خبریں

کیا اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر اعجاز علی،نتیش اور بی جے پی کے قریب ہونا چاہ رہے ہیں؟

حفاظت کے اس حق کو حاصل کرنے کے لئے ہو سکتا ہے کہ ہمیں مرکزی حکومت سے بہت سے سمجھوتے کرنے پڑیں اور آپ کو ایسا لگے کہ غلط ہو رہا ہے لیکن غلط مت سمجھیے‌گا۔

EjazAli_ManishS

پٹنہ :اقلیتوں کو بھی انسدادتشدد ایکٹ[Scheduled Caste and Scheduled Tribe (Prevention of Atrocities) Act] میں شامل کیا جائے۔ یہ مطالبہ  اتوار کو  یونائٹیڈ مسلم مورچہ کے زیر اہتمام منعقد ’دنگامکت ننگامکت بھارت کانفرنس‘میں کیا گیا۔پٹنہ کے شری کرشن میموریل ہال میں منعقد  کانفرنس میں مہمان خصوصی کے طور پرخطاب کرتے ہوئے سابق رکن پارلیامنٹ اعجاز علی نے کہا؛’ہم لوگوں نے 70 سالوں تک سیاسی پارٹیوں پر بھروسہ کیا اور  اپنا تحفظ تلاش کیا، لیکن اب ہمیں اپنی حفاظت کے لئے قانونی سہارا چاہیے۔ ہم کوئی نیا قانون نہیں چاہتے ہیں بلکہ بس اتنا چاہتے ہیں کہ پرونشن آف ایٹروسٹیز ایکٹ میں اقلیتوں کو بھی شامل کیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا؛’اس ملک میں دلت،آدیواسی اوراقلیتوں؛انہی تین طبقوں پر ظلم ہوا ہے۔ انسدادتشدد ایکٹ کی وجہ سے آج دلت اور آدیواسیوں کے خلاف ظلم کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔‘انہوں نے بھروسے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ؛’اگر مسلمان تمام چیزوں سے منھ موڑ‌کر لاکھوں کی تعداد میں یہ مطالبہ کرے  تو حکومت یہ مانگ پوری کر دے‌گی۔اور اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو ملک کے مسلمانوں کو بھی اس حکومت کے بارے میں سوچنا پڑے‌گا۔ ‘

اعجاز علی نے بھوک مری، مہنگائی،بےروزگاری، بد عنوانی، شراب نوشی وغیرہ کو ملک کے ننگےپن کی پہچان بتاتے ہوئےکہا کہ ؛گزشتہ 70 سالوں میں یہ مسائل قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے شاعرانہ انداز میں اپنی بات سمجھاتے ہوئے کہا کہ؛ ملک کو ننگامکت کرنے کے لئے دنگامکت کرنا ضروری ہے اور فساد سے نجات کے لئے اقلیتوں کوپرونشن آف ایٹروسٹیز ایکٹ میں شامل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا؛’یہ صرف اقلیتوں کا ہی سوال نہیں ہے۔ اس مطالبے میں اس ملک کی بھی حفاظت ہے۔ ہم یہ ڈیمانڈ خود سے زیادہ اس ملک کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ ملک میں اگر آج کی طرح  ہی فرقہ پرستی والی سیاست اگلے بیس پچیس سالوں تک چلتی رہی تو ملک میں خانہ جنگی  کے حالات پیدا ہو جائیں‌گے۔‘

اعجاز علی نے اپنے خطاب کے دوران  ملک میں فرقہ پرست سیاست کیے جانے کی بات حوالے کے طور پر کہی لیکن اس سیاست کی وجہ سے مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں، ان کو فوراً روکنے یا ا س کے قصوروار کو سزا دلوانے کے لیے انہوں نے اسٹیج سے موجودہ قوانین کے تحت کوئی کارروائی کی مانگ نہیں کی۔

دوسری طرف،انہوں نے اسٹیج سے  لوگوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا؛’ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں‌گے جس سے سماج کو نقصان ہو۔ ہماری کچھ بات، فیصلے، طریقےآپ کو وقتی طور پر غلط بھی لگ سکتے ہیں، لیکن آپ مایوس اور گمراہ نہ ہوں۔ حفاظت کے اس حق کو حاصل کرنے کے لئے ہو سکتا ہے کہ ہمیں مرکزی حکومت سے بہت سے سمجھوتے کرنے پڑیں اور آپ کو ایسا لگے کہ غلط ہو رہا ہے لیکن غلط مت سمجھیے‌گا۔ ہم آنے والی نسلوں کا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔‘

EjazAli_Hoarding_ManishS

کانفرنس کا انعقاد ’شودر ایکتا پریشد‘کے ساتھ مل‌کر کیا گیاتھا۔ کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے دلت مفکر ایچ ایل دُسادھ نے سب سے پہلے کانفرنس سے اٹھی مانگ کی حمایت کی اور کہا کہ آئین کو قاعدے سے نافذ نہیں کیا گیا اس لئے اقلیت آج اپنی حفاظت کو لےکر فکرمند ہیں۔

انہوں نے اپنی تقریر میں کہا؛’میری لڑائی ہے کہ ہندوستان میں پاور کے ذرائع میں سماجی اور اخلاقی تنوع کی عکاسی ہو۔ سماج، معیشت اور سیاست کے تمام شعبوں میں اقلیتوں کی بھی برابر کی شراکت داری ہو۔ حکمرانوں نے سازش کے تحت 70سالوں میں دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کو طاقت کے ذرائع سے دور کا غلام بنا دیا ہے۔‘

کانفرنس کے بعد جب دی وائر نے اعجاز علی سے سوال کیا کہ آپ نے اپنی تقریر میں آج مسلمانوں کے روزگار، پہچان، حفاظت وغیرہ پر ہو رہے حملوں کا ذکر کیوں نہیں کیا اور اس سے فوراً تحفظ مہیّا کرانے کی کوئی مانگ کیوں نہیں کی؟تو جواب میں انہوں نے کہا؛’آج جو آپ ہندوستان میں دیکھ رہے ہیں وہ کوئی ایک دو دن کی پیداوار نہیں ہے۔ 70 سالوں سے ہوتے ہوتے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے۔ ایسے میں آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہماری حفاظت کا انتظام ہے اور ایسا تشدد کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ایکٹ سے ہی ممکن ہے۔ یہ حفاظت ملک میں فرقہ پرست سیاست  پر بھی روک لگائے‌گی۔‘

انہوں نے صاف کیا؛’آج کی میٹنگ میں بیف، گئورکشا جیسے معاملات کے بہانے مسلمانوں پر ہو رہے حملوں کا ذکر اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ یہی سب سنا سنا کے لوگ ووٹ لیتے رہے ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ اس پر روک کیسے لگے۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ جس چیز میں ان کو (مسلمانوں کو) 70 سال تک پھنساکر رکھا گیا ہے، ان کو آگے بھی اسی میں پھنساکر رکھا جائے۔ اب ہم سیاسی نہیں قانونی حفاظت چاہتے ہیں۔ ‘انہوں نے نوٹ بندی کی  حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بھلے ہی اس سے کچھ شروعاتی دقتیں سامنے آ رہی ہوں لیکن یہ اقتصادی جسٹس حاصل کرنے کی سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔

دریں اثناسینئر صحافی سرور احمد کا ماننا ہے کہ اقلیتوں کو پرونشن آف ایٹروسٹیز ایکٹ کے تحت حفاظت کے مطالبہ محض سے کچھ نہیں ہوگا۔وہ کہتے ہیں ؛’آئین میں ہر شہری کی حفاظت کے لیے قانون ہیں ۔کچھ مظلوم طبقوں کے لیے خاص قانون بھی ہیں ۔ایسے میں بنیادی  سوال  قوانین کو زمین پر اتارنے کا ہے۔مثلاًپرونشن آف ایٹروسٹیز ایکٹ کے بننے کے تقریباً تین دہائی بعد بھی ایسا نہیں ہے کہ دلت اور آدی واسیوں کے خلاف تشدد بند ہوگئے ہیں۔‘

اس کے ساتھ ہی سرور یہ اندیشہ بھی جتاتے ہیں کہ صرف تشدد کو لے کر ایکٹ کے تحت حفاظت کی مانگ کرنا اور باقی باتوں پر خاموشی اختیار کرلینے سے مسلمانوں کی تعلیم ،پہچان ،روزگار ،عزت وغیرہ سے جڑے اہم مسائل اور سوالوں کے پیچھے چھوٹ جانے کا خطرہ بھی ہے۔سرور کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہار میں مہاگٹھ بندھن ٹوٹنے سے شاید اعجاز علی کے سیاسی عزائم پھر سے بیدار ہو رہے ہوں اور اس وجہ سے وہ ایسے مسائل کے ذریعے از سرنو پہل قدمی کر رہے ہیں ۔

EjazAliSpeaking_ManishS

روزنامہ انقلاب پٹنہ ایڈیشن (پیر)میں شائع جاوید اختر کی رپورٹ کے مطابق ؛’اقلیتوں کے تحفظ کے لیے نریندر مودی کی مرکزی حکومت اگر درج فہرست ذات اور درج فہرست قبیلے کی طرز پر اقلیتوں کو بھی انسداد تشدد قانون میں شامل کر لے تو آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ اس کی حمایت کے لیے تیار ہے اور اقلیتوں کو بھی مودی حکومت کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔‘

اعجاز علی کے مطابق اس تقریب میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بھی آنا تھا۔غور طلب ہے کہ مارچ 2008میں ڈاکٹر اعجاز علی ،نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل یونائٹیڈ کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے ،لیکن اکتوبر 2009میں انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے 2010میں جنتادل محنت کش کے نام سے ایک پارٹی بنائی تھی ۔