خبریں

بابری مسجد معاملہ: وسیم رضوی خیمہ کو دھچکا، شیعہ پرسنل لابورڈ مسلم پرسنل بورڈ کے ساتھ

شیعہ پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا ظہیر عباس رضوی نے ممبئی سے یو این آئی کو بتایا کہ بابری مسجد مسئلے پر خودسپردگی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Photo : PTI

Photo : PTI

لکھنؤ: اجودھیا میں بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوششوں کے درمیان آج تازہ ترین پیش رفت میں ہندووں کے روحانی گروشری شری روی شنکر اور وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ نے ملاقات کی ، دوسری طرف اجودھیا میں رام مندر تعمیر کرانے کی شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی کی کوششوں کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ نے واضح طور پر کہا کہ وہ اجودھیا تنازع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہے۔آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے فیصلے کے بعد شیعہ وقف بورڈ کی پوزیشن خراب ہوگئی ہے اور اسے اس کے لئے بڑا دھچکا سمجھا جارہا ہے ۔ خیال رہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرے گا اور عدالت سے باہر کسی بھی طرح کے افہام و تفہیم کے حق میں نہیں ہے۔آ ل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا یعسوب عباس نے واضح طور پر کہا کہ اجودھیا مسئلے پر وہ اور ان کا فرقہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہے۔ مولانا عباس نے کہا کہ انہیں کوئی ایسا فارمولہ منظور نہیں ہے جس سے یہ پیغام جائے کہ مسلمانوں نے اس معاملے پر خودسپردگی کردی ہے ۔ وہ اور ان کی تنظیم صرف سپریم کورٹ کے حکم کو تسلیم کریں گے۔

شیعہ پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا ظہیر عباس رضوی نے ممبئی سے یو این آئی کو بتایا کہ بابری مسجد مسئلے پر خودسپردگی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جس فارمولے پر معاہدہ کی بات چیت چل رہی ہے اس سے صاف ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان خودسپردگی کردیں۔ مولانا عباس رضوی جوآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن بھی ہیں نے کہا کہ کچھ لوگ قوم کے نام پر سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔دوسری طرف شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی بات چیت کے ذریعہ اجودھیا مسئلے کو حل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ادھر چند دنوں سے انہوں نے اپنی کوششیں کافی تیز کردی ہیں۔اسی سلسلے میں انہوں نے گذشتہ آٹھ اگست کو سپریم کورٹ میں تقریباً تیس صفحات پر مشتمل ایک حلف نامہ دائر کیا تھا ۔ اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں وہ ایک مسودہ بھی تیار کررہے ہیں جسے سپریم کورٹ میں پانچ دسمبر سے پہلے دائر کرنا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ پانچ دسمبرسے ہی سپریم کورٹ میں بابری مسجد مقدمے کی روزانہ سماعت شروع ہوگی ۔مسٹر رضوی نے دو دن پہلے اجودھیا جاکر رام جنم بھومی ٹرسٹ کے چیئرمین نرتیہ گوپال داس، ٹرسٹ کے رکن سریش داس، آل انڈیا اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت نریندر گری اور کچھ دیگر سنتوں سے ملاقات کی تھی۔

مسٹر رضوی نے کہا کہ ہندوستان کا مسلمان امن چاہتا ہے اور امن برقرار رکھنے کے لئے اجودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ضروری ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ رام للا کے مقام پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ہو اور مسجد اجودھیا سے باہر کسی مسلم اکثریتی علاقے میں بنے۔ مسجد کا نام بابر کے نام پر نہیں رکھا جائے۔مسٹر رضوی کے مطابق سادھو سنتوں نے ان کے مسودے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد وہ الہ آباد گئے اور وہاں مسٹر گری سے ان کی اکیلے میں طویل بات چیت ہوئی۔شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی نے کہاکہ کچھ لوگ اس مسئلے کی وجہ سے اپنی روزی روٹی کمارہے ہیں۔ سیاست میں روٹیاں سینک رہے ہیں ۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ مسئلہ حل ہو۔ ایسے لوگوں کو نہ تو ملک کے امن سے مطلب ہے اور نہ ہی قوم کی ترقی سے۔وہ ملک کے مفاد میں ایسے لوگوں کی پرواہ کئے بغیربات چیت سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑیں گے۔خیال رہے کہ ایک حلقہ وسیم رضوی کی ان کوششوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اس حلقے کا الزام ہے کہ چونکہ وسیم رضوی پر بدعنوانی کے کئی الزامات ہیں اس لئے وہ قانونی گرفت سے بچنے کے لئے یوگی حکومت کو خوش کرنے کے لئے یہ ساری تگ و دو کررہے ہیں۔

دریں اثنا شری شری روی شنکر اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان تقریباً چالیس منٹ تک ہونے والی بات چیت کے میں مندر کی تعمیر کے سلسلے میں غور و خوض کیا گیا۔سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا تھا کہ مندر مسجد تنازعہ کا تصفیہ عدالت سے باہر صلح سمجھوتے سے ہو جائے تو بہتر رہے گا اورعدالت بھی اس میں مدد کیلئے تیار رہے گا۔شر ی شری روی شنکر اس مسئلے پر ثالثی کا رول ادا کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔باوثوق ذرائع کے مطابق مسٹر یوگی نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر شری شری روی شنکر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ رام مندر جلد تعمیر ہوجائے۔ بات چیت سے اس کا حل نکل آئے تو اور بھی بہتر رہے گا۔انہوں نے کہا کہ اس وابستہ تمام تنظیموں سے بات چیت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ خواہ یہ تنظیمیں بات چیت سے حل کے حق میں ہوں یا نہ ہوں۔ ان کا کہناتھا کہ اجودھیا تنازع میں حکومت فریق نہیں ہے۔ لیکن مل بیٹھ کر معاملہ حل ہوجائے تو حکومت ہر ممکن مدد کرے گی۔دوسری طرف مسجد مندر تنازع سے وابستہ دو اہم تنظیموں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور وشو ہندو پریشد نے واضح طورپر کہا کہ اس تنازع کا حل اب بات چیت سے ممکن ہی نہیں ہے۔