حقوق انسانی

جھارکھنڈ میں کھانے کے حقوق کی پامالی ،کون ہے ذمہ دار؟

 انتظامیہ کو بیدھناتھ روی داس کی فیملی کو ان کی موت کے بعد راشن کارڈ جاری کرنے میں ایک ہفتہ بھی نہیں لگا، جبکہ فیملی کے ذریعے پچھلے کچھ مہینوں میں کارڈ کے لئے کئی بار درخواست دی گئی تھی۔

Photo: ANI

Photo: ANI

جھارکھنڈ کے سمڈیگا ضلعے کی سنتوشی کماری، دھنباد کے بیدھناتھ روی داس اور دیوگھر کے روپ لال مرانڈی کی مبینہ طور پر بھوک سے ہوئی موت نے حکومت کی پی ڈی ایس کو آدھار سے جوڑنے کی پالیسی اور قومی اشیائےخوردنی حفاظت قانون کے نفاذ میں سنگین غلطیوں کی وجہ سے لوگوں کے جینے کے حقوق کی پامالی کواجاگر کیا ہے۔سنتوشی کماری کی فیملی کو راشن نہیں مل رہا تھا کیونکہ آدھار سے لنک نہیں ہونے کی وجہ سے ان کے کارڈ کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ کئی بار درخواست دینے کے باوجود بھی بیدھناتھ روی داس کی فیملی کا راشن کارڈ نہیں بنا تھا۔ پی ڈی ایس  میں آدھار مبنی تصدیق کاری کے بایومیٹرک مشین میں انگوٹھے کا نشان نہیں ملنے کی وجہ سے روپ لال مرانڈی کو بھی راشن ملنا بند ہو گیا تھا۔

یہ معاملے حکومت کی جوابدہی کی کمی کی انتہا ہیں، لیکن ریاست میں اشیائےخوردنی تحفظ قانون کے تحت راشن ملنے کے حقوق کی پامالی روزانہ کی ایک حقیقت ہے۔ ریاست میں قانون نافذ ہوئے دو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں، لیکن ابھی بھی کئی مستحق خاندانوں کو راشن کارڈ جاری نہیں ہوا ہے۔اس کا ایک اہم سبب ہے کہ راشن ملنے کی اہلیت 2011 میں ہوئی سماجی و اقتصادی ذات پات مردم شماری (ایس ای سی سی) پر مبنی ہے جس میں کئی قسم کی غلطیاں ہیں،جیسے مردم شماری کے دوران فیملی کی سماجی اور اقتصادی حالت کا صحیح سے اندازہ نہ کرنا، مردم شماری میں کئی خاندانوں   کا چھوٹ جانا وغیرہ۔

انتظامیہ کی بے حسی کی وجہ سے بھی مستحق لوگوں کی درخواست پر کاروائی نہیں ہوتی ہے۔ مقامی افسر اکثر یہ بھی بولتے ہیں کہ مرکزی حکومت کے ذریعے قانون میں جھارکھنڈ کے لئے طے راشن کا کوٹہ (دیہی علاقے میں 86 فیصد) پورا ہو چکا ہے اور نئے کارڈ نہیں بنائے جا سکتے ہیں۔قانون کے مطابق، راشن ترجیحی طور پر ہر فیملی کو فی شخص کے مطابق دیا جانا ہے۔ لیکن کئی ایسے کارڈ ہیں جن میں فیملی کے کچھ ممبروں کے نام نہیں جڑے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ راشن سے محروم ہیں۔آدھار سے متعلق مسائل، جیسے آدھار نہ ہونا، راشن کارڈ کے ساتھ آدھار لنک نہ ہونا، آن لائن بایومیٹرک تصدیق  سے جڑے تکنیکی مسائل وغیرہ، کے لئے کئی کارڈ ہولڈر اپنے راشن سے محروم ہو رہے ہیں۔

حال میں ہوئی ایک ریسرچ میں پتا چلا کہ آدھار مبنی بایومیٹرک تصدیق سے جڑے مسائل کی وجہ سے رانچی ضلع میں ہی 10 فیصد سے زیادہ کارڈہولڈر اپنے راشن سے محروم ہو رہے ہیں۔ساتھ ہی ابھی بھی ڈیلروں کے ذریعے راشن کی مقدار میں تخفیف کرنا ایک عام مسئلہ ہے، جس کا حل بایومیٹرک تصدیق سے نہیں ہوپایا ہے۔ مشین میں فیملی کے ذریعے لئے گئے راشن کی مقدار فی  ممبر پانچ کلوگرام کے حساب سے ہی درج ہوتی ہے، لیکن ڈیلر اصل میں اس سے کم ہی دیتے ہیں۔راشن کی تقسیم میں آدھار مبنی بایومیٹرک کے انتظام کو ضروری کرنے کا حکم ریاست کے سب سے اعلیٰ اہلکار، چیف سکریٹری کے ذریعے مارچ 2017 میں دیا گیا تھا۔ یہ حکم سرکاری سہولتوں میں آدھار کی ناگزیریت کے خلاف عدالت عظمیٰ کے کئی فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔

راشن کارڈ کو جلد سے جلد آدھار سے جوڑنے کا دباؤ مرکزی حکومت سے آ رہا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے ہو رہے راشن کے حقوق کی خلاف ورزی کو نہ سمجھتے ہوئے ریاست کی نوکرشاہی آدھار سے جوڑنے کے عمل کو پوری انتظامی مستعدی کے ساتھ چلائے جا رہا ہے۔ یہ سرکاری افسروں میں لوگوں کے مسائل کے متعلق جوابدہی کی کمی کو دکھاتا ہے۔پچھلے کچھ مہینوں میں لوگوں کے راشن کارڈ منسوخ ہو جانے کی اطلاع ریاست کے مختلف اضلاع سے آ رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے چیف سکریٹری کے ذریعے راشن کارڈ کو آدھار سے جوڑنے کے ہدایت شدہ ہدف کی حصولیابی کے لئے ایسے کئی کارڈ منسوخ کر دئے ہیں جو آدھار سے جڑے نہیں تھے۔ یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ریاست کی حکومت نے حال میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ 11 لاکھ ‘ فرضی ‘ کارڈ منسوخ کئے گئے ہیں۔

اپنی صفائی میں جھارکھنڈ کے اشیائےخوردنی فراہمی کے  وزیر نے کہا ہے کہ چیف سکریٹری نے ان کے ساتھ مشورہ کئے بغیر ہی ایسا حکم جاری کیا تھا۔ لوگوں کے راشن کے حقوق کو متعین کرنے میں حکومت کی ناکامی سے پلّا جھاڑنے کے لئے انہوں نے پچھلے مہینے چیف سکریٹری کے حکم کو منسوخ کر دیا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ان کے اپنا محکمہ چھ مہینوں تک اس حکم پر عمل کیوں کرتا رہا۔تینوں ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں نے یہ ماننے سے انکار کیا ہے کہ لوگوں کی موت بھوک مری کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی انتظامی قیادت میں ہی حاشیے پر رہنے والی یہ فیملی راشن سے محروم تھے۔دھنباد انتظامیہ کو بیدھناتھ روی داس کی فیملی کو ان کی موت کے بعد راشن کارڈ جاری کرنے میں ایک ہفتہ بھی نہیں لگا، جبکہ فیملی کے ذریعے پچھلے کچھ مہینوں میں کارڈ کے لئے کئی بار درخواست دی گئی تھی۔سماجی کارکن اور میڈیا کے ذریعے بیدھناتھ روی داس کی موت کو اجاگر کرنے کے بعد ہی انتظامیہ نے آناً فاناً میں نئے راشن کارڈ کی درخواستوں کے لئے کیمپ لگانے کا فیصلہ لیا۔

اشیائےخوردنی تحفظ قانون نافذ کرنے کے بعد جھارکھنڈمیں راشن کی  تقسیم کےنظام میں کچھ خاص بہتری دکھے ہیں۔ پہلے کے مقابلہ اب زیادہ سے زیادہ لوگوں  کو راشن مل رہا ہے۔ راشن کارڈ کی فہرستوں کا ڈیجٹلائزیشن ہوا ہے اور کارڈہولڈرز کے ذریعے خریدے گئے راشن کی جانکاری اب سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔لیکن راشن کی تقسیم کے نظام میں آدھار مبنی بایومیٹرک کا نظام نافذ کرنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگ اپنے راشن کے حق سے محروم ہو رہے ہیں اور راشن لوگوں کے زیادہ سے زیادہ فیصد تک پہنچنےکی بہتری کے منسوخ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔یہ بھی سوچنے کا موضوع ہے کہ پہلے فیملی کا کوئی بھی ممبر، یا کوئی پڑوسی بھی، فیملی کا راشن لا سکتا تھا۔ بایومیٹرک تصدیق میں تکنیکی مسئلے ہونے سے لوگوں کو کئی بار راشن دکان کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، جس سے ان کے وقت اور مزدوری کا نقصان ہوتا ہے۔

ریاستی حکومت آدھار مبنی بایومیٹرک آتھنٹیکشن کے نظام کی ناکامیوں کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ حال میں حکومت کے 1000دنوں کی کامیابیوں کی تشہیر کے لئے منعقد تقریب میں محکمہء اشیائےخوردنی فراہمی  نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تمام راشن کارڈ کو آدھار سے جوڑ دیا گیا ہے اور حکومت تمام کارڈہولڈرز کو کامیابی سے راشن دے رہی ہے۔بھوک مری کے معاملات نے پھر سے بی جے پی حکومت کے لوگوں کے سماجی اور اقتصادی حقوق کے متعلق سیاسی وابستگی کی کمی کو اجاگرکیا ہے۔ وزیراعلیٰ اور اشیائےخوردنی فراہمی کےوزیر نے یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ لوگوں کی موت کی اہم وجہ بھوک تھی۔ابھی تک وزیراعلیٰ نے ان معاملات کے لئے چیف سکریٹری، شعبہ جاتی سیکریٹری اور ڈپٹی کمشنروں پر کسی قسم کی کارروائی نہیں کی ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ کچھ مہینوں پہلے سرائی قلعہ اورکھرساواں میں منعقد ایک پروگرام میں وزیراعلیٰ پر جوتے پھینکے جانے اور کالے پرچم دکھائے جانے کے بعد ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو تبادلہ کرنے میں حکومت کو صرف تین دن لگے تھے۔

اشیائےخوردنی فراہمی کے  وزیر نے حال میں یہ اعلان کیا ہے کہ اگر کسی کے انگوٹھے کا نشان مشین میں کام نہ کریں، تو ان کو راشن سے محروم نہیں کیا جائے‌گا۔ راشن ڈیلر ایک رجسٹر میں ویسے لوگووں کو دیے راشن کی تفصیل کو نوٹ کریں‌گے۔لیکن جس بڑے پیمانے پر لوگ بایومیٹرک آتھنٹیکشن کے نظام کی وجہ سے اپنے راشن سے محروم ہو رہے ہیں، اس کے حل کے لئے شاید ایسے اعلانات وقتی حل ہیں۔ ابھی بھی راشن تقسیم کے نظام سے اس کو ہٹانے کے لئے ریاستی حکومت میں قوتِ ارادی کی کمی دکھ رہی ہے۔اشیائےخوردنی تحفظ قانون کے نفاذ میں ہو رہے مسئلوں کے حل کے لئے بھی ایماندار انہ کوششوں کی کمی دکھ رہی ہے۔ شعبے نے ابھی تک کارڈ میں چھوٹے ہوئے ممبروں کے نام جوڑنے کا انتظام  نہیں کیا ہے۔ضلع اور بلاک سطح کے  اہلکار اور مارکیٹنگ اہلکار کے دو تہائی سے بھی زیادہ عہدے خالی ہیں۔ ایک بلاک سطح کے اہلکار نے ان مسائل کے متعلق حکومت کے رویے کو بڑی آسانی سے بتایا، ‘رگھوبر داس کاغذ پر ہی کامیابیوں کو دکھانےکے خواہش مند ہیں۔ زمینی سطح کی حقیقت اور نفاذ سے منسلک مسائل کو ماننے اور ٹھیک کرنے کی کوئی منشاء نہیں ہے۔ ‘

اس میں شاید ہی کوئی شک ہے کہ موجودہ حکومت، سال 2000 میں ریاست بننے کے بعد، پانچ سال کی مہلت پوری کرنے والی پہلی حکومت ہوگی۔ لیکن وزیراعلیٰ کے رویے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اپنا سیاسی دبدبے کا استعمال عوام مخالف پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لئے کرنا چاہتی ہے نہ کہ ریاست میں کھانے کے حقوق کی پامالی پر روک لگانے کے لئے۔

(مضمون نگار جھارکھنڈ میں رہتے ہوئے منریگا پر کافی وقت سے کام کر رہے ہیں۔)