فکر و نظر

پیو سروے : ہم نہیں ہمارے ہندوستان کے یہ 2462بکلول لوگ

اب ایک بات سنجیدگی سے۔ سروے کو خارج مت کیجئے۔ مگر ا س کے سوالوں کے پیٹرن پر غور کیجئے۔پیو ریسرچ کے سوالات حکومت کرنے کے لئے پارلیامنٹ، عدالت اور منتخب نمائندوں کی حیثیت کو کم کرتے ہیں۔

Photo : Screenshot Pew Website

Photo : Screenshot Pew Website

2462لوگ وہ لوگ ہیں جو پی یو ریسرچ (Pew  Research) میں شامل ہوئے ہیں۔ یہی ہندوستان ہیں۔ ہندوستان کی روح گاؤں میں نہیں، سروے کے سیمپل میں رہتی ہے۔ سروے بھونتو سکھن :، سروے بھونتو مودی میا۔ مقبولیت بھی ایک قسم کا بخار ہے۔ کئی لوگ تھرمامیٹر لئے دن رات ناپتے رہتے ہیں۔ جس کو دیکھو تھرمامیٹر لئے گھوم رہا ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں کئی  مضامین چھپے کہ مودی کی مقبولیت گھٹی ہے۔ نومبر میں مضامین چھپ رہے ہیں کہ مودی کی مقبولیت بڑھی ہے۔ گھٹی تو بس نوکری اور کمائی ہے۔ کسانوں کے پاس دام ہیں نہ دوائی ہے۔ پھر بھی مودی مقبول عام ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سروے نے جو بتایا اس کے پہلے ہم ہندوستان کے مختارکل جانتے ہیں۔ مگر یہ 2،464 لوگ کون ہیں جو ہم ہندوستان کے لوگ ہیں۔ سروے ہی مختار کل ہے اور مختارکل ہی ملک کی خدمت ہے۔

2،464 لوگوں کی رائے ہے کہ مودی جی 10 ہندوستانی میں سے 9 میں مقبول  ہیں۔ ہمارے ایک صحافی دوست ظفر نے فیس بک پر لکھا کہ وہ دسواں کون ہے؟ کیا وہ غدار وطن ہے؟ کیوں نہ ہم سب اس دسویں کو ملکی مفاد کے لئے سمجھائیں کہ بھائی تم بھی 9 کے ساتھ مل لو۔ اکیلے رہ‌کر کچھ تو ہوگا نہیں تم سے۔ اس 9 میں تو مخالف جماعت کے رہنما بھی آ گئے ہیں، ہمارا یقین کرو، ساری پارٹی کے سپورٹر بھی آ گئے ہیں۔ پتا نہیں تم کس بات سے غصہ کھا گئے مودی جی سے، ورنہ آج 10 میں 10 کا اسکور ہوتا۔ ابھی میری بات مان لو ورنہ من کی بات میں مودی جی تم دسویں کی بات کرنے لگیں‌گے۔ کہنے لگیں‌گے کہ بھائیو، یہ دسواں کب مانے‌گا۔ اس کو کیا پرابلم ہے۔ اس کے لئے میں دین دیال دسواں حصہ اسکیم بھی چلا دیتا ہوں۔ امت شاہ تو مشن نہ لانچ کر دیں۔ مشن ٹینتھ۔ جب تک ٹینتھ ہمارے سپورٹ میں نہیں آئے‌گا تب تک ہمیں اور مودی جی کو ٹینشن رہے‌گا۔

2،646 کا سیمپل ہو یا 20،000 کاسیمپل ہو، جھلک اور جھانکی تو ملتی ہے۔ سروے غلط بھی ہوتے ہیں،صحیح بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے اس پر بحث نہیں۔ مودی جی مقبول عام رہنما ہیں اس کو کسی سروے سے جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے، اگر ہے تو برا بھی نہیں ہے۔ مگر مسئلہ کہیں اور ہے۔ پی یو ریسرچ نے 40 سے زیادہ سوالوں پر جواب مانگے ہیں۔ ان جوابات سے ان 2464 لوگوں کی جو تصویر ابھرتی ہے، اس پر بات ہونی چاہئے۔ یہ لوگ مودی جی‌کے مسئلے کو چھوڑ‌کر باقی کئی چیزوں پر کنفیوژ لگتے ہیں۔ مطلب  یہ کہتے ہیں کہ قانون بنے تو اس میں چنے ہوئے نمائندہ ووٹ نہ کریں۔ ہم شہری سیدھے ووٹ کر دیں۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت میں یقین بھی رکھتے ہیں۔ بھائی، جب قانون بھی تم ہی کو ٹریفک جام میں ٹوئٹ کر بنانا ہے تو یہ ایم پی، ایم ایل اے کیوں چننے جاتے ہوں۔ ناخن پر سیاہی کے نشان کے ساتھ سیلفی لینے؟

آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہوائی جہاز سے لےکر ریل گاڑی تک ایکسپرٹ ہی چلا رہے ہیں۔ کیا آپ نے دیکھا ہے کہ رکن پارلیمنٹ ایئر انڈیا کا ہوائی جہاز اڑا رہا ہے؟ چیف انجینئر کا کام انجینئر ہی تو کر رہا تھا، فوج کا صدر اس میں زندگی گزارنے والا ایکسپرٹ ہی تو بنتا ہے، پھر یہ کون سے ایکسپرٹ بچ گئے ہیں تو ڈیموکریسی میں چنے ہوئے نمائندے سے ضروری ہو گئے ہیں؟ ہم ہندوستان کے باقی سوا ارب لوگوں اپنے ان 2،464 لوگوں کو سمجھاؤ ورنہ یہ پورے انڈیا کو بورا دیں‌گے۔ یہ تو تب ہے جب یہ ڈھائی ہزار بھی پورے نہیں ہیں۔

ان میں سے 55 فیصدی یعنی اکثریت مانتی ہے کہ ہندوستان میں فیصلہ لینے کے لئے مضبوط رہنما ہو، جو پالیامنٹ اور کورٹ کی دخل اندازی کے بغیر فیصلہ لے۔ پارلیامنٹ اور کورٹ کی بات جو نہیں مانے‌گا، آج کے فیشن کے حساب سے ان کو تو غدار وطن کہا جانا چاہئے مگر لوگ ایسے چرکٹوں کی رائے کا جشن منا رہے ہیں۔ اتنے انتخابات میں جیت دےکر لوگوں نے مودی جی کی مقبولیت ثابت کرنے میں کوئی کمی چھوڑی ہے کیا، جو ایسے لوگوں کی رائے  پر خبریں بن رہی ہیں۔

بی جے پی کے رہنما اور حامی کیسے لوگوں کی رائے کا جشن منا رہے ہیں۔ میری رائے میں ان کو بھی ان 2464 لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ بھائی، پارلیامنٹ ،کورٹ کو بائی پاس کرنا  مودی جی‌کے مفاد میں ہی نہیں ہے۔ یہ سب پہلے ہو چکا ہوتا تو آج مودی جی وزیر اعظم ہی نہیں بن پاتے۔ ویسے بھی پارلیامنٹ کا سیشن ہم انتخاب کے حساب سے مینیج کر لیتے ہیں تو اس کو بائی پاس کرنے کی بات کیوں کرتے ہو۔ پارلیامنٹ ہونی چاہئے۔ غنیمت ہے کہ ان 10ہندوستانیوں نے یہ نہیں کہا کہ کورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف مضبوط رہنما کے لئے بائی پاس کرنے کی بات کہی۔ مگر یہ 2464 قانون بنانے کا سیدھا حق اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں،پارلیامنٹ کے ممبروں کو نہیں دینا چاہتے۔ پی یو کو بتانا چاہئے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو چنا ہے جن کو نہ جمہوریت کی سمجھ ہے اور نہ فوجی حکومت کا پتا ہے۔ ان کو لے جاکر کسی ملیٹری گراؤنڈ میں دس راؤنڈ لگوانا چاہئے تب پتا چلے‌گا کہ فوجی حکومت کیسی ہوتی ہے۔ یہی نہیں دونوں ہاتھ اوپر کر بندوق لےکر دوڑنے سے ایک ہی راؤنڈ میں پتا چل جائے‌گا۔

نہیں جاننے کی وجہ سے ہی ان 2464 میں سے 53 فیصدی کہتے ہیں کہ ہندوستان میں فوج کی حکومت ہونی چاہئے۔ اس حساب تو آج وزیر اعظم کی کرسی پر جنرل وی کے سنگھ ہوتے، نریندر مودی نہیں ہوتے۔ جب 10میں سے آٹھ ہندوستانی اس بات سے خوش ہیں کہ جس طرح سے جمہوریت چل رہی ہے وہ ٹھیک ہے تو اسی 10 میں سے یہ 5 سے زیادہ ہندوستانی کون ہیں جو فوج کی حکومت بہتر مانتے ہیں۔ یہ جو 10 ہندوستانی ہیں وہ کمال کے ہیں۔ خدا بچائے ان 10 ہندوستانی سے۔

یہ سیریس ہے کہ ان کے اندر فوجی حکومت کی خفیہ خواہش خفیہ بیماری کی طرح بج بجا رہی ہے۔ ان سے بات کرنا ہی ہوگا۔ ان چرکٹوں کو سمجھانا ہوگا کہ جمہوریت نہیں ہوتی تو ان کے مقبول عام مودی جی ان کو نہیں ملتے۔ فوجی حکومت ہوگی تو کسی رات پولس کے لوگ آئیں‌گے اور اٹھاکر جیل میں دس سال تک بند کر دیں‌گے۔ مار دیں‌گے۔ جس کا نہ ثبوت ہوگا، نہ گواہی نہ انصاف۔ کیا وہ ایسا سسٹم چاہتے ہیں؟ فوجی حکومت کے بعد اگر یہ سوال پوچھا گیا ہوتا تو ان 2،464 کی حالت خراب ہو جاتی۔ کیا پروبلم ہے ان کی لائف میں؟ بابا رامدیو اور شری شری روی شنکر کا ان کو کورس کرانا چاہئے۔

ان 2،464 لوگوں کی بدولت ہندوستان اس سروے میں دنیا کے چار ملکوں میں آ سکا ہے جس کے پچاس فیصدی سے زیادہ لوگ مانتے ہیں کہ فوجی حکومت ہونی چاہئے۔ یہ سیمپل بتاتا ہے کہ بھلے ہی پورا ہندوستان جمہوریت کو لےکر کنفیوژنہ ہو مگر یہ 2464پکا بکلول ہیں۔ ان کو جمہوریت کا مطلب معلوم نہیں ہے۔ کورٹ کا کام معلوم نہیں ہے۔ پارلیامنٹ کی ضرورت کا پتا نہیں ہے۔ ایک رہنما کو جانتے ہیں جن میں ان کا خوب اعتماد ہے۔ اس اعتماد کا عالم یہ ہے کہ ان میں سے آدھے کا فوجی حکومت میں بھی اعتماد ہے۔

اب ایک بات سنجیدگی سے۔ سروے کو خارج مت کیجئے۔ مگر ا س کے سوالوں کے پیٹرن پر غور کیجئے۔ پی یو ریسرچ کے سوالات حکومت کرنے کے لئے پارلیامنٹ، عدالت اور منتخب نمائندوں کی حیثیت کو کم کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں اقتصادی گڑھا چوڑی ہوتی جا رہی ہے۔ ایک فیصد لوگوں کے پاس ساری دنیا کی دولت ہے۔ یہی تناسب امریکہ میں بھی ہے اور ہندوستان میں بھی۔ رہنماؤں کو خطرہ ہے کہ کہیں 90 فیصدی محروم عوام ان پر حملہ نہ کر دے۔ ان کو اقتدار سے بےدخل نہ کر دے۔ اس لئے ایسے سوال پوچھے جاتے ہیں جس سے لگے کہ دنیا میں جمہوری‎ ادارے فیل ہو گئے ہیں اور اب فوجی حکومت ضروری ہے۔ فوجی حکومت اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذریعے آپ کسی بھی عوامی بغاوت کو بہتر طریقے سے کچلتے ہیں،دباتے ہیں۔ ان سوالات اور جوابات کے ذریعے آپ میڈیا اور لوگوں میں ایک مصنوعی توقع بھرتے ہیں کہ فوجی حکومت سے ہی سب ہوگا۔ فوجی حکومت کا تصور عام شہریوں کے حقوق کے قتل کا تصور ہے۔ کیا یہ لوگ عام لوگوں کو مروانا چاہتے ہیں۔

مضبوط رہنما ایک فرضی کہانی ہے۔ مضبوط رہنما کے نام پر اس رہنما کے اندر اتنی عدم تحفظ بھری ہوتی ہے دن بھر جذباتی موضوع کی تلاش میں رہتاہے۔ جذباتیت میں ہی دس بیس سال ملک کے نکال دیتا ہے اور ایک دن بھربھراکر گر پڑتا ہے۔ آپ گاندھی، امبیڈکر، لنکن، منڈیلا کو کیا مضبوط رہنما نہیں مانیں‌گے جنہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگی بدل دی۔ ایک ملک کی پہچان بدل دی۔ لوگوں کو آواز دےکر جان بھر دی۔ جہاں جہاں اجارہ دار ی  والے مضبوط رہنما ہوئے ہیں وہاں وہاں عام لوگوں کا حق چھن گیا ہے۔ چاہے وہ کمیونسٹ روس ہو یا پتن کا روس ہو۔ آپ چین سے لےکر امریکہ تک کئی مثالوں سے اس کو دیکھ سکتے ہیں۔

مگر ہم سب ایک دن ہندوستان کی جمہوریت کو فیل کر دیں‌گے اگر ہم ان 2،464 لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے لیں‌گے۔ ایک ہی بات ٹھیک ہے ان کی، کہ نریندر مودی مقبول عام رہنما ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ جمہوریت ٹھیک چل رہی ہے۔ اس پر عدم اتفاق کا اظہا رکیا جا سکتا ہے مگر یہ خطرناک خیال نہیں ہیں۔ خطرناک اور بیکار خیال ہیں جمہوریت پر فوجی حکومت کا خیال۔ اس لئے ہے ہندوستان کے لوگ ان 2464 کی رائے سے دور بھاگو۔