فکر و نظر

مولانا آزاد ہندو مسلم اتحاد کے ’برانڈ ایمبیسڈر‘ نہیں تھے

ہندو مسلم اتحاد کے چیمپینس کی ایک لمبی فہرست ہے۔مگر میری نظر میں مولانا کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ آزاد کا کمٹ منٹ بے مثال ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کے ambassadors کی فہرست میں تو جناح اور اقبال کا نام بھی آتا ہے۔مگر یہ بات آپ جانتے ہیں ان لوگوں نے کتنی جلدی ہتھیار ڈال دیا تھا۔

Photo: culturalindia.net

Photo: culturalindia.net

مجھے نہیں معلوم ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ 11 نومبر یعنی مولانا آزادکا یوم پیدائش،یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کو یوم تعلیم کے طور پر منائے جانے کا اعلان گانگریس سرکار نے 2008 میں کیا تھا۔ آزاد کوکس قدرنظر انداز کیا گیا اس کا اندازہ آپ کو اسی بات سے لگا لینا چاہئے۔آپ ہی سوچئے، کوئی اور پارٹی نہیں خودگانگریس کو مولانا کی اہمیت کا اعتراف کرنے میں کئی دہائی لگ گئے۔

گزشتہ31 اکتوبر کو انڈیا ٹوڈے کے ایک انٹرویو میں راجدیپ سر دیسائی نے جب رام چندر گوہا سے یہ پوچھا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ الزام کہ گانگریس نے سردار پٹیل کو نظر انداز کیا ہے درست ہے،تو انہو ں نے بر جستہ کہا کہ ہاں یہ بات با لکل صحیح ہے(یہ بات مو دی نے نیشنل یونیٹی ڈے کے ایک جزوی پروگرام Run for Unity کا افتتاح کرتے ہوے کہی تھی)۔گوہا نے کہا کہ کانگریس نے نہ صرف پٹیل بلکہ ملک کے دوسرے کئی لیڈران کو فرا موش کیا ہے۔کانگریس ابھی اپنے گاندھی خاندان کے obsession سے باہر نہیں نکلی ہے۔گوہا نے بڑی دلچسپ بات کہی؛ گانگریس نے پٹیل کو disown کر دیا اور بھاجپا نے انہیں misown کر لیا۔خیر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو بی جے پی چیخ چیخ کر ’گانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ لگاتی ہے وہی آج کانگریس کے ایک عظیم سپوت کو اپنا بنانے کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کر رہی ہے۔

اس سال یوم تعلیم منا یا جائے گا یا نہیں ، مجھے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ اس وقت تک جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں،میری نظر سے ایسا کوئی اشتہار نہیں گزرا ہے۔البتہ گزشتہ 31 اکتوبر کے کم از کم ہفتہ بھر قبل سےبار بار یہ بات بتائی گئی تھی کہ آنے والے 31 اکتوبر کو یعنی سردار پٹیل کے یوم پیدائش پر National Unity Day منایا جائے گا۔

جمہوریت کا عظیم تہوار یعنی گجرات الیکشن اب قریب آگیا ہے۔سو اسکی کا میابی کو یقینی بنانا نہایت ضروری ہے۔ لہذا یوم تعلیم میں بیجاوقت اور سرکاری خزانہ صرف کرنا کسی طور پر نیشنل انٹرسٹ میں نہیں ہے۔  آپ سمجھ رہے ہونگے میں بی جے پی سے شکایت کر رہا ہوں۔ یقین جانئے ایسابا لکل بھی نہیں ہے۔غالب کا یہ شعر آپ نے بھی ضرور سنا ہوگا۔ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب، کیوں کسی سے گلہ کرے کوئی۔

 بی جے پی سے امیدپالنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔لہذا کوئی گلہ بھی کیوں ہو۔ویسے بھی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی ناکامی کے بعد ہرتیسرا آدمی غالب کا امید والا شعر گنگناتا ہوا مل جاتا ہے۔کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

میں واقعی سیریس ہوں۔ویسے بھی جس سرکار کے پہلے وزیر تعلیم کی گتھی نہیں سلجھی اس سے ہم یہ امید کیوں کریں کہ وہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم کا یوم پیدائش یوم تعلیم کے طور پر منا ئے گی۔ موجو دہ سرکار پوری ایمانداری سے تعلیم کے بھگواکرن میں مصروف ہے۔ پورے سماج کو گیرو ا رنگ سے پوتنے کی مہم زورں پر ہے۔اب ایسی صورت میں مولانا جیسے سیکولر شخص کا کیا کام۔

مولانا اور سیکولر ان دو لفظوں کو ایک ساتھ پڑھنا دلچسپ ہے۔ یقین جانئے میں حیران ہوں کہ مولانا آزاد کے بارے میں خیال کرتے ہوے میرے ذہن میں ایک ’مولوی‘ کی تصویر کیوں نہیں بنتی۔ کرتا پا جامہ اور ایک مشت داڑھی۔گرچہ انکی زیادہ تر تصویریں جو میں نے دیکھی ہیں، وہ شیروانی اور ٹوپی میں ہیں۔ شاید جواب آسان ہے۔ مولانا کی باتیں اور تعلیمات ’مولویت‘ سے با لکل عاری ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ مولانا آزادکے پاس اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا بھی گہرا علم تھا۔

اصغر علی انجینئر لکھتے ہیں کہ مولانا نے عورتوں کے حقوق اور جنسی مساوات کے ضمن میں جو باتیں کہی اور لکھی ہیں اسے پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے موجودہ دور کا کوئی فیمینسٹ بول رہا ہو۔اب آپ ہی بتائے ایسی باتیں جان کر کرتا اور ٹوپی کا خیال کیسے آ سکتا ہے۔ آپ برا نہ ما نیں مگر سچ کہوں تو ہندوستان کے موجودہ مسلمانوں کو’ مولویوں‘ کی نہیں ہزاروں ’مولانا‘ کی ضرورت ہے۔’مولویوں‘ نے پتہ نہیں کس زمانے سے یہ بات پھیلا رکھی ہے کہ اسلام خطرے میں ہے۔ کس سے خطرہ ہے آ ج تک نہیں سمجھ آیا۔البتہ یہ خطرہ ایسا ہے جو ہمیشہ منڈلاتا ہی رہتا ہے۔

بہر حال ان سب باتوں کے باوجود جو بات نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ کہ سرکار چاہے مولانا کا یوم پیدائش منائے نہ منائے اس سے زیا دہ فرق نہیں پڑتا۔ سرکار کے رسمی پروگرامز اور گانے بجانے سے کب کس کا بھلا ہوا ہے۔ابھی ہمارا ہندوستان جس دور سے گزر رہا ہے،ہم محض رسم پر اکتفا نہیں کر سکتے۔اب جب کہ ہمیں بانٹنے کی کوششیں آسمان چھو رہی ہیں، ہمیں یہ یاد کرنا چاہئے کہ یہ وہی آزاد ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی کیریرکی شروعات تقسیم بنگال کی مخالفت سے کی اور تقسیم ہندکی مخالفت پر ختم کی۔ رام گڑھ کے کانگریس سیشن (1940میں جب وہ دوسری بار کانگریس کے صدر منتخب ہوے) میں اپنے صدارتی خطبہ میں انہوں نے جو کہا وہ کتنا دو ٹوک ہے آپ خود دیکھیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فرشتہ بھی جنت سے اتر آ ئے اور مجھے کہے کہ خدا نے اسے ہندوستان کی آزادی کا تحفہ لیکر بھیجا ہے تو میں اسے تب تک قبول نہیں کروں گا جب تک وہ مجھے یہ یقین نہ دلا دے کہ ہندو مسلم اتحاد پر کوئی آنچ نہ آئے گا۔موجودہ ہندوستان ایک عجیب طرح کے religious revivalism  کے دورسے گزر رہا ہے۔ شاید اسکی مدھم سی صورت مولانا نے 1940 میں ہی دیکھ لی تھی۔اور اس ضمن میں انہوں نے جو کہا وہ قابل ذکر ہے۔ رام گڑھ کے اسی سیشن میں انہوں نے یہ کہا کہ اگر ہمارے بیچ کوئی ہندو بھائی یہ خواہش پالے بیٹھا ہے کہ ہمارا آنے والا ہندوستان ہزار سال پرانی ہندوتہذیب کے ساتھ وجود میں آئے گا تواس کا یہ گمان محض گمان ہی رہ جائے گا۔

آزاد نے مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوے کہا کہ اگر وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانی ایرانی اور وسط ایشیائی تہذیب کو زندہ کر سکیں گے تو وہ اپنا دماغ درست کر لیں۔مولانا آزاد کے ان بیانوں سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے خوابوں کا ہندوستان کیسا تھا۔یہاں یہ ہر گز نہ سمجھا جائے کہ مولانا آزاد مذہبی تعلیم یا پھر سرے سے مذہب کے مخالف تھے۔البتہ انکے خوابوں کے ہندوستان میں مذہبی جنون کی کوئی جگہ نہیں تھی۔اصغر علی انجینئر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مولانا در اصل وحدت دین کی بات کرتے تھے۔یعنی unity of religion ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ مذاہب کے مابین تصادم کا منکر ہونا۔ لہذا ہندو مسلم ایکتا کی بات آزاد کے لئے محض سیا سی جملہ نہیں تھا۔یہ انکا عقیدہ(مذہبی) بھی تھا۔

مولانا آزاد کی کتاب انڈیا ونس فریڈم کے آخری دو ابواب کو پڑھ کر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بٹوارہ سے کس قدر ناراض تھے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ مولانا آخری سانس تک اس حقیقت کو اپنے گلے سے نیچے نہیں اتار سکے۔بادل نخواستہ ہی سہی، دوسرے لیڈران نے تقسیم ہند کو قبول کر لیا تھا۔مولانا کو تب شاید سب سے زیادہ صدمہ ہواتھا جب گاندھی جی نے بھی بٹوارہ کو تسلیم کر لیا تھا۔14 جون 1947 کی AICCکی میٹنگ میں اپنی شرکت کو مولانا آزاد بدقسمتی اور منحوس تصور کرتے تھے۔اسی میٹنگ میں ملک کی تقسیم کے حق میں ریزولیوشن پاس کیا گیا تھا۔میٹنگ میں اپنی تقریر میں مولانا نے واضح لفظوں میں کہہ دیا تھاکہ بٹوارہ ہندوستان کے لئے ایک سانحہ ہے۔

   جب تقسیم ملک کی پلاننگ چل رہی تھی، تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آرمی کا بٹوارہ کیسے کیا جائے۔آرمی کمانڈرس کی طرف سے ایک تجویز یہ آئی کہ دو تین سالوں کے لئے دونوں ملکوں کے لئے مشترکہ آرمی رہے۔ مولانا کو یہ تجویز بہت پسندآئی۔ انہوں نے فو راً اس کی حمایت کر دی۔انہیں یہ گمان تھا کہ تقسیم کے بعد فسادات اور خون خرابہ با لکل بعید نہیں ہے۔ لہذا اس مشورہ میں انہیں ایک امید کی کرن دکھی ۔ مولانا لکھتے ہیں کہ اگر آرمی مشترکہ رہتی تو تقسیم کے نتیجہ میں جو خون کی ندیا ں بہی اس سے ضرور بچا جا سکتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے بھی اس تجویز کی حمایت کی تھی (انڈیا ونس فریڈم)۔خیر ایسا ممکن نہ ہو پایا۔سبھی لیڈران نے اس تجویز کو ایک جھٹکے میں ٹھکرا دیا۔آخر آخر تک مولاناکی کوشش یہی رہی کہ یہ سانحہ کسی نہ کسی طرح ٹل جائے۔مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

ہندو مسلم اتحاد کے چیمپینس کی ایک لمبی فہرست ہے۔مگر میری نظر میں مولانا کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ آزاد کا کمٹ منٹ بے مثال ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کے ambassadors کی فہرست میں تو جناح اور اقبال کا نام بھی آتا ہے۔مگر یہ بات آپ جانتے ہیں ان لوگوں نے کتنی جلدی ہتھیار ڈال دیا تھا۔

(مضمون نگارپنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں مترجم ہیں۔)

یہ مضمون11 نومبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔