فکر و نظر

سپریم کورٹ کی تاریخ کا ایک تکلیف دہ لمحہ

  مفادات کے ٹکراؤ کے  قانون کے تحت مناسب یہی تھا کہ چیف جسٹس اس رٹ عرضی کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ان کو اس رٹ کے معاملے میں عدالتی ہی نہیں، انتظامی امور سے بھی خود کو الگ کر لینا چاہیے تھا۔

Photo : Reuters

Photo : Reuters

9 نومبرکوجسٹس چیلامیشور کی بنچ نے ایک بےحد اہم عرضی پر سماعت کی۔ اس عرضی میں بد عنوانی کے ایک ایسے مبینہ معاملے کی آزاد تفتیش کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔جس میں سپریم کورٹ کے ممبر ان کی شمولیت  ہو سکتی ہے۔چوں کہ یہ معاملہ عدلیہ کی ایمانداری اور اس کی ساکھ سے متعلق ہے، اس لئے جسٹس جےچیلامیشور کی بنچ نے مدعا علیہ کو نوٹس بھیجا اورسی بی آئی کو کیس ڈائری سمیت تفتیش سے متعلق تمام اہم دستاویز کو بند لفافے میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی۔بنچ نے ( چیف جسٹس سمیت) کورٹ کے پانچ سینئرججوں کی آئینی بنچ کے سامنے اس معاملے کی آئندہ  سماعت کے لئے 13 نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

یہ تفتیش اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ)آئی ا یم قدّوسی اوراڑیسہکے کچھ دیگر ثالثوں، جن میں ایک نام بسوناتھ اگروال کا ہے، کے خلاف سی بی آئی کے ذریعے کئے گئے ایک ایف آئی آر سے متعلق ہے۔الزام یہ لگایا گیا ہے کہ اگروال نے کانپور کے ایک میڈیکل کالج کے پروپرائٹروں سے سپریم کورٹ سے ان کے حق میں فیصلہ دلوانے کے نام پر کافی پیسہ لیا تھا۔ یہ پیسہ مبینہ طور پر کچھ ججوں کو دیا جانا تھا۔

اس سے جڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ اس وقت جس بنچ کے سامنے تھا، اس کی صدارت چیف جسٹس دیپک مشرا کر رہے تھے۔ سی بی آئی کے ذریعے کئے گئے ایف آئی آر کے ایک متعلقہ آرٹیکل میں کہا گیا ہے :

‘ اطلاعات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پرساد ایجوکیشنل ٹرسٹ نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ عرضی (سول) نمبر797/2017 دائر کی تھی۔ شری بی پی یادو نے اس سازش کو آگے بڑھاتے ہوئے شری آئی ایم قدّوسی اور محترمہ بھاوناپانڈے سے التجا کی، جنہوں نے اپنے روابط کی بدولت سپریم کورٹ میں اس معاملے کو رفع دفع کرانے کی یقین دہانی کی۔ انہوں نے ایک پرائیویٹ شخص بسوناتھ اگروال، باشندہ، ایچ آئی جی136، فیس 1، کانن وہار، چندرشیکھرپور، بھونیشور، اڑیسہ کو سپریم کورٹ میں اس معاملے کا فیصلہ ان کے موافق طریقوں سے کروانے کا ذمہ سونپا۔ شری وشوناتھ کا دعویٰ تھا کہ اس معاملے سےمنسلک اہم عوامی عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے ان کا نزدیکی رشتہ ہے۔ انہوں نے یہ یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ ان کے من-مطابق طریقے سے کروا دیں‌گے۔ لیکن، عوامی خدمتگار کوبدعنوان اور غیر قانونی طریقے سے لالچ دےکر یہ کام کرانے کے بدلے میں انہوں نے کافی پیسے کی مانگ کی۔ ‘

اس عرضی میں سپریم کورٹ سے اس بےحد حساس مسئلے کی جانچ کے لئے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کی مانگ کی گئی تھی۔ اس عرضی میں سی بی آئی تفتیش کی مانگ نہیں کی گئی تھی، کیونکہ موجودہ حالات میں جب سی بی آئی مرکزی حکومت کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے، حکومت اس انفارمیشنکا استعمال اپنے فائدے کے لئے کر سکتی ہے۔

اس سے پہلے بھی ایسے کئی مواقع رہے ہیں، جب عام لوگوں میں اعتماد بحال کرنے کے لئے حساس مسائل کی سماعت پانچ سب سے زیادہ سینئرججوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ ایسے دو معاملات میں سے ایکاندرا گاندھی کے انتخابی اپیل کا تھا اور دوسراایمرجنسی کے دوران ہیبئس کورپس کامقدمہ تھا، جس میں جسٹس ایچ آر کھنّہ مخالفت کرنے والے واحد جج تھے، جس کے سبب چیف جسٹس کی کرسی ان سے چھن گئی تھی۔

ہندوستان کے سابق اٹارنی جنرل سی کے دفتری کی صلاح پر تب کے چیف جسٹس اےاین رائے ہیبیس کورپس کے معاملے کو چیف جسٹس کے ذریعے منتخب کر لئے گئے کسی بھی پانچ ججوں کی بنچ کے حوالے کرنے کی جگہ پانچ اعلیٰ ترین ججوں کی بنچ کو سونپنے کو تیار ہوئے تھے۔جمعہ، 10 نومبر کو، چیف جسٹس دیپک مشرا نے ایک سات ججوں کی بنچ (جو کہ سماعت شروع ہونے سے پہلے 5 رکنی بنچ میں بدل دی گئی تھی)تشکیل دی، جس کی صدارت انہوں نے خود کی۔

اس بنچ نے جسٹس چیلامیشور کے ذریعے دئے گئے بہت مناسب آرڈرکو اس بنیاد پر ردکر دیا کہ بنچ کی تشکیل کرنے کا حق صرف اور صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دیا گیا ہے۔یہاں یہ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ چیف جسٹس کے علاوہ پانچ سینئر ججوں میں سے کسی کو بھی جلدبازی میں تشکیل دی گئی اس آئینی بنچ کا حصہ بننے کے لئے نہیں منتخب کیا۔ جو بات سب سے زیادہ دھیان کھینچتی ہے وہ یہ کہ چیف جسٹس کو اپنے بعدکے چارسینئر ججوں میں سے کسی پر شاید اعتماد نہیں ہے۔

آرٹیکل 142 کے تحت سپریم کورٹ کے ایک جج کے اختیارات

چیف جسٹس یہ بھول رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کو بےحد مخصوص اختیارات دیے گئے ہیں۔ کسی بھی کورٹ کو، یہاں تک کہ ہائی کورٹ کو بھی یہ حق نہیں دیا گیا ہے۔یہ آرٹیکل سپریم کورٹ کے ججوں کو کسی بھی قانون کے کسی بھی جواز کو درکنار کرنے کا حق دیتا ہے، اگر اس کو لگتا ہے کہ اس کے سامنے آئے مقدمہ میں مکمّل انصاف کرنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کے دو تاریخی فیصلے اس خاص حق کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ ایک فیصلہ اے آر انتولے سے منسلک ایک معاملے میں سات ججوں کی بنچ والا ہے اور دوسرایونین کاربائیڈ میں 5 ججوں کی بنچ والا ہے۔یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 142 کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی معاملے میں حقیقی انصاف کرنے کے لئے کوئی بھی قانون، جن میں پارلیامنٹ کے ذریعے بنائے گئے قانون بھی شامل ہیں، کو درکنار کیا جا سکتا ہے۔ اس  پر صرف ایک بندش تھی، اور وہ یہ کہ آئین کے اہتمام کی ان دیکھی نہیں کی جا سکتی۔

دوسری بات،آئین میں ایسا کہیں نہیں لکھا گیا ہے کہ صرف چیف جسٹس ہی بنچ کی تشکیل کر سکتا ہے۔ حد سے حد اس حق کو ایک اصول یا روایت میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، آرٹیکل 142 کے مدنظر سپریم کورٹ ان دونوں سے بھی بندھی ہوئی نہیں ہے۔اس لئے جسٹس چیلامیشور کی بنچ کے حکم کو رد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اصل میں، 10 نومبر کا حکم پوری طرح سے انصاف کے اختیارات سے پرے اور ناقابل قبول ہے۔ یہ روپا ہرّا معاملے میں آئینی بنچ کے فیصلے سے واضح ہوتا ہے، جس میں یہ صاف طور پر کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی کسی بنچ کے کسی بھی فیصلے کو سپریم کورٹ کے کسی دیگر بنچ کے ذریعے خارج نہیں کیا جا سکتا، بھلےہی ایسا کسی بڑی بنچ کے ذریعے ہی کیوں نہ کیا جائے۔

کسی فیصلے کو اسی بنچ کے ذریعے از سر نوغور و فکرکرکے یا ایک نامکمل عرضی (کیوریٹو پٹیشن) کے ذریعے، جس پر سماعت تین اعلیٰ ترین ججوں کے ساتھ انہی ججوں کے ذریعے کی جا سکتی ہے، ہی خارج کیا جا سکتا ہے۔چونکہ آرٹیکل 144 یہ آسانی فراہم کرتا ہے کہ سول اور عدالتی اتھارٹیوں کو کورٹ کے معاون کے طور پر کام کرنا ہوگا،اس کا معنی یہ ہے کہ دوسری بنچ کو بھی کسی بنچ کے فیصلوں کو نافذ کرنا ہے۔اس لئے 10 نومبر کو چیف جسٹس کی صدارت والی بنچ بھی چیلامیشور بنچ کے فیصلے کے خلاف برتاو نہیں کر سکتی تھی۔چونکہ، یہ ضرورت آئین کے اہتمام کے تحت لگائی گئی ہے، اس لئے آرٹیکل 142 کا استعمال اس کو غیرموثر بنانے کا اوزار کے طور پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس لئے چیف جسٹس کی بنچ کے ذریعے دیا گیا حکم پوری طرح سے اس کے حقوق کے  پرے اور ناقابل قبول ہے۔

مفادات کا ٹکراؤ

یہاں اس جانب بھی دھیان دلانا ضروری ہے چیف جسٹس مفادات کا ٹکراؤ ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے ہیں، کیونکہ تفتیش میں ان کے ملوث ہونےکی طرف بھی انگلی اٹھ سکتی ہے۔ایف آئی آر میں بیان شدہ حقائق میں، حالانکہ چیف جسٹس دیپک مشرا کے نام کا واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ ضرور دھیان میں رکھا جانا چاہیے کہ جب یہ سازش رچی جا رہی تھی، تب معاملہ ان کی بنچ کے سامنے زیر سماعت تھا۔

ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھا جانا چاہیے کہ ثالث بسوناتھ اگروال اڑیسہ سے ہے اور معاون ملزم آئی ایم قدّوسی بھی اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق جج تھے، اور دیپک مشرا کی آبائی ریاست بھی اڑیسہ ہے۔یہ شک کی سوئی کو موجودہ چیف جسٹس کی طرف گھمانے کا کام کرتا ہے۔ ان حالات میں مفادات کے ٹکراؤ کا قانون کے تحت مناسب یہی تھا کہ چیف جسٹس اس رٹ عرضی کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ان کو اس رٹ کے معاملے میں عدالتی ہی نہیں، انتظامی امور سے بھی خود کو الگ کر لینا چاہیے تھا۔

ہمیں یہ ضروردھیان رکھنا چاہیےکہ پینوشیٹ معاملے میں ہاؤس آف لارڈس کو بھی اپنا ایک فیصلہ واپس لینا پڑا تھا، کیونکہ ایک لارڈ کی بیوی کا اس مقدمہ کے ایک فریق سے کوئی دور کا رشتہ تھا۔اب آگے کا راستہ کیا ہے؟ اگر ہندوستان کی سپریم کورٹ کو بچانا ہے، تو میری رائےمیں ایک سبھی ججوں والی بنچ کو صورتحال کا اندازہ کرنا چاہیے اور اس معاملے میں قانونی طرف داری پر تعصب سے آزاد ہوکر عقلمندی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہوگا۔

(شانتی بھوشن سپریم کورٹ کے سینئروکیل ہیں اور 79-1977کے دوران وزیر قانون رہ چکے ہیں۔)