فکر و نظر

آسام میں دستک دے رہا ہے روہنگیا جیسا بحران

آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل نے جو جمعیة علماصوبہ آسام کے صدر بھی ہیں ، موجودہ حالات کے لئے آسام کی کانگریس حکومتوں اور اس کی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔

علامتی تصویر | پی ٹی آئ

علامتی تصویر | پی ٹی آئ

ہندوستان کا شمال مشرقی صوبہ آسام فی الوقت بارود کے ایک ڈھیر پر کھڑا ہے۔ برما کے روہنگیا مسلمانوں سے بھی شدید بحران اس خطہ کو عدم استحکام کی آگ میں جھونکنے کےلئے تیار نظر آرہا ہے۔ صوبہ کی ہندو قوم پرست بھارتیہ  جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت تقریبا 48 لاکھ مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی قواعد شروع کر چکی ہے اور یہ معاملہ برما سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ چند روز قبل صوبہ کے بڑے شہر گوہا ٹی سے پڑوسی ریاست میگھالیہ کے دارلحکومت شیلانگ کی طرف سفر کر تے ہوئے متعدد مقامات پر میں نے پولیس اور انتظامیہ کے اہلکاروں کو لاریوں اور کاروں کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہوئے دیکھا۔ معلوم ہوا کہ غیر قانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشیوں کی تلاش ہورہی ہے۔ شناختی کارڈ میں خامی ہو یا شکل سے کوئی بنگلہ دیشی نظر آیا ، فی الفور بس سے اتار کر اور غیر ملکی ڈیکلیر کرکے اس کو کیمپ میں نظر بند کردیا جاتا ہے۔

مقتدر کانگریسی لیڈر اور صوبائی اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر محمد امیرالدین کا خاندان ہو یا سابق فوجی افسر محمد اعظم الحق، سبھی آجکل حیران و پریشان ہیں۔ان کے خاندانوں کو پہلے ووٹر لسٹ سے خارج کیا گیا، اور بعد میں انہیں فارن ٹریبونل کی ایک اسپیشل بینچ کے سامنے ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کےلئے کہا گیاہے۔امیر الدین1930سے آسام کے گاؤں کالی کاجاری کے مکین ہیں،جہاں مہاتما گاندھی کے علاوہ کئی وزراءاعظم جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی ان کے گھر پر حاضری دے چکے ہیں۔محمد اعظم الحق نے پچھلے سال ہی فوج میں 30سال تک نوکری کرنے کے بعد ریٹائر ہوکر گوہاٹی سے متصل اپنے آبائی گاوں میں سکونت اختیار کی تھی۔اسی طرح پچھلے 25 سالوں سے مقامی پولیس کے ایک آفیسر ابو اعلیٰ کو بھی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کا نوٹس ملا ہے۔ جس میں ان کو کہا گیا ہے، کہ مقررہ مدت تک شہریت کے ثبوت پیش کریں ،ورنہ انکو خاندان سمیت بنگلہ دیش کی طرف دھکیلا جائے گا۔گوہاٹی سے 90کلومیٹر دور بارپیٹہ میں جلد سازی کے ایک کاریگر معین ملا کسی کام کےلئے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے کہ شاہراہ پر پولیس نے ان سے شناختی کارڈ مانگا، جو وہ گھر پر بھول گئے تھے۔بس انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے ، پولیس نے غیر ملکی قرار دیکرحراست میں لیا۔ تلاش بسیار کے بعد ان کے خاندان کو پتہ چلا کہ ملا 100کلومیٹر دور حراستی کیمپ میں نظر بند ہیں اور ان کو بنگلہ دیش بارڈر کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست 2017سے جاری اس کاروائی میں اب تک 89,395 افراد کو غیر ملکی قرار دیکر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا ہے۔

انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھکر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی مرکزی حکومت لاکھوں غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کےلئے قانون سازی کر رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان لاکھوں حقیقی شہریوں ( genuine citizens )کو محض مسلمان ہونے کی بنا پر ہندوستانی شہریت سے محروم کرنے کی منصو بہ بندی ہورہی ہے۔گو کہ اس موجودہ صور ت حال کےلئے آسام کی سابق کانگریس حکومتیں ذمہ دار ہیں، مگر ڈیڑھ سال قبل صوبہ میں بی جے پی کی حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی مسلمانوں کی تقریباً آدھی آبادی کو بنگلہ دیشی قرار دیکر سرحد پار دھکیلنے کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ آبادی کے تناسب سے آسام میں مسلمان کل آبادی کا 34فی صد ہیں اور 9اضلاع میں ان کی واضح اکثریت ہے، جو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھڑکتی آرہی ہے۔آسام کی حقیقی آبادی اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے قومی شہری رجسٹر کا فارمولہ اختیار کیا گیا تھا۔جس کی رو سے 16دستاویزات کو تسلیم کیا گیاتھا۔ان میں سے پنچایت سرٹیفیکٹ بھی شامل ہے جو اس لڑکی کو دی جاتی ہے جو شادی کرکے دوسرے گاؤں یاعلاقہ میں جاتی ہے۔ تاکہ یہ نہ کہا جاسکے کہ یہ بنگلہ دیشی ہے۔موجودہ حکومت نے اس سرٹیفیکٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ستم تو یہ ہے کہ پولیس نے اس کو بہانہ بناکر دھرپکڑ شروع کردی ہے۔

صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ مسلم خواتین کو جو زیادہ تر کم عمر کی ہوتی ہیں، کو رات کو پولیس والے بغیر کسی خاتون پولیس کے گھر پر دھاوا بولتے ہیں اور دروازہ توڑ کر خواتین کو گرفتار کرکے ڈیٹینشن کیمپ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان خواتین کو مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ڈٹینشن کیمپ میں ایسی خواتین کی تعداد تقریباً دس ہزار کے قریب ہے۔اکثر مسلمان خواتین کو کھوکراجار، گوھاٹی اور گوال پارہ کی جیلوں میں نظر بند کیا گیا ہے ۔ مقامی سماجی کارکن ابراہیم علی کے مطابق کئی جیلوں سے خواتین نے پولیس کی طرف سے ظلم و زیادتیوں کی شکایتیں کی ہے۔اس صوبہ میں 1978سے 1985 کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس سمیت کچھ تنظیموں نے پہلے تو غیر آسامیوں یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی پھر اس کا رخ غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑد دیا گیا بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خونریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔اس خوفناک اور خوں آشام تحریک نے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لیں اورکروڑوں روپئے مالیت کی جائیدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔

ویڈیو :  آسام میں شہریت کا مسئلے پردی وائر کی ڈپٹی ایڈیٹر سنگیتا بروا کے ساتھ بات چیت

آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جس میں 1983کا نیلی(Nellie)اور چولکاوا کے قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے جس میں تقریباً تین ہزار لوگوں کو محض چھ گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا مگر متاثرین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ 1985 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی نگرانی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت او ر احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے معرض سے آسام آکارڈ وجود میں آیا اور اس وقت کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے اسے قبول کےا تھا۔ اس کے مطابق 25، مارچ 1971 (Cut off date ) بنےاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر بس جانے والوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا گیا تھا۔چنانچہ اس معاہدہ کے بعد مر کزی حکومت نے پارلیامنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعہ Citizenship Act -1955 میں section 6-A داخل کر کے اسے منظوری دی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں نیز تمام غیر سیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔ مگر ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے 2009 میں اور پھر 2012 میں آسام سنمیلیٹا مہا سنگھ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدہ کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرضداشت داخل کرکے 5 مارچ 1971 کی بجائے 1951 کی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی نیز اس معاہدہ کی قانونی حیثیت اور پارلیامنٹ کے ذریعہ Citizenship Act -1955 میںSection 6-A کے اندراج کو بھی چیلنج کیا، جس کی وجہ سے آسام کے لاکھوں افراد بلکہ ہر تیسر ے فرد پر شہریت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔

آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل نے جو جمعیة علماصوبہ آسام کے صدر بھی ہیں ، موجودہ حالات کے لئے آسام کی کانگریس حکومتوں اور اس کی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقہ سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتے ہیں اور انکی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں 13 ارکان ہیں، سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے پندرہ سالہ دور حکومت میں (2001-16) ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں۔ پہلے انہوں نے 2005میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا پتہ لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ(Illegal Migrants Detection Tribunal  1983) میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی اب یہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں “بارڈر پولیس ڈپارٹمنٹ” تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دےکر گرفتار کر سکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے حراستی مراکز میں ڈالا گیا ان سے راشن کار ڈ چھین لیے گئے۔

مسلم رہنماؤں کو  احساس ہے کہ آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان کے شہری حقوق چھین لئے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ جمیعتہ علماہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے مطابق خواتین کے معاملے میں شہریت کے ثبوت کے طور پر گاؤں کی پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہ کئے جانے کا فیصلہ سنگین مسئلہ ہے ، جو منصوبہ بند لگتا ہے۔ اسلام ریاست آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں 13 صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757کی جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا اوران لوگوں نے معاشی وجوہات سے اپنے رشتہ داروں کو یہاں بلانا شروع کیا۔ کیونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں۔مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے جن میں 85 فی صد مسلمان تھے۔ آج انہی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر ملکی یا بنگلہ دیشی قرار د یکر ان کےلئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔