فکر و نظر

پاکستان : نیوز چینلز کے بندش سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

پاکستان میں ایک روزہ بندش کے بعد تمام نجی نیوز چینلز کی نشریات کو بحال کر دیا گیا ہے لیکن نشریات کی بحالی کے حکم نامے کے ساتھ ہی پیمرا کی طرف سے تمام نیوز چینلز کو نئی گائیڈ لائنز بھی جاری کی گئی ہیں۔

LahorePressClub_DW

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ذرائع کے مطابق دھرنے کی کوریج کے لیے جاری گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ گزشتہ روز اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں ہونے والے آپریشن کی لائیو کوریج کرنے پر حکومت نے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا سائیٹس کو بند کر دیا تھا۔ فیض آباد آپریشن اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ملک گیر ردعمل کی کوریج کے دوران کارکن صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ اسلام آباد اور کراچی سمیت کئی علاقوں میں صحافیوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، ڈی ایس این جی سمیت کئی گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں اور کوریج کرنے والے کیمرے توڑ دیے گئے۔ پاکستان میں تمام صحافتی تنظیموں نے صحافیوں اور نجی نیوز چینلز پر حملوں کی مذمت کی ہے۔

پاکستانی میڈیا کے ساتھ آخر یہ سب کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے سابق صدر اور ممتاز صحافی مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بدقسمتی سے حکومت نے چند چینلز کی مبینہ غیر ذمہ داری کی آڑ میں نہ صرف تمام چینلز کو بلکہ اطلاعات کی فراہمی کے اہم ذرائع سوشل میڈیا سائیٹس تک کو بند کر دیا تھا۔ ان کے مطابق اس طرح کا حکومتی اقدام شہریوں کے اظہار رائے کی بنیادی حق سے محرومی کا باعث بنا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ نجی نیوز چینلز نے کونسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ جو چینلز ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کر رہے تھے انہیں کیوں سزا دی گئی۔

مظہر عباس کے مطابق یہ حکومتی اقدام بحران کے حل میں معاون ثابت نہیں ہوا کیونکہ اس سے افواہیں پھیلیں، غلط خبریں شیئر ہوئیں، پراپیگنڈا مشینری نے حقائق کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا، جہاں تین افراد مرے وہاں 30 افراد کی ہلاکت کی بات بھی ہوتی رہی اور لوگ اس سب پر یقین کرتے چلے گئے۔ہفتے کے روز صحافیوں پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک خطرناک رجحان یہ بھی ہے کہ میڈیا ہاوسز کے مالکان خود بھی تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ ملک میں جاری بحران میں کسی ایک فریق کی طرف داری میں پروفیشنل حدود سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں، جس سے کارکن صحافی رد عمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک حکومت اور میڈیا مالکان صحافیوں کو بحرانی صورتحال میں رپورٹنگ کی تربیت فراہم کرنے یا ان کے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں کرتے بلکہ وہ بازی لے جانے کے شوق میں میڈیا ورکر کی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، ’’خود میڈیا کے لوگوں کو بھی سمجھنا ہو گا کہ وہ سیاسی معاملات پر جس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اس کی گنجائش قومی سلامتی کے حساس امور میں نہیں ہے۔‘‘

پاکستان کے ماہر ابلاغیات اور یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے ڈین ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے بتایا کہ نیوز چینلز کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل حکومت کو میڈیا ہاوسز اور ان کی تنظیموں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ ان کے بقول نجی نیوز چینلز کی نشریات روکنے سے بحران کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے، ’’ہماری حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، آج کے دور میں ہم میڈیا کو کسی حد تک مینیج تو کر سکتے ہیں لیکن زیادہ دیر تک بین کر کے اطلاعات کی فراہمی کو روک نہیں سکتے۔ یہ بات درست ہے کہ بعض میڈیا ہاوسز اپنی پروفیشنل حدود سے تجاوز بھی کرتے ہیں لیکن اس کا حل سب چینلز پر پابندی لگانا نہیں ہے۔ اس سے عوام میں خوف، بے یقینی، بے چینی اور ابتری کا احساس جنم لیتا ہے اور بعض اوقات دشمن اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر مغیث نے بتایا کہ اس پابندی کی وجہ سے نیوز چینلز جو اچھا کام کر سکتے تھے، اس سے بھی پاکستانی عوام محروم رہے،’’اس وقت موٹر وے بند ہے، میں پچھلے 24 گھنٹوں سے موٹر وے کے ایک گوشے میں ہزاروں مسافروں کے ساتھ مقید ہوں۔ ایک بارات کے شرکاء بھی یہاں موجود ہیں، تفریحی دورے پر کھیوڑہ کی نمک کی کانوں پر آنے والے بچے بھی کلر کہار میں رکے ہوئے ہیں، اسی طرح طالبات کا ایک وفد گوجرانوالہ میں پھنسا ہوا ہے۔ مسافروں میں کئی بچوں بزرگوں اور خواتین مریضوں کو فوری مدد کی ضرورت ہے، اگر میڈیا پر پابندی نہ ہوتی تو یہ سارے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی آواز مقتدر حلقوں تک پہنچا سکتے تھے، اسی طرح عوامی آگاہی کا جو مثبت کام اس میڈیا سے لیا جا سکتا تھا، وہ بھی نہیں لیا جا سکا۔‘‘
ڈاکٹر مغیث کے بقول کئی نیوز چینلز کے کیمرہ مین زیادہ پڑے لکھے نہیں ہوتے لیکن جو لوگ خبری مواد کو ایڈٹ کرنے اور اسے آن ایئر کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں انہیں اپنا کردار ذمہ داری کے ساتھ نبھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے کالم نگار اور سینئیر تجزیہ کار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض نیوز چینلز صحافتی ضابطہ اخلاق کی پاسداری نہیں کرتے اور کئی دفعہ وہ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے چکر میں کسی حساس واقعے کی رپورٹنگ اس طرح بھی کر دیتے ہیں، جس سے ملک کے دوسرے حصوں میں امن و امان کی صورتحال متاثر ہوسکتی ہے۔ ان کی رائے میں پاکستان کو اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے قومی ابلاغی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔