فکر و نظر

مولانا آزاد ؛ وہ مسلمان مجرم ہوگا جو کسی مسلمان سے پیشہ یا کام کی بنا پر اس سے پرہیز کرے گا، اس کو بہ نظر ذلت دیکھے گا

اللہ کے نزدیک معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار و متقی  ہے۔ بتاؤ تم نے اپنی فضیلت و تفوق کا جواز کہاں سے  نکالا۔ گروہ بندی، جتھہ بندی، براداری کی تقسیم اور پھر اس تقسیم میں کم معزز اور زیادہ معزز کے مفروضہ مدارج تم نے بنائے ہیں ایک بھی صحیح نہیں ہے۔

Photo : viqarehind.com

Photo : viqarehind.com

برادران عزیز!

کل صبح کچھ لوگ لوگ میرے پاس آئے جو یہاں سے قریب ہی رہتے ہیں انھوں نے ایک بات کہی اور بات کے بارے میں شرعی نقطہ نگاہ دریافت کیا میں نے ان کوجواب تو دے دیا اور اس کے بعد وہ لوگ چلے بھی گئے لیکن میں کیا بتاؤں کہ اس وقت میرے قلب کی بے چینی، اضطراب اور اضطرار کا کیا عالم تھا اور رہ رہ کر کون سا درد تھا جو میرے جسم و حواس کا ناکارہ کئے دے رہا تھا، موجودہ مسلمانوں کی پست ذہنیت، جھوٹا غرور، بیجا فخر اور اس کے نتائج یہ ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے آتے اور مجھے لرزہ براندام کرتے گئے۔بات کیا تھی؟ کہنے اور سننے میں تو معمولی اور بہت ممکن ہے کہ اس قسم کے واقعات تم روز سنا کرتے ہو اور تمہارے دل پر اس کا کوئی اثر بھی نہ ہوتا ہو، مگر بہ اعتبار نتائج یہ بات جتنی اہم ہے اور اس زمین پر ایک مسلمان کے لیے شرمناک میں نہیں سمجھتا کہ اس سورج کے نیچے اس سے بڑھ کر، کوئی اور بات دردانگیز اور دل فگار ہو۔

ان لوگوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ ان لوگوں میں ہیں جن کو ’لاگ بیگی‘کہتے ہیں۔ ہندوستان کے ہر گوشے میں ہماری برادری ہے، صفائی اور گھروں میں کمائی کا کام ہمارا پیشہ اور شکم پری و تن پروری کا ذریعہ ہے، ہم لوگ مذہباً مسلمان ہیں۔ ہم میں کوئی مر جائے تو اسلامی طریق پر غسل میت اور تجہیز و تکفین کرتے ہیں۔ پیدائش کے موقع پر تمام وہ رسوم ادا کرتے ہیں جو مسلمانوں کے یہاں برتی جاتی ہیں۔ نماز روزہ کے بھی معتقد ہیں اگرچہ پابند کم ہیں۔ خدا رسول کے بارے میں ہمارے وہی عقائد ہیں جو عامۃ المسلمین کے لیکن اس کے باوجود مسلمان ہم سے چھوت برتتے ہیں، ذلیل سمجھتے ہیں اور حقارت سے پیش آتے ہیں۔ چنانچہ ہماری برادری کا ایک آدمی محلہ کے ہوٹل میں چائے پینے گیا۔ دوکاندار کو ہماری ذات معلوم نہ تھی، وہ چائے پی کر اور قیمت ادا کر کے چلا آگیا لیکن بعض لوگ جو ہماری ذات سے واقف تھے انھوں نے دوکاندار سے سخت باز پرس کی اور بائیکاٹ کی دھمکی دی۔ وہ سہم گیا اور بھاگا ہوا ہمارے سردار کے پاس آیا۔ اس آدمی کو بلوا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ ہمارے چند آدمی اس کے ساتھ بھی ہولیے۔ چنانچہ وہاں سب کے سامنے ہم کو برا بھلا کہا گیا جس پر ہم لوگوں نے بہ خوشامد معافی مانگی، تب کہیں جان بچی، دوکاندار سے وہ برتن جس میں ہمارے آدمی نے چائے پی تھی سب کے سب توڑوا ڈالے اور اس کی قیمت ہم سے وصول کی گئی۔ اس کے بعد سارے برتن دھوئے گئے اور ہوٹل کی دھلائی کی گئی اور دوکاندار نے آئندہ محتاط رہنے کی قسم کھا کر جان بچائی۔

اس واقعہ کو بیان کر کے ان لوگوں نے مجمع سے اس معاملہ میں شرعی احکام دریافت کئے اور پوچھا کہ کیا واقعی شرع شریف کی نگاہ میں بھی ہم اسی سلوک کے مستحق ہیں۔

آہ میں کیا کہوں کہ اس سوال نے میرے دل کے کتنے ٹکڑے کئے۔ اور روح کو کیسا صدمہ عظیم پہنچایا، شرم، ندامت، انفعال و انقباض سے گردن جھک گئی اور میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔

مسلمانو!فخر و غرور، فضیلت و برتری کے اسی جھوٹے بت کو اسلام نے مٹایا تھا اور داعی اسلام نے مساوات حقیقی کے بے برگ و بار درخت کو سرسبز کیا تھا ،کیا تم پھر اسی جہالت کے دور میں واپس پہنچ گئے ہو۔ جس طرح تم نے اور بہت سے جتھے اور برادری اور گروہ بنائے، فضیلت و برتری کے مفروضہ مراتب قائم کئے حالانکہ خدا نے کوئی پروانہ نہیں اتارا کہ فلاں گروہ معزز اور فلاں برادری ذلیل ہے بلکہ اس نے فرمایا تو یہ فرمایا کہ

یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثیٰ و جعلناکم شعوبا و قبال لتعارفوا۔

لوگو!ہم نے تم کو بلا استثنا مرد و عورت کے اختلاط سے پیدا کیا اور صرف پہچان کے لیے قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ قوموں کی تقسیم میں کوئی دقت نہ پیدا ہو۔ یعنی بلحاظ پیدائش سب ایک، کسی کو کسی پر تفوق، کوئی فضیلت، کوئی برتری نہیں ہے، البتہ قومیت و مملکت کی تقسیم کی خاطر اس پہچان کے لیے کہ یہ شخص عرب کا ہے، یہ افریقہ کا، یہ یورپ کا،یہ ہندوستان کا، قبائل میں بانٹ دیا ہے اور بس۔ لیکن اس فضیلت و اعزاز کے لیے جس کا غلط گمان آج کہلانے والے مسلمانوں نے اپنے لیے خاص کر لیا ہے اس نے معیار ٹھہرایا تو یہ ٹھہرایا۔

ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم

اللہ کے نزدیک معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار و متقی  ہے۔ بتاؤ تم نے اپنی فضیلت و تفوق کا جواز کہاں سے  نکالا۔ گروہ بندی، جتھہ بندی، براداری کی تقسیم اور پھر اس تقسیم میں کم معزز اور زیادہ معزز کے مفروضہ مدارج تم نے بنائے ہیں ایک بھی صحیح نہیں ہے،اسلام نے اس طرح کی کوئی بھی تقسیم تسلیم نہیں کی جس طرح ہندوستان میں ہندوؤں نے اپنی چار ذاتیں اور ان کا اعزاز و اکرام فرض کر لیا تھا کہ چھوت چھات کی رسم جاری کی تھی یا مصر کے آثار و نقوش بھی بتاتے ہیں کہ ان میں بھی جذبہ تفوق و انانیت تھا، یا پھر قبل از اسلام عرب میں کسی نہ کسی شکل و صورت میں چھوت چھات اور فخر و غرور کارفرما تھا۔ لیکن بسربعثت خیرالناس و خیرالرسل یہ چیز آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی اور زیوراسلام سے آراستہ ہونے کےبعد ایک مسلمان  کے نزدیک تو اس بیجا غرور کا کوئی شائبہ بھی باقی نہیں رہ جاتا۔

انسان بڑا ہے یا چھوٹا اللہ کے نزدیک جس کا دل پاک ہے وہی بڑا ہے۔ برادری، گروہ یا جتھہ کا کہیں سوال ہی نہیں آتا۔ جسم!جس کے تم پیچھے پڑے ہو اور جس کی بابت تمہارا خیال ہے کہ اگر وہ صاف ہے اور دوسرے کپڑے بھی صاف ہیں اور ڈھکا ہوا بھی، اچھے درزی کے ہاتھ سے سلے ہوئے کپڑے پہنے ہے تو وہی اشرف و معزز و برتر انسان ہیں۔ مگر یاد رکھو کہ یہ طہارت اور صفائی بھی طہارت و صفائی نہیں۔ سچی طہارت اور سچی صفائی دل کی طہارت اور دل کی صفائی ہے اور برتری و فوقیت بھی اسی آدمی کو ہے جس کے سینے میں اس کا دل طاہر و صاف ہو۔

سن لو! کہ زبانی عقائد سے نہیں، مسلمان عمل سے مسلمان ہوتا ہے اور پھر جب زبانی اقرار و عقائد کے اعتبار سے بھی وہ لوگ تمہاری طرح ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، تو پھر ان کے ساتھ تمہارے یہ وحشیانہ سلوک کیوں؟ ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو صوم صلوۃ کے پابند ہیں، کتنے ایسے ہیں جو کہ پابند نہیں۔ اور تم خود بتاؤ کہ تمہارا کیا حال ہے؟ کیا خود تمہارا بھی یہی حال  نہیں ہے؟  کہ نماز و روزہ کے پابند ہیں مگر اکثر، ہائے اکثر غافل و تارک صلوۃ۔ اور عجب نہیں کہ تمہارے غرور والے اور مدعیان فضیلت تفوق قیامت کے دن منہ دیکھتے رہیں اور وہ اعزاز  و تکریم میں تم سے بڑھ جائیں۔

چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ، ارشاد اور تعلیم ہمارے سامنے ہے۔ ایک سے زائد نمونے ہمارے پیش نظر ہیں کہ اقوام غیر اور نامسلمانوں کے ساتھ آپ کا میل جول، اکل و شرب، کس قدر بڑھا ہوا تھا، بے تکلی کی فراوانی نے کبھی مسلم و غیر مسلم کی تمیز تک نہ ہونے دی، دیکھنے والے یہی سمجھتے رہے کہ ایک اپنے خاندان کے کسی فرد یا سچے اور پکے مسلمان سے محو کلام و مصروف گفتگو ہیں۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں کے ساتھ بے تکلف شریک طعام ہوجایا کرتے تھے۔ اور کبھی اس قسم کا پرہیز نہ فرمایا۔ چنانچہ دو واقعے اس معاملے میں نہایت اہم اور تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔

ایک مرتبہ عیسائیوں کا ایک ڈیپوٹیشن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا، کون سی مسجد، وہ مسجد کہ اللہ کے نزدیک کعبہ اقدس کے بعد قسم ہے خدا کی کہ کوئی محترم و محبوب جگہ نہیں ہے۔ مسجد نبویہ میں ٹھہرایا۔

بخاری کی روایت ہے کہ جب اتوار کا دن آیا تو ان لوگوں کو نماز کے لیے تشویش ہوئی۔ جب واقعہ کا علم اس وجود اقدس کو ہوا جو کسی کے فکر و غم کو برداشت نہیں کر سکتا تھا تو اس نے ان عیسائیوں کو تسلی دی اور فرمایا کہ تم کچھ تردد اور ملال نہ کرو، یہ مسجد عبادت ہی کے لیے ہے تم شوق سے اپنے طریقہ پر نماز ادا کرو، مجھے قطعاً اعتراض نہیں اور نہ کوئی مسلمان کچھ تعارض کرے گا چنانچہ وہ خوش ہوگئے اورپورب کی طرف منہ کر کے اپنے طریقہ پر اپنی نماز ادا کی۔

دوسرا اہم واقعہ نبوثقیف قبیلہ طائف کی آمد کا واقعہ ہے۔ صحاح ستہ  میں ہے کہ ان کے ساتھ رحمت  اللعالمین کا سلوک نیک تاریخ عالم کے اہم ترین واقعات اور حضور کے روؤف و رحیم اور رحمت اللعالمین ہونے کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ اس اعتبار سے کہ اس وقت عیسائیوں کی دشمنی اتنی سخت و شدید نہ تھی اور وہ اہل کتاب بھی تھے اتنا اہم نہیں ہے جس قدر کہ واقعہ ثانی اپنی نوعیت و واقعات و حقائق کی بنا پر اہم ہے۔ اس لیے کہ یہ گروہ یعنی طائق کا قبیلہ بنو ثقیف عقیدتاً مشرک کامل تھا پھر اس گروہ کی اسلام دشمنی کا وہ روح فرسا واقعہ بھی ہے کہ جب سرور دو عالم، محبوب پروردگار مکہ میں دینی تبلیغ کا خاطر خواہ اثر نہ پاکر اس خیال سے طائف تشریف لے گئے کہ مشرکین مکہ کی عداوت میں ذاتیات کو بھی دخل ہے۔ قرب و جوار و دیہات میں شاید تعلیم مفید ہو تو اسی قبیلہ کے سرداروں نے شریروں کی ایک جماعت پیچھے لگا دی۔ جس جگہ حضور تشریف لے جاتے یہ لوگ شور کرتے اور پتھر مارتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وجود گرامی جس سے زیادہ محترم، جس سے زیادہ اشرف، جس سے زیادہ اکرم ابتدائے، ابتدائے تخلیق سے آج تک اس کرہ خاک پر پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوگا لہولہان ہوگیا۔ پیشانی اقدس سے خون کے فوارے چھوٹنے لگے اور خون بہہ بہہ کر پیروں تک آیا۔ نعلین مبارک پائے مقدس کے ساتھ وصل ہو کر رہ گئے۔ الغرض  جب وہ آئے تو لوگوں نے کہا انھیں ہم لوگ اپنے اپنے گھروں میں ٹھہرا لیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نامنظور فرمایا اورحکم دیا کہ سب کو مسجد میں ٹھہرایا جائے۔ تم تو یہ سن کر چونک پڑوگے کہ مسجد میں اور مشرک کو ہاں ہاں انھیں مشرکوں اور ایسے خوں ریز و مفسد مشرکوں کے بارے میں حکم فرمایا کہ مسجد میں ٹھہرائے جائیں۔ جن کی اسلام و مسلم دشمنی کے زخم اس وقت تک بھی ہرے تھے، مندمل نہ ہوئے تھے اور مسجد میں ٹھہرانے کی علت بھی بتادی کہ یہ لوگ اسلام کی عبادت دیکھیں گے۔ عبادت کی سادگی اور اس کے انہماک و استغراق کو دیکھیں گے۔ اللہ کا کلام سنیں گے، سچائی ان کے کانوں میں پڑے گی۔ شاید راہ نیک کی توفیق ملے۔ چنانچہ ہوا بھی یہی۔ اس وفد میں جتنے لوگ آئے تھے کلام اللہ کی، سچائی کی، باتوں، اخلاق و عادات سے مسلمانوں کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ غور کرو! مزاج کی نوعیت کیا تھی، رنگ کیا تھا، مگرخلق عظیم، کردار، عمل اور اخلاص نےکیا بنا دیا۔ آئے تھے دشمن ہو کر گئے تو اس طرح کہ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں اور ان میں طوق محبت پڑا ہوا تھا۔ اس ذات بابرکات کا جس کے ساتھ وہ وہ سلوک کر چکے تھے جو تم نے ابھی سنا۔

یہ ہیں وہ کردار جس نے اغیار کو اپنا بنایا تھا نہ کہ تم کہ اپنوں کو ٹھکراتے ہو اور ان کو بیگانہ بناتے ہو۔ اور مشرکوں اور کافروں کے حوالے کئے دیتے ہو۔ خوب سن لو کہ اسلام میں چھوت چھات نہیں ہے۔ بالکل نہیں ہے، قطعاً نہیں ہے۔ یہ ہندو اور دیگر اقوام کی لعنتیں ہیں جن پر تم عامل ہوتے جاتے ہو۔ چھوت چھات ناجائز اسلام میں حرام، بلکہ حرام مطلق ہے، کسی چیز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بچنے کے لیے اپنی تعلیم میں اتنی تاکید نہیں فرمائی جتنی کہ گندہ چھوت چھات، گندہ خیال سے دور رہنے کی۔ یادرکھو جسم کوئی بھی ناپاک نہیں ہوتا۔ جسم سب کا پاک ہے ہاں ناپاک ہوتا ہے دل، اسی واسطے رسول پاک نے جمعوں، مجمعوں میں لوگوں کو مخاطب فرماتے ہوئے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔

التقویٰ ھھنا          التقویٰ ھھنا

تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ تقویٰ کا مقام یہ ہے، پاکی وہ پاکی ہے جو اس جگہ کی ہو۔ مسیحیت کی کامیابی کی بنیاد چھوت چھات پر ہے۔

عیسائیوں کی تبلیغی عظیم الشان کامیابی کی وجہ بھی یہی چھوت چھات ہے۔ آج کے کل کے مسلمانوں کی اسی پست ذہنیت نے ان پر ترقی کے میدان کھول دیئے ہیں۔ وہ مسلمان جو تمہاری ہی غفلت تبلیغ سے پستی میں رہ گئے اور اسلامی تعلیم وہاں نہ پہنچ سکی اور آج تمہارے خیال میں اچھوت مسلمان ہیں۔ جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان بات پوچھنا تو درکنار ہمیں مسلمان بھی نہیں سمجھتے تو وہ عیسائی ہوگئے، چنانچہ پنجاب میں آج بھی وہ بستیاں کی بستیاں جو باپ دادا سے مسلمان تھیں عیسائی ہو چکی ہیں اور اسی طرح یوپی میں بھی بستیاں کی بستیاں تم جا کر دیکھو تو آج عیسائی ہیں مگر کل وہ مسلمان تھیں۔ ورنہ عیسائی با اعتبار اپنی رعونت و غرور کے ایک منٹ کے لیے بھی اتنی عظیم الشان ترقی نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی مساوات کا جو عالم اور برکات اور تعلیم مسلمانوں میں ہے ان میں نہیں۔ چنانچہ ان کے یورپین گرجے الگ، نیم یورپین گرجے علیحدہ اور ہندوستانی عیسائیوں کے گرجے جداگانہ مگر یہ دیسی عیسائیوں کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی خصوصیتوں پر عامل ہو کر تمہاری غفلت اور تمہارے غلط دعویٰ فضیلت و برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے عظیم الشان کامیابی حاصل کی ہے۔

تم جانتے ہو کہ بنگال میں مسلمانوں کی تعداد اکثریت میں ہے، کیوں ایسا ہے؟ ابتدا میں بعض سچے داعی اور مخلص مسلمانوں کا قدم آیا اور انھوں نے تبلیغی دورے کر کر کے طرح طرح کی تکلیفیں، کوچ اور مقام کی اذیتیں، خوردونوش کے مصائب، آب  و ہوا کے حملے برداشت کر کر کے اللہ کا کام سمجھ کر اللہ کی رسول کی خوشنودی کے لیے اس کے نام و کلمہ کو ان تک پہنچایا، آج گو وہ اس کے عقائد کے لحاظ سے تبدیل  شدہ سہی اعمال میں کاہل و غافل سہی لیکن مسلمان ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں، بہرحال بنیاد قائم ہے، عمارت جب چاہے کھڑی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح یہاں سے قریب ہی کتنی ابنائے وطن کی جماعتیں تھیں جو دل سے مسلمان ہونے کے لیے تیار تھیں۔ مگر براہو اس چھوت چھوات کا کہ وہاں کے مقامی مدعیان فضیلت و تقویٰ نے انھیں مایوس کردیا اور عیسائی ہوگئیں۔

یہی جہالت اور چھوت تو تھی کہ ایک مشرقی بنگال کی اس برادری کا ایک طالب علم جس کو تم نے اپنی گروہ بندیوں میں سب سے نچلی جماعت و گروہ فرض کر رکھا ہے۔ کلکتہ آیا اور مدرسہ عالیہ میں داخل ہوا، اپنی تعلیم ختم کر کے جب وطن پہنچا تو ظاہری کیفیت اور ٹھاٹھ دیکھ کر کسی مسجد میں لوگوں نے نماز کے وقت اس کو امامت کے لیے کھڑا کر دیا۔ بعض لوگ بعد کو آئے اور یہ دیکھ کر یہ تو فلاں برادری کا شخص ہے، حالت نماز ہی میں اس کو مارنا شروع کیا؟ کیوں؟ اس لیے کہ فلاں برادری کا ہو کر امامت کے لیے کیوں کھڑا ہوگیا۔ بالآخر وہ بھاگ کر تھانے پہنچا اور اپنی جان بچائی۔ وہاں سے میرے پاس کسی نہ کسی طرح کلکتہ آیا۔ حالات سن کر میں نے چند آدمیوں کو اس بستی میں بھیجا اور تاکید کی ایک مجلس طعام ترتیب دے کر سب کو ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھلایا جائے اور میرا حکم پہنچادیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ گو بعض جاہلوں نے انکار کیا۔ مگر ایک کثیر تعداد اس پر تیار ہوگئی۔ اور ایک حد تک ان کے خیالات کی اصلاح ہوگئی۔

میرا خیال تھا کہ شاید اب یہ چیز کم ہوگئی ہے مگر اب اس واقعہ نے بتلایا کہ نہیں کہ اب بھی ایسے جہلا کی کمی نہیں ہے۔

افسوس کہ لوگ اب بھی اثر نہیں لیتے، آنکھیں نہیں کھولتے اور ان کو اپنی زبوں حالی کا احساس نہیں ہوتا۔

جو تم میں یہاں موجود ہے وہ سن رہا ہے اور جو موجود نہیں ہے تمہارا فرض ہے کہ اس تک میری آواز پہنچا دو کہ وہ مسلمان مجرم ہوگا جو کسی مسلمان سے چھوت چھات کرے گا، وہ مسلمان مجرم ہوگا جو کسی کے ساتھ دنیا کی بنائی ہوئی حلقہ بندی میں سے کسی حلقہ میں خواہ وہ کتنا ہی کم درجہ کا حلقہ ہو مگر اللہ کے ساتھ اپنا رشتہ رکھتا ہو اس سے چھوت برتے گا یا اس کو اپنے سے کم یا حقیرو ذلیل سمجھے گا۔

وہ مسلمان مجرم ہوگا جو کسی مسلمان سے پیشہ یا کام کی بنا پر اس سے پرہیز کرے گا، اس کو بہ نظر ذلت دیکھے گا۔

(ماخوز؛آزاد کی تقریریں ،مرتبہ انور عارف،1961،ادبی دنیا اردو بازار دہلی)

یہ مضمون11 نومبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔