فکر و نظر

سعودی گرفتاریاں: کیا شہزادہ محمّد نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں؟

شہزادہ محمّد کو الیکشن تو نہیں جیتنا ہے مگر اقتدار میں آنے کے لئے عوامی حمایت ضرور چاہیے ہوگی کیونکہ اکیسویں صدی کا شہری، چاہے وہ سعودی ہی کیوں نہ ہو، اپنی حصّہ داری چاہتا ہے۔

 شہزادہ محمّد بن سلمان | فوٹو : رائٹر

شہزادہ محمّد بن سلمان | فوٹو : رائٹر

گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں ہوئی گرفتاریوں کے بعد ولی عہد شہزادہ محمّد بن سلمان اپنے ملک کے حقیقی حاکم بن کر ابھرے ہیں۔ انسداد بدعنوانی کے نام پر ہوئی ان اعلیٰ سطحی گرفتاریوں کے ساتھ انہوں نے ان تمام لوگوں کو ٹھکانے لگا دیا ہے جو کسی بھی طرح سے ان کی راہ کا روڑا بن سکتے تھے۔ گیارہ شہزادوں، چار وزراء اور 34 سابق وزراء اور چند بڑے عہدے داروں اور تاجروں کو ایک ساتھ حراست میں لینا کوئی معمولی بات نہیں وہ بھی سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں وزارتیں اور اہم سرکاری ذمّہ داریاں وراثت میں ملتی ہیں اور نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔

گرفتار شدگان کی فہرست دیکھ کرا ندازہ ہوتا ہے کہ ان تمام لوگوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے جو مرحوم شاہ عبداللہ کے دور اقتدار کے پروردہ تھے۔ ان میں ان کی تین اولادیں اور وہ افراد بھی شامل ہیں جو ان کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ معزول ہونے والوں میں عبداللہ کے بیٹے شہزادہ متعب کا نام سرفہرست ہے جو کہ نیشنل گارڈ کے سربراہ تھے۔ یہ وہ عہدہ ہے جو عبداللہ کے پاس انیس سو باسٹھ سے تھا جسے انہوں نے دو ہزار پانچ میں سعودی عرب کا فرماں روا بننے کے بعد بھی پانچ سال تک اپنے پاس رکھا۔ نیشنل گارڈ فوج کے متوازی ایک فوجی دستہ ہے جس کا کام داخلی اور خارجی امن قائم رکھنے کے علاوہ شاہی خاندان کو تحفّظ فراہم کرنا ہے۔ اس میں عبدالله کے شمری قبیلے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ عبداللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی طاقت کا اصل سرچشمہ نیشنل گارڈ کی سربراہی رہی ہے۔

ان کے بیٹے شہزادہ متعب 2010 سے اس کے سربراہ تھے۔ ان کی گرفتاری کے اگلے دن ہی ایک دوسرے شہزادے کو اس کی کمان سونپ دی گئی ہے۔ اس شہزادے کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں مگر وہ جو بھی ہے یقیناً شہزادہ محمّد کے بھروسے کا کوئی شخص ہوگا۔ فوج کی کمان پہلے سے ان کے پاس ہے۔ یعنی انہوں نے فوجی طاقت پوری طرح اپنے حق میں کر لی ہے۔ شہزادہ متعب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے محمّد کے ولی عہد نامزد کئے جانے کی مخالفت کی تھی۔ شاہ سلمان عمر کے جس حصّے میں ہیں اور خرابی صحت کی وجہ سے جس قدر معذور نظر آتے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شہزادہ محمّد جلد سے جلد اپنی پوزیشن مستحکم کر لینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کے بدعنوانی سے مقابلے کے نام پر دراصل سعودی عرب میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی ابتدا ہو چکی ہے۔

گرفتار شدگان میں دوسرا اہم نام شہزادہ الولید بن طلال کا ہے جن کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ مبصرین کے مطابق محمّد کو ان سے بھی خطرہ محسوس ہوا۔ یہ شاہ سلمان کے مرحوم بھائی شہزاد طلال کے بیٹے ہیں۔ شہزاد طلال اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے شاہی خاندان میں کبھی بھی پسند نہیں کئے گئے۔ الولید بھی باپ کی طرح ہی آزاد خیال ہیں اور مغرب میں پسند کئے جاتے ہیں۔اس کے باوجود کہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں کاروباری اثر و رسوخ کی بنا پر یہ سعودی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکہ اور دیگر ملکوں کے بیشتر سیاسی اور تجارتی لیڈروں سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔

مبصّرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں کبھی امریکہ کو کوئی لبرل شبیہ والے کسی شخص کو سعودی عرب کی گدّی پر بیٹھانا ہو تو الولید کو آگے کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ یہ بات ذرا دور کی کوڑی لگتی ہے مگر سعودی معاملات میں امریکی اثر کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ گرفتاریوں سے صرف چند روز قبل ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد اور امریکی مشیر جارید کشنر نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس کی زیادہ تشہیر نہیں ہوئی تھی۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شہزادہ محمّد، جو صرف چار ماہ پہلے ولی عہد بنے ہیں، دنیا کے سامنے اپنی لبرل امیج بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں میں عورتوں کو ڈرائیونگ کا حق دئے جانے اور سپورٹس اسٹیڈیم میں ان کے داخلے کی اجازت کو انٹرنیشنل میڈیا میں زبردست کوریج ملا۔ ان فیصلوں کا اثر داخلی طور پر بھی پڑے گا کیونکہ سعودی عرب کی نوجوان نسل ریفارم کی زبردست خواہش رکھتی ہے۔

سنیچر کو ہوئی گرفتاریوں کی خبر کے اگلے دن ایک اور خبر بھی آئی جس پر مبصّرین نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا مگر موجودہ حالات میں اس کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ اور وہ خبر ہے ایک ہوائی حادثے میں شہزادہ منصور کی موت کی جو کہ یمن سے قریب اسیر صوبے کے نائب گورنر تھے۔منصور بیٹے تھے شہزادہ مقرن کے جو کہ دو ہزار پندرہ میں شاہ سلمان کے فرماں روا بننے کے بعد ولی عہد بنائے گئے تھے مگر صرف تین مہینے بعد برطرف کر دیئے گئے تھے۔ شاہی خاندان کے چند افراد اور ان سے قربت رکھنے والے وزیروں اور تاجروں کو جس طرح معتوب کیا گیا ہے اسے دیکھتے ہوئے اس حادثے کو شک کی نظر دیکھنا فطری ہوگا۔

سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جہاں کے شاہی نظام پر رازداری کا دبیز پردہ پڑا ہوتا ہے۔عوام سے شاہی خاندان کے معاملات مخفی رہتے ہیں۔ حکومتی فیصلوں سے بھی عوام اسی حد تک واقف رہتی ہے جتنا کہ اسے بتایا جاتا ہے۔ جس پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں اور جس طرح اعلیٰ منصب پر فائز لوگوں کو معتوب کیا گیا ہے اس نے سعودی عوام کو چونکا کر رکھ دیا ہے جس کے وہ عادی نہیں۔ حکومت نے اسے انسداد بدعنوانی کا نام دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی طرح یہ بھی ایک نعرہ ہے جس کا استعمال ہندوستان اور تیسری دنیا کے ممالک خاص طور پر اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے کرتے ہیں یا پھر انتخابی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

شہزادہ محمّد کو الیکشن تو نہیں جیتنا ہے مگر اقتدار میں آنے کے لئے عوامی حمایت ضرور چاہیے ہوگی کیونکہ اکیسویں صدی کا شہری، چاہے وہ سعودی ہی کیوں نہ ہو، اپنی حصّہ داری چاہتا ہے۔ گرفتاریوں کے ذریعہ جہاں شہزادہ محمّد نے اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگایا ہے وہیں عوامی توقعات کو بھی بڑھا دیا ہے جن کے پورا نہیں ہونے کی صورت میں ملک سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ تیل کی گھٹتی قیمت اور یمن کے ساتھ جاری جنگ نے ویسے ہی عام زندگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ ملک پہلی بار معاشی تنگی کے دور سے گزر رہا ہے۔ عوام جس آرام و آسائش کی عادی رہی ہے اس میں کمی آگئی ہے۔ اس کا اثر وہاں رہ رہے قریب ایک کروڑ غیر ملکی باشندوں پر بھی پڑا ہے جو بڑی تعداد میں اپنے اپنے ملکوں کو واپس آرہے ہے۔

مگر معاشی بحران کے باوجود سعودی عرب سیاسی طور پر ایک مستحکم ملک رہا ہے۔ یہاں اقتدار کی متقلی ایک طئے شدہ نظام کے تحت ہوتی رہی ہے۔ ایک حاکم کے مرتے ہی پہلے سے نامزد ولی عہد جو کہ دو ہزار پندرہ میں شاہ عبدللہ کی وفات تک عبد العزیز کا کوئی بیٹا ہوا کرتا تھا حاکم بن جاتا تھا۔ اب اس میں تبدیلی آچکی ہے۔ شاہ سلمان کے آنے کے بعد سے اب تک دو ولی عہد بدلے جا چکے ہیں۔ پہلے انہوں نے اپنے بھائی شہزادہ مقرن کو تین مہینےبعد ہی ہٹا کر بھتیجے شہزادہ محمّد بن نایف کو ولی عہد بنایا پھر دو سال کے عرصے میں اسے برخاست کر اپنے بیٹے محمّد بن سلمان کو اپنا قائم مقام ،مقرر کیا ہے۔ جون دو ہزار سترہ میں برطرفی کے بعد سے محمّد بن نایف کی کوئی خبر نہیں ہے۔ غیر مصدقہ خبر یہ ہے کہ وہ نظر بند ہیں۔

اب یہ گرفتاریاں جن میں شہزادوں کے علاوہ ملک کے چار بڑے تاجر صالح کامل، بکر بن لادن، سرمایہ کار محمد العمودی اور نیشنل کمرشیل بنک کے مالک الولید البراہیم  بھی شامل ہیں۔ یہ ایسی ہی خبر ہے جیسے ہندوستان میں کوئی مکیش امبانی یا نُسلی واڈیا پر ہاتھ ڈالے۔ گرفتار شدگان میں بحریہ کے سبکدوش کمانڈر، السعودیہ کے سابق ڈائریکٹر، سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیر اقتصاد و منصوبہ بندی کے نام بھی ہیں جس نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اتنی ساری اتھل پتھل کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سعودی عرب اس وقت ایک داخلی انتشار سے گزر رہا۔ عام سعودی اگر خاموش ہے تو اس کی وجہ وہاں کا مخصوص نظام ہے۔

جہاں تک ان گرفتاریوں کا ہندوستان اور سعودی عرب تعلقات کا سیاق ہے تو سعودی عرب کے اندر پیدا ہونے والا کوئی بھی بحران ہندوستان کے لیے تشویش کا باعث ہوگا۔ مکّہ اور مدینہ کی وجہ سے وہ خطّہ ہندوستان کے لئے ہمیشہ سے دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ تیل کی دریافت کے بعد سے ہندوستان کا سیاسی اور اقتصادی مفاد اس ملک سے جڑا ہے۔ اس وقت وہاں پر پچیس سے تیس لاکھ ہندوستانی بر سر روزگار ہیں۔ گو کہ معاشی بحران کی وجہ سے اندنوں وہاں سے واپسی کا سلسلہ جاری ہے اس کے باوجود اب بھی وہاں کی نوکریوں پر لاکھوں ہندوستانی گھر انحصار کرتے ہیں۔ وہاں ہونے والی کسی بھی تبدیلی کا براہ راست اثر ہندوستان پر پڑے گا۔