ادبستان

این انسگنیفکینٹ مین : یہ فلم منزل نہیں پر راستہ ضرور ہے

یہ فلم جانے انجانے میں امید کی ایک کرن ہے۔ یہ جمہوریت کی منظوری بھی ہے اور اس کے لئے ضروری بھی۔

Photo : Film FB Page

Photo : Film FB Page

 An Insignificant Manنام کی ایک فلم اس مہینے کی 17 تاریخ کو ریلیز ہو رہی ہے۔ جو کہ اصل میں کوئی فلم نہیں ہے بلکہ ایک ڈاکیومینٹری ہے۔آپ میں سے زیادہ تر لوگوں کو پتہ ہوگا کی یہ فلم کس بارے میں ہے۔ پھر بھی میں ایک چھوٹا سا تعارف دے دیتا ہوں۔

یہ دو نوجوان، جن کا نام خوشبو رانکا اور ونے شکل ہے، کا ایک عجیب سا ایکسیڈنٹ ہے۔ ہندوستان کی بدلتی اور امید سے بھری اس سیاست کے ساتھ، جو کہ کسی سنامی کی طرح اٹھی اور پھر کہیں ٹوٹ‌کر کئی چھوٹیچھوٹی لہروں میں بکھر گئی۔

یہ عام آدمی پارٹی کے ایک سال کا سفر ہے، دسمبر 2012 سے دسمبر 2013 تک کا۔ ان دونوں کو حالانکہ ڈائریکٹر کا کریڈٹ دیا گیا ہے پر یہ جھوٹ ہے کیونکہ، اگر ان دونوں نے جو فلم میں دکھایا ہے وہ ڈائریکٹ بھی کیا ہے تو پھر یہ دونوں بھگوان ہیں۔

اصل میں یہ دونوں، بےتاب آنکھوں کے دو ایسے جوڑے ہیں، جو کسی سیپ کی طرح سمندر کی تہہ میں پڑے تھے اور سنامی ان کے اوپر سے گزر گئی۔

لوگ اکثر سنامی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتے ہیں، پر انہوں نے اس کو اندر سے دیکھا ہے۔ یہ اس کے پیٹ میں رہے ہیں، انہوں نے ایک چھوٹی سی ہلچل کو لہر بنتے اور پھر زمانے کی ہوا کو، اس لہر کو، سنامی بناتے دیکھا ہے۔

بس اچھی بات یہ تھی کہ ان دونوں کے ہاتھوں میں کیمرے تھے۔ جس میں ان دونوں نے اس ایک سال کی بیش قیمتی تاریخ کو قید کر لیا۔ان دونوں نے مل‌کر بہت اچھی فلم بنائی ہے۔ یا شاید ٹیکنکلی کہوں تو پچھلے کچھ سالوں کی یہ سب سے اچھی  ڈاکیومینٹری ہے۔

اور جو لوگ ڈاکیومینٹری زیادہ نہیں دیکھتے ان کو بتا دوں، یہ عام فلموں سے زیادہ اچھی ہوتی ہیں۔ پر اس لئے میں یہ مضمون لکھنے کی محنت نہیں کر رہا ہوں۔یہ محنت اس لئے ہے کہ یہ بہت ضروری فلم ہے۔ یہ امید کی اچھال ہے۔ یہ سوچ کی پرواز ہے۔

ویسے میں آپ کو پہلے ہی بتا دوں، میں کبھی ظاہری طور پر عام آدمی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرتا تھا، پر ہاں ان سے ایک امید ضرور تھی۔جو کہ شاید اس وقت ہر پڑھےلکھے ہندوستانی  کو تھی۔ میں نے جب یہ فلم دیکھی تو اس امید کو پھر سے جیا اور اسی لئے آج یہ لکھ رہا ہوں۔

تو سب سے پہلے بات کرتے ہیں اس فلم کے دو ہیرو کی، ایک ہیں اروند کیجریوال اور دوسرے ہیں یوگیندر یادو۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے اتنے الگ ہیں جیسے کہ بھاپ اور برف۔حالانکہ دونوں ہیں تو پانی ہی، وہ پانی جس کے چھڑکاؤ نے کچھ وقت کے لئے ہندوستان کی سیاست کو نئی زندگی دی تھی۔ پر دونوں پانی کی الگ الگ شکل ہیں۔

اروند، جو کہ بھاپ ہیں، ان سے اس ریل کا انجن چلتا ہے۔ وہ توانائی ہیں۔ وہ ترنگ ہیں۔ وہ مستعدی ہیں، وہ تیز ہیں مگر وہ چنچل بھی ہیں اور بےچین بھی۔وہیں یوگیندر ہیں، جو کہ غیر متحرک ہیں، پختہ ہیں، مضبوط ہیں، منطقی ہیں، حقائق سے بھرپور ہیں لیکن ڈھیلے بھی ہیں اور چھپے بھی۔

یہ فلم ان دونوں کے ٹکراؤ کی کہانی نہیں ہے، یہ کہانی ہےکیسے متحرک اور غیر موثر حصوں کو ملاکر ایک خوبصورت مشین بناتے ہیں۔تحرک کے بغیر بھی مشین نہیں ہے اور نہ غیر متحرک کے۔ متحرک زیادہ دکھے‌گا ضرور، جو کہ فلم میں بھی دکھتا ہے، لیکن غیر متحرک کے بغیر وہ بندھے‌گا کس میں؟

یہ ان دونوں کے خوابوں کی کہانی بھی ہے۔ یہ اس دلدل کی کہانی بھی ہے جس میں یہ دونوں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ یہ ان دونوں کے تضاد اورتصادم  کی کہانی بھی ہے اور ان دونوں کے ملنے کا رد عمل کی بھی۔اور ایسا بھی نہیں ہے یہ فلم، ان دونوں کی کمزوری  چھپاتی ہے۔ جس کے پاس منجھی ہوئی آنکھ ہے اس سے کچھ بھی نہیں چھپ پائے‌گا۔ یہ فلم ان کے سچ کے بھی اتنے ہی قریب ہے جتنے آپ کے اور میرے سچ کے۔

یہ دونوں الگ الگ طرح کے ہیرو ہیں۔ دونوں اپنے سچ کو سینے سے لگائے ہوئے، دونوں سر پر کفن باندھے، ایک دیکھےان دیکھے خطرہ سے لڑتے ہوئے۔میں ان دونوں کی تعریف اس لئے کر رہا ہوں کہ اگر میں کوشش بھی کرتا تو ایسے کردار لکھ نہیں پاتا۔ دونوں عجیب سے اوریجنل سپر ہیرو ہیں لیکن پھر بھی کسی عام انسان کی طرح  فنا پذیر بھی۔

آئیے اب بات کرتے ہے، یہ فلم دیکھنا کیوں ضروری ہے؟

آج کل ہندی بھاشی ہندوستان میں عام طور پر چار طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو عام آدمی پارٹی کی اب بھی حمایت کرتے ہیں، دوسرے ہیں جو بی جے پی کے بھکت ہے۔تیسرے میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک تو وہ جو ہمیشہ سے کانگریس کی حمایت کرتے تھے اور دوسرے وہ جو کہ کچھ وقت کے لئے ‘ آپ ‘ کی حمایت کرتے تھے پر اب ان کا طلسم ٹوٹ چکا ہے اور واپس کانگریس کا دامن پکڑ چکے ہیں۔

اور چوتھے ہیں میری طرح، جن کو اب کسی سے امید نہیں ہے۔ حالانکہ امید کی ایک چنگاری ابھی بھی کہیں زندہ ہے پر نہ جانے کب بجھ جائے کچھ پتا نہیں ہے۔یہ فلم ان چاروں طرح کے لوگوں کے لئے ہے۔ میں سمجھاتا ہوں کیسے؟

پہلے لیتے ہیں، عام آدمی پارٹی کے حامیوں کو۔ ان کے لئے یہ فلم دیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ ان کو یاد آئے کہ انہوں نے یہ سفر آخر کیوں شروع کیا تھا۔ کیا ان کی منزل تھی اور کہاں ان کو پہنچنا تھا؟یہ فلم، ان کو یاد دلائے‌گی کہ کہاں سے یہ بھٹک چکے ہیں اور کہاں ابھی بھی یہ راستے پر ہیں۔ کہتے ہیں نہ، چاہے کہیں بھی جا رہے ہو، میپ چیک کرتے رہنا چاہئے۔

تو یہ فلم عام آدمی پارٹی والوں کے لئے ایک طرح کا نقشہ ہے۔ وہ نقشہ جو ہندوستان کو جیت کی طرف لےکر جاتا ہے، کسی پارٹی کو نہیں۔دوسرے ہیں بی جے پی والے، ان کے لئے اس فلم کو دیکھنا ایک الگ وجہ سے ضروری ہے۔ یہ فلم ان کو دکھائے‌گیتبدیلی میں جو طاقت ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں ہے۔

کبھی کبھی جوڑنے سے پہلے چیزوں کو توڑنا پڑتا ہے۔ کرسیوں کو ہلانا پڑتا ہے، تختوں کو الٹنا پڑتا ہے۔ جو سانسوں میں ہندوستان ہے، جو نعروں میں ہندوستان ہے، وہ کسی سرحد کا محتاج نہیں ہے۔ یہ ٹوٹے دلوں میں بھی بستا ہے اور مسلم اصولوں میں بھی۔

تیسرے ہیں، کانگریس والے۔ان کے لئے یہ فلم اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہندوستان میں ہم مانتے ہیں، جب جاگو تبھی سویرا۔ یہ فلم ان کو دکھائے‌گی، ہندوستان دل والوں کا ملک ہے۔ اپنی غلطی مان لو‌گے، تو ہم کسی کو بھی معاف کر دیتے ہیں۔ بس دل صاف ہونا چاہئے۔

اگر اب بھی تم کو خوابوں کا ہندوستان بنانا ہے تو نصیحت لو اقتدار کی لڑائی پارلیامنٹ میں نہیں سڑک پر ہوتی ہے۔ لوگوں کے درمیان ہوتی ہے۔ ہرایک جگہ پہنچنے کا بس ایک ذریعہ ہے، سڑک۔اور چوتھے ہے میرے جیسے، نٹھلّے، بےوقوف، ناامّید، نامراد، کمبخت لوگ۔ یہ فلم ان کے لئے سب سے ضروری ہے۔ یہ ان کو دکھائےگی، جب عام سے دکھنے والے لوگ ایک ساتھ ملتے ہیں، تو مغرور پہاڑوں میں سرنگیں کھد جاتی ہیں، ضدی ندیوں پر باندھ بن جاتے ہیں، اور طوفانی سمندروں پر پل بن جاتے ہیں۔

کیسے جب کندھے سے کندھے ملتے ہیں تو ملک بن جاتا ہے۔ یہ فلم جانے انجانے میں امید کی ایک کرن ہے۔ یہ جمہوریت کی منظوری بھی ہے اور اس کے لئے ضروری بھی۔یہ فلم دیکھئے‌گا ضرور،اس میں سب کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ یہ فلم نہیں ہے،  وقت کے لمحوں میں جما ہوا سفر ہے۔ جس میں گھماؤ بھی ہے، اتارچڑھاؤ بھی۔

یہ فلم منزل نہیں پر راستہ ضرور ہے۔ یہ نہ شروعات ہے نہ انجام ہے پر ایک وقفہ علامت ضرور ہے۔ اور ایسا کہتے ہیں کہ سمجھ دار کو اشارہ کافی : یہ ایک ایسا سفر ہے، جس میں جوتا نہیں، دل گھستا ہے۔

(داراب فاروقی اسکرپٹ نگار ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔)