فکر و نظر

سردار پٹیل کا مجسمہ : سہولتوں کے فقدان میں دم توڑتے بچے اور 121 کروڑ روپے کا چندہ

آخر مجسمہ کی اونچائی کیا اس بات کو چھپا سکے‌گی کہ اس کے لئےجمع کیا جا رہا فنڈ ایک طرح بھوک سے مہینوں تڑپتے اور مرتے تمام ہندوستانی کے منھ پرگویا کرارا طمانچہ ہے۔

Photo: StatueofUnity.in

Photo: StatueofUnity.in

ایک ایسے وقت میں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کے فقدان میں دم توڑتے بچّوں کے معاملےکسی خاص صوبے تک محدود نہیں رہ گئے ہوں، اس میں اہم ترین ریاستوں کے نام بھی شامل ہیں، تب یہ خبر کہ چار اہم ترینعوامی تنظیموں نے کروڑوں روپے کی رقم ایک دیوہیکل مجسمہ کی تعمیر کے لئے دی ہو، کوئی ہلچل پیدا نہیں کر سکی؟

یاد رہے گزشتہ دنوں گجرات سے یہ خبر آئی کہ راجدھانی احمد آباد کے اسروا علاقے کے سول ہسپتال میں تین دن میں 18 بچّے گزر گئے۔معلوم ہو کہ چار عوامی شعبوں کی طرف سے 121 کروڑ روپے کی یہ رقم اسٹچیو آف یونٹی (گجرات میں سردار ولّبھ بھائی پٹیل کا دیوہیکل مجسمہ) کی تعمیر کے لئے دی جائے‌گی۔مجسمہ کی تعمیر میں تعاون دےکر کارپوریٹ سماجی ذمہ داری نبھانے والی تنظیموں میں درج ذیل شامل ہیں:آئل اینڈ نیچرل گیس کمیشن (50 کروڑ روپے)، ہندوستان پیٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ (25 کروڑ روپے)، انڈین آئل کارپوریشن (21.93 کروڑ روپے) اور آئل انڈیا لمیٹڈ (25 کروڑ روپے)۔

کسی نے واجب سوال پوچھ لیا کہ کیا اتنی بڑی رقم سرکاری ہسپتالوں کو نہیں دی جا سکتی تھی جبکہ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت تعلیم اور صحت کو دو اہم شعبے کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔دوسرے نے اس بات کو لےکر فٹافٹ حساب لگایا کہ اتنی بڑی رقم میں کتنے سرکاری ہسپتالوں کو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جا سکتا تھا اور اس طرح کی قبل از وقت اموات کو مستقبل میں روکا جا سکتا تھا۔تیسرے نے انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تازہ رپورٹ کی یاد دلائی جو گزشتہ سترہ سالوں سے عالمی بھوک اشاریہ جاری کرتی ہے۔ اس کے مطابق 119 ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ہندوستان فی الوقت 100 ویں مقام پر ہے، جبکہ گزشتہ سال یہی مقام 97 تھا۔

یعنی وہ محض ایک سال کے اندر تین درجہ نیچے لڑھک گیا۔ اور یہ بھی حساب لگایا کہ اتنی بڑی رقم سے کتنے بھوکے بچّوں کو مقوی غذا کی فراہمی کی جا سکتی تھی۔ستم ظریفی ہی ہے کہ ملک کے محروم اورجن کا استحصال کیا گیا ہے، بھوک اور ان کی صحت کی بدتر حالت کی ایک طرح سے طنز اڑاتی پٹیل کے مجسمہ کے لئے ملے چندے کی اہم خبر پر گفتگو نہیں ہو سکی۔

نہ کسی نے یہ بھی پوچھنے کی زحمت اٹھائی کہ ایک طرف سنگھ کے ضمنی تنظیم چینی مال کا بائیکاٹ کرنے کے لئے گلا سکھا رہے ہیں، وہیں ان کی ہی ایک ضمنی تنظیم (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت کی طرف سے مجسمہ بنانے کا کام چینی کاریگر کر رہے ہیں۔کچھ مہینہ پہلے ہی انڈین ایکسپریس نے بتایا تھا کہ چین کے نانچانگ میں  واقع ٹی کیو آرٹ فاؤنڈری کے اہلکار یہاں پہنچنے والے ہیں جو چین کی ان کی فاؤنڈری میں تیار کئے گئے پتلے کے الگ الگ حصوں کو، جو جہازوں سے یہاں آئیں‌گے۔ان کو وہ ایک ساتھ اسیمبل یعنی ایکجا کرنے کا کام کریں‌گے۔

اس سٹیل فریم ورک بنانے کا کام ملیشیامیں واقع ئے ایوریسیننڈائی کو دیا گیا ہے، جس نے دبئی کا برج خلیفہ اور برج العرب جیسی کثیرمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی۔اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کا یہ ڈریم پروجیکٹ ایک طرح سے شروعات سے ہی تنازعات سے گھرا رہا ہے۔یاد کر سکتے ہیں کہ سال 2013 کے 15 دسمبر کو بی جے پی کی طرف سے ملک کے پانچ سو سے زیادہ مقامات سے منعقد’رن فار یونٹی ‘ پروگرام جو اس پروجیکٹ کو انجام تک پہنچانے کی مہم کا حصہ تھا اور اس کے اگلے ہی دن ‘ این ڈی ٹی وی ‘ کے ذریعے کی گئی ایک اسٹوری۔

گجرات کے جام نگر علاقے کے بھنوڈ کے کامرس کالج کے طالب علموں کو کوٹ کرتے ہوئے اس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ان کو حکم دیا گیا تھا کہ ان کو ‘ رن فار یونٹی ‘ میں شامل ہونا پڑے‌گا۔مگر جب طالب علم شامل نہیں ہو سکے تب انتظامیہ کی طرف سے ان کے خلاف نوٹس جاری کیا گیا اور ان کو کہا گیا کہ سو روپے فی شخص جرمانہ دینا پڑے‌گا۔ یہاں تک کہ طالب علموں کو دھمکایا گیا کہ ان کو امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جائے‌گا۔ اس خبر کو لےکر اتنا ہنگامہ مچا کہ کالج کو چپ چاپ اس نوٹس کو واپس لینا پڑا۔

جہاں تک اس پروجیکٹ کا سوال ہے تو یہ مجوزہ مجسمہ امریکہ میں واقع اسٹیچیو آف لبرٹی سے دگنا ہے اور ریوڈجنیری میں واقع عیسیٰ کا مجسمہ سے چارگنا لمبا ہے۔اس پروجیکٹ کے لئے قیاسی طور پر 2500 کروڑروپے کی رقم کے لگنے کا اندازہ ہے۔ یہاں تک کہ کمپنی کی کنسل ٹینسی فیس ہی 61 کروڑ روپے کے آس پاس ہوگی۔

‘ رن فار یونٹی ‘کے تحت یہ اسکیم بنی تھی کہ بی جے پی کے کارکن اورسنگھ پریواری تنظیموں کے سویم سیوک ملک میں لوگوں سے مل‌کر اس پروجیکٹ کی اہمیت کے بارے میں بتائیں‌گے اور ان سے لوہے کا تعاون مانگیں‌گے۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سردار پٹیل ایک کسان تھے، خاص زور انہی پر دیا جائے‌گا اور ان کو اس بات کے لئے ترغیب دی جائے گی کہ25000 ٹن لوہے سے بن رہے اس مجسمہ کی تعمیر میں وہ بھی لوہےکا تعاون دیں۔

Photo: StatueofUnity.in

Photo: StatueofUnity.in

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے تحت تقریباً 135 ٹن لوہا کا کباڑ /اسکریپ اکٹھا ہوا تھا، جس کے کارآمدہونےپر ڈائرکٹر کو شک تھا، البتہ اس کو گلاکر اس کا کارآمد حصہ پتلے کے ری انفورسڈ ستونوں کے لئے استعمال کیا گیا۔وہ سبھی جوسنگھ پریواری تنظیموں کی سرگرمیوں سے آگاہ ہیں، وہ بتا سکتے ہیں کہ دو دہائی پہلے سنگھ پریواری تنظیموں نے اسی قسم کی ایک وسیع مہم چلائی تھی اور پانچ سو سال پرانی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے کام میں تعاون دینے کے لئے لوگوں سے اینٹ اکٹّھا کی تھی۔

معلوم ہو کہ یہ مجسمہ سادھو بیٹ نامی مقام پر واقع ہوگا، جو سردار سروور باندھ سے تقریباً تین کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس مجسمہ کی انچائی 182 میٹر ہے، جو ایک طرح سے دنیا کے سب سے اونچے مجسمہ میں شمار ہوگا۔اس پروجیکٹ کی ملکیت گجرات حکومت کے ذریعے حمایت یافتہ ‘ سردار پٹیل راشٹریہ ایکتا ٹرسٹ ‘کے پاس ہوگی۔ اس اسمارک کے پاس سردار پٹیل کی زندگی سے منسلک پہلووں پر بنا عجائب گھر بھی ہوگا اور ایک ریسرچ سینٹر بھی ہوگا جو پٹیل کے لئے اہمیت رکھنے والے مسئلوں پر ریسرچ کو بڑھاوا دے‌گا۔

جن دنوں مذکورہ  پروجیکٹ کی بنیاد رکھی گئی تھی اس وقت اس کے لئے ماحولیاتی کلیرینس ملنے کو لےکر بھی سوال اٹھے تھے۔کئی کارکنان،اورمفکرین نے مرکزی حکومت کے  وزارت ماحولیات اور جنگل کے چیف سکریٹری کو اس  سے متعلق لکھا تھا اور اس کی نقل گجرات کے وزیراعلی ٰاور گجرات کے چیف سکریٹری، پرنسپل سکریٹری اور سردار پٹیل راشٹریہ ایکتا ٹرسٹ کو بھی بھیجی تھی جس میں ماحولیاتی، سماجی اور حفاظت سےمتعلق مسئلے اٹھائے گئے تھے۔

اس گروپ کے ذریعے مرکزی حکومت کے  وزارت ماحولیات اور جنگل کے سیکریٹری ڈاکٹر ویراج گوپالن کو 7 نومبر 2013 کو بھیجے گئے خط میں درج ذیل باتوں کو اٹھایا گیا تھا جس کے تحت انہوں نے اس پروجیکٹ کی تفصیلی ماحولیاتی جانچ کی مانگ کی تھی۔ریلیز کے  مطابق، سردار سروور باندھ‌کے پاس، شول پنیشور سینکچواری سے محض 3.2 کلومیٹر، ماحولیات کے حساب سے بےحد حساس علاقے میں سردار پٹیل کے اس دیو ہیکل مجسمہ کی تعمیر کی جا رہی ہے۔

قانونی طور پر ضروری ماحولیاتی کلیرینس لئے بغیر، ماحولیاتی اور سماجی اثر کا اندازہ کئے بغیر یا کسی بھی طرح سے عوام سے صلاح مشورہ کئے بغیر اس کام کی شروعات کی گئی ہے۔ان کے مطابق یہ پروجیکٹ پوری طرح غیرقانونی ہے اور 1986 میں بنے ماحولیاتی تحفظ قانون اور ستمبر 2006 میں جاری ای آئی اے نوٹیفکیشن کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ندی کے کنارے اس قسم کےعظیم الشان تعمیر کو لےکر جاری عدالتی احکامات کو بھی چیلنج کرتا ہے۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر 2013 کو بڑی چہل پہل کے ساتھ اور میڈیا کی موجودگی میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ریلیز میں اس پروجیکٹ سے جڑے کچھ دیگر باتوں کو بھی اٹھایا گیا تھا۔مثال کے طور پر شول پنیشور شرناشرئے/ سینکچری کی سرحد سردار سروورباندھ کو چھوتی  ہے۔ چونکہ یہ مجسمہ سردار سروور باندھ سے مشکل سے 3.2 کلومیٹر دور ہے، وہ شول پنیشور شرناشریہ سے بھی نزدیک ہے، پروجیکٹ کے لئے ندی  میں بھی تعمیر کرنا پڑے‌گا اور مجوزہ تالاب بھی ماحولیات کے تعلق سے حساس علاقے کے قریب ہے، جس کا سنگین اثر ماحولیات اور ماحولیاتی نظام پر پڑے‌گا۔

اس پروجیکٹ کا ندی کے نچلے حصے پر، اس کے حیاتی تنوع، لوگوں اور ان کی گزر بسر پر اثر پڑے‌گا۔ سردار سروور باندھ‌کی تعمیر کے دنوں میں ہی مضبوط چٹانوں میں کانکنی کے سبب، علاقے کےساختی استحکام کو لےکر پہلے ہی کافی سوال اٹھ چکے ہیں، جن کو ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا۔فی الوقت اس کے بارے میں زیادہ جانکاری عوامی دائرے میں دستیاب نہیں ہے کہ ان اعتراضات کا کیا حل نکالا گیا یا 2014 میں نظام بدلنے کے ساتھ ہی نئی حکومت نے ان کو سرے سے خارج کر کے پروجیکٹ کے این او سی  دے دیا۔آخر میں، پیش کردہ مجسمہ کی بنیاد رکھتے ہوئے جناب مودی نے کہا تھا کہ یہ ایک اتنا بڑا دیو ہیکل مجسمہ ہوگا کہ دنیا ہندوستان کی طرف دیکھا کرے‌گی۔

آخر مجسمہ کی اونچائی کیا اس بات کو چھپا سکے‌گی کہ اس کے لئےجمع کیا جا رہا فنڈ ایک طرح بھوک سے مہینوں تڑپتے اور مرتے تمام ہندوستانی کے منھ پرگویا کرارا طمانچہ ہے، وہی ہندوستانی جو صحت کی سہولتوں کے فقدان میں اپنی روحوں کے بے جان جسموں کو اپنے کندھے پر ڈہونے کے لئے مجبور ہیں۔ابھی زیادہ دن نہیں ہوا جب ‘ اکّیسویں صدی میں سرمایہ ‘ کے مشہور مصنف تھامس پیکیٹی اور ان کےمعاون لکاس چاسیل نے، اپنے ایک پیپر میں ہندوستان میں بڑھتےعدم مساوات پر نگاہ ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ کس طرح گزشتہ تین دہائیوں میں ہندوستان ان ممالک میں اہم ترین رہا ہے جہاں سب سے اوپری ایک فیصدی طبقے کے لوگوں کی قومی آمدنی میں حصےداری میں سب سے زیادہ تیزی دیکھی گئی ہے۔

ہندوستان کس طرح صرف اوپری طبقے کے لئے ہی ‘ چمک ‘ رہا ہے۔

(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔)