہن کی ایما پر قتل عام ہوئے تھے پہنچ جاتے تھے۔ مگر ان کے مشن کا فیل ہونا لازمی تھا ۔ وزارت کو جلد ہی تحلیل کرکے وزارت داخلہ کے تابع کیا گیا۔ 1993ء میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے ایک بار پھر راجیش پائلٹ کی خدمات حاصل کیں۔ ان کو وزارت داخلہ میں داخلی سلامتی کا انچارج بنایا گیا، تاکہ کشمیر میں کوئی سیاسی عمل شروع کرایا جاسکے ۔

شاید 1987 ء کے انتخابات میں دھاندلیاں کروانا اور جمہوری نظام سے عوام کو خائف کروانا اور خطہ کو تشدد کے حوالے کروانا ، ان کی رینک کے لئے کافی نہیں تھا۔ اس بار بھی انہوں نے اتفاق رائے پیدا کرنے کے بجائے پھوٹ ڈالو پالیسی پر عمل کرتے ہوئے گوجر، پہاڑی ، شیعہ وغیرہ کا ایک نیا شوشہ کھڑا کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ، کہ مسئلہ کشمیر تو صرف وادی کے چند سنی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ سیکورٹی سطح پر عسکریت سے نمٹنے کیلئے انہوں نے تائب شدہ جنگجوؤں پر مشتمل ایک فورس تشکیل دیکر دہشت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اپریل 2001ء میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور زیرک سیاستدان کے سی پنت کو مذاکرات کار نامزد کیا ۔ مگر شبیر شاہ کے علاوہ حریت کانفرنس کی دیگر اکائیوں نے انکا بائیکاٹ کیا۔ جس سے انکا مشن فیل ہوگیا ۔

ایک سال بعد ہی ان کی بساط لپیٹ لی گئی۔2003ء میں پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ایگریمنٹ اور سلسلہ جنبانی شروع ہوتے ہی ، واجپائی نے سابق بیوروکریٹ این این ووہرا (موجودہ گورنر) کو بطور مذاکرات کار نامزد کیا۔واجپائی کے جانشین من موہن سنگھ گو کہ کانگریس پارٹی کی حکومت کے سربراہ تھے، نے ان کو اس عہدہ پر برقرار رکھا۔وہ اس عہدہ پر 2008ء تک فائز رہے۔ اور ایک طرح سے کامیاب ترین مصالحت کار رہے۔یہ ان کا کارنامہ تھاکہ حریت کے اعتدال پسند گروپ نے دہلی آکر نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی اور بعد میں من موہن سنگھ کے ساتھ کئی دور کی بات چیت کی۔اسی دورران دیگر سیاسی اور سماجی رہنماؤں کے ساتھ تین راونڈ ٹیبل میٹنگ ہوئی۔ جن کا نتیجہ پانچ ورکنگ گروپوں کی رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا۔ 2010ء کی پر تشدد ایجی ٹیشن کے بعد کانگریس سرکار نے معروف صحافی دلیپ پڈگاونکر کی سربراہی میں رادھا کمار اور ایم ایم انصاری پر مشتمل تین مذاکرات کاروں کی تقرری عمل میں لائی ۔انہوں نے ریاست کے درجنوں دورے کئے اور اپنی ایک مفصل رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کو پیش کی ۔

ا س طرح 1963ء سے دنیشور شرما نویں مذاکرات کار ہونگے۔ آزادی تو دور کی بات، ان مذاکرات کاروں کی رپورٹوں میں جواعتماد سازی کے اقدامات کی جو سفارشیں کی گئی تھیں، وہ بھی دھول چاٹ رہی ہیں۔ یہ ایسے تلخ تجربات ہیں، جنہوں نے کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو بھی اس عمل سے بدظن کر دیاہے۔مذاکرات کی تاریخ گواہ ہے، کہ دو طرفہ مذاکرات چاہے وہ دہلی اور سرینگر کے درمیان رہے ہوں یاہندوستان اور پاکستان کے ، ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ تاشقند ایگریمنٹ نہ ہی شملہ ایگریمنٹ خطے میں امن کا ضامن بن سکا۔ یہی حال کچھ ان ایکارڈوں کا ہوا، جو دہلی کی مختلف حکومتوں نے کشمیر ی راہنماؤں کو شیشے میں اتارکر کر وائے۔ این این ووہرا اپنے مشن میں کسی حد تک صرف اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ اس وقت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کا ایک دور چل رہا تھا۔ آخر پاکستان کے مسئلہ کے فریق ہونے سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے جبکہ ریاست کا ایک حصہ اسکے کنٹرول میں ہے؟ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے کشیدہ تعلقات اس مذاکراتی عمل پر اثر انداز نہیں ہونگے؟

امید ہے کہ مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین عقل و دانش سے کام لے کر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ نئی تاریخ رقم کرنے کے بجائے اس سے سبق حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا کرکے مذاکرات کو مضبوط بنیاد فراہم کریں۔