ادبستان

پنچ لیٹ میں پھر سے زندہ ہو گئے ہیں راج کپور

دھرکھیل، صلم، سلیما جیسے لفظ پتا نہیں ناظر ین کی گرفت میں آ پائیں‌گے یا نہیں لیکن وہ کہانی ہی کیا جس میں زبان سے لےکر پہناوےاوڑھاوے تک میں مقامیت اوراس کی  صداقت موجود نہ ہو۔

Photo Credit : amitosh nagpal (@amitoshnagpal)

Photo Credit : amitosh nagpal  | @amitoshnagpal

آپ بھول جائیے کہ گاؤں کے مہتو ٹولے کی بھری پوری معصومیت کی واحدعلامت تھی پنچ لیٹ۔آزادی کے فوراً بعد جب پھنیشور ناتھ رینو نے یہ کہانی لکھنی شروع کی ہوگی، تو وہ دراصل گودھن اور منری کی داستان محبت لکھنا چاہ رہے ہوں‌گے، لیکن پنچ لیٹ کی روشنی کے ساتھ ان کو راحت مل گئی ہوگی۔ ان کو اپنے قارئین کے دل کی پرواہ نہیں رہی ہوگی۔ سنہ 54 میں تخلیق کی گئی اس زندہ جاوید کہانی کے باذوق قاری آج تک گودھن اور منری کی محبت کی جس کہانی کی اتھاہ وسعت میں جانا چاہ رہے ہوں‌گے، وہ ایک  فلم بنانے جا رہے ہیں۔ کل یعنی 17 نومبر کو ریلیز ہو رہی فلم پنچ لیٹ دراصل گودھن اور منری کی ہی محبت کی کہانی ہے۔

میں نے یہ فلم دیکھ لی اور اس کو دیکھتے وقت مجھے عامر خان کی لگان یاد آ رہی تھی۔ لگان معاف کروانے کے لئے پورا گاؤں متحد ہوکر کرکٹ جیسے ان کھیلے کھیل میں جیت حاصل کرتا ہے۔ پنچ لیٹ میں ٹولے کی عزت بچانے کے لئے یعنی میلہ سے لائے گئے پنچ لیٹ کو جلانے کے لئے محبت کو بھی جگہ دی جاتی ہے اور برادری سے باہر کئے گئے گودھن کو بھی قبول‌کر لیا جاتا ہے۔ اتفاق سے دونوں فلمیں تاریخی دور کی داستانیں ہیں، لیکن جہاں لگان کے تمام کردار خیالی تھے، پنچ لیٹ کا گودھن کہتا ہے کہ اس فلم کے تمام کردار خیالی نہیں ہیں۔ کیونکہ رینو کا کردار اپنی پیدائش کے ساتھ ہی سچّے ہو جاتے رہے ہیں۔ پنچ لیٹ اچھی اور صاف ستھری فلم ہے، جس کو سینسر بورڈ نے یو سرٹیفکٹ دیا ہے۔ ابھی کے  وقت میں یہ جشن منانے والی بات ہے۔

پنچ لیٹ راج کپور اور رینو کو معنون ہے۔ ظاہر ہے، فلم تیسری قسم کا عکس اس فلم میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ آوارہ کی بےمثال دھن بھی ری کال ویلیو کے ساتھ بار بار استعمال کی گئی ہیں۔ رینو نے اپنی کہانی پنچ لیٹ میں بھی آوارہ کے ایک گانے کے ایک حصے کا ذکر کیا ہے، ہم تم سے محبت کرکے “صلم ” روتے بھی رہے ہنستے بھی رہے۔ اس گانے میں گہرائی  تک پسری ہوئی ٹیس اور احساس کے درمیان ہچکولے کھاتی ہوئی پنچ لیٹ بہت خوش گوار احساس دیتی ہے۔ گودھن کے کردار میں ہندوستانی ڈرامہ کے اسٹار رائٹر اور اداکار امیتوش ناگپال کو دیکھ‌کر راج کپور کی یاد آتی ہے۔ ان کے پہناوے میں اور ان کی حرکتوں میں ہرجگہ راج کپور موجود ہیں۔ لیکن چہرے پر معصومیت کے معاملے میں منری بنی انورادھا مکھرجی ان سے ایک قدم آگے پھدکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ گودھن کے دوست کے کردار میں پنیت تیواری اور پنچوں کے کردار میں یشپال شرما، پرنے نارائن اور برجیندر کالا نے بھی الگ ہی سماں باندھا ہے۔

پنچ لیٹ کے ہدایت کار ہیں، پریم پرکاش مودی۔ وہ کولکاتہ کے سینئر آرٹسٹ ہیں اور فلم کے زیادہ تر اداکار اسٹیج کی دنیاسے آتے ہیں۔ لہذا فلم کی پوری بناوٹ میں تھیٹر آرٹ الگ سے نظر آتا ہے۔ پنچ لیٹ کو چھوتے وقت چونکتی ہوئی آوازوں کے کورس میں اور مکالموں کے رینو مارکہ طلسم سے کامیابی سے جوجھتے ہوئے کرداروں میں اس فنکارانہ منظر  کو آپ تیزی سے پہچان سکتے ہیں۔ رینو کے لفظ دیہات کی خوشبو سے لبریز  ہیں اور ان کی آنچلکتا میں قومی دھمک رہی ہے۔ فلم پنچ لیٹ کی زبان میں ہم اس خوشبو کو محسوس‌کرسکتے ہیں۔ دھرکھیل، صلم، سلیما جیسے لفظ پتا نہیں ناظر ین کی گرفت میں آ پائیں‌گے یا نہیں لیکن وہ کہانی ہی کیا جس میں زبان سے لےکر پہناوےاوڑھاوے تک میں مقامیت اوراس کی  صداقت موجود نہ ہو۔

مجھے موسیقی بھی پیاری لگی۔موسیقار کلیان سین براٹ نے بالی ووڈ کے گولڈین میوزیکل ایرا میں اترنے کی پوری کوشش کی ہے۔ سنیماٹوگرافر جائیسوپرتم نے ہر فریم کو ایک پینٹنگ کی طرح سے قید کیاہے اور راکیش کمار ترپاٹھی کے اسکرپٹ نے رینو کی روح کو بخوبی سمجھا ہے۔ پوری ٹیم کو میری طرف سے مبارکباد اور پریم پرکاش مودی سے یہ امید کہ وہ آگے بھی سنیما میں ادب کی باگ ڈور تھامے رہیں‌گے۔