خبریں

فرقہ وارانہ فساد : سچ کے بغیر صلح کیسےممکن ہے؟

ایک آدمی کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ بھیڑ میں کسی کی نظر تو اخلاق کی فیملی کے کسی ممبر سے ملی ہوگی۔ کبھی انہوں نے ایک ساتھ کرانے کی دکان سے ساتھ میں سامان لیا ہوگا۔ کبھی وہ یوں ہی آنگن پر ملے ہوں‌گے۔ وہ اجنبی نہیں تھے۔

Palicemen patrol a street during curfew in Muzaffarnagar

کیا مودی اور ان کے ہندوتوا نے ہندوستان کا سماجی تانابانا ہمیشہ کے لئے بدل ڈالا ہے؟ آج تمام سیکولر مزاج اور ترقی پسندوں  کے دل میں یہی سوال ایک ڈر بن کربیٹھا ہے۔ سماجی تانے بانے کو سمجھنے کے کئی طریقے ہیں اور ان میں سے ایک طریقہ ہے تشدد کےعصری کردارکو سمجھنا اور اس کو ایک بڑے تناظر سے جوڑ‌کر سماج میں ہو رہی بنیادی تبدیلیوں پرغور و فکرکرنا۔ یہ موضوع اچانک مجھے میرے من پسند ادیب سعادت حسن منٹو کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ منٹو نے اپنے بے حدقریبی دوست اورفلم ایکٹر شیام کا ایک عمدہ خاکہ لکھا ہے۔ شیام اور منٹو بہت گہرے دوست تھے لیکن تقسیم کے سانحہ اور پاگل پن نے دونوں کو الگ کر دیا۔ منٹو ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں ،جس نے شاید انسانی دل اور تشدد کے باہمی اتصال پر ان کی سوچ کو شدید طور سے متاثر کیا تھا۔ یہ تقسیم کے دور کی ہی بات ہے جب شیام اور منٹو راولپنڈی سے آئے ایک سکھ فیملی سے بات کر رہے تھے۔ بات چیت کے دوران منٹو نے محسوس کیا کہ شیام اس فیملی کی داستان  سے ہل اٹھے تھے۔ ان کے جانے کے بعد منٹو نے شیام سے پوچھا، “میں بھی مسلمان ہوں، کیا تم کو مجھے مارنے کا دل ہوتا ہے؟ “شیام نے جواب دیا، “ابھی نہیں، پر جب میں اس فیملی سے مسلمانوں کے ظلم کا قصّہ سن رہا تھا تب شاید میں تم کو مار ڈالتا۔ ” منٹو ششدر رہ گئے۔

بعد میں وہ لکھتے ہیں کہ شیام سے ہوئی اس بات چیت نے ان کو تقسیم کے پاگل پن اور سالوں کے دوستوں کے دشمن بننے کے قصّوں کی اصلیت سے روبرو کروایا۔ اس پَل، صرف اس پَل شاید شیام اور منٹو دوست نہیں، محض ایک ہندو اور ایک مسلمان بن گئے تھے۔تقسیم کے بعدکی تاریخ میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں ہماری سمجھ‌کے دو پہلو ہیں۔ پہلا، عام طور پر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ملک میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد شہروں میں مرکوز رہے ہیں۔ مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف ہوئے فسادات شہروں میں ہوئے اور وہیں تک محدود رہے۔ دوسرا، ایسا بھی مانا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات میں خارجی عناصر کا ہاتھ پایا جاتا رہا ہے اور مقامی  لوگ مل جل کر رہنے کے حامی رہے ہیں۔ اس اصول سے متاثر لوگ سیاسی پارٹیوں اور ان کی افواہ کی سازشوں کو فرقہ وارانہ فسادات اور متعلقہ تشدد کے لئے ذمہ دار ٹھہراتے آئے ہیں۔ دونوں ہی نظریات میں سچ کی جھلک ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں لگے سب سے بڑے داغ یعنی بابری مسجد کا خاتمہ میں بھی خارجی عناصر اور سیاسی پارٹیوں کا ہی ہاتھ تھا۔ یہ بات سچّائی سے بہت دور نہیں ہے کہ مقامی لوگ اور ہندو چاہے مسلم تنظیم بات چیت کے ذریعے حل نکالنے کو تیار تھے۔ مہنت لال داس کا قتل بلاوجہ نہیں ہوا تھا۔ 90 کی دہائی میں اور اس کے بعد سنگھ اور اس کے ہم مقابل تنظیم شمالی ہندوستان کے گاؤں و محلّوں میں تیزی سے پھیلے ہیں۔ آج برہمنیت ہندتوا کا جلوہ ہر ذات میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 2014 کے انتخابی نتیجہ سنگھ اور اس کے نظریہ کی ابتک کے سب سے بڑی جیت ہے۔ بی جے پی اور سنگھ نے اپنی کامیابی کو چھپانے کی کوشش بالکل نہیں کی ہے۔ بہتوں نے اس کو 1200 سال کی غلامی سے آزادی کا تہوار بتایا ہے۔ کئی باتیں جو آج سے محض دس سال پہلے تک ناقابل بیان تھیں آج کھلےعام کہی جا رہی ہیں۔ لیکن سب سے بڑی تبدیلی فرقہ وارانہ تشدد کے کردارمیں آئی ہے۔ آج کے دور کا فرقہ وارانہ تشدد مجھے بٹوارے کے وقت کی یاد دلا رہا ہے۔

2014 کے بعد مغربی اتّر پردیش میں ہوئے فسادات نے فرقہ پرستی کے جغرافیائی کردار کی نئی تعریف لکھ دی ہے۔ اب فساد صرف شہروں میں نہیں ہوتے، گاؤں گاؤں میں ہر روز ہو رہے ہیں۔ محمّد اخلاق کو مارنے والی بھیڑ اسی گاؤں کی تھی۔ گریڈیہہ کے بریاباد میں عثمان انصاری کو پیٹنے والے بھی انہی کے گاؤں کے تھے۔ ایک آدمی کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ بھیڑ میں کسی کی نظر تو اخلاق کی فیملی کے کسی ممبر سے ملی ہوگی۔ کبھی انہوں نے ایک ساتھ کرانے کی دکان سے ساتھ میں سامان لیا ہوگا۔ کبھی وہ یوں ہی آنگن پر ملے ہوں‌گے۔ وہ اجنبی نہیں تھے۔ اس طرح آزاد ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی نظریاتی طور پر پوری طرح دھول چاٹ چکی ہے۔ اب پڑوسی پڑوسی کو مارنے کو تیار کھڑے ہیں۔ باہری بھیڑ کسی انجان چہرے کو نہیں مار رہی بلکہ جانے پہچانے لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ ہرش ماندر کی حالیہ ” کاروانِ محبت “سے ایک بات اور نکل‌کر سامنے آئی ہے۔ اس ابھرتے ماحول کا گلہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ ہندوؤں کے لئے احساس جرم تو دور، کسی قسم کا سمجھوتہ بھی کمزوری کی نشانی ہے۔ باہوبلی ہندوتوا صرف خون کا پیاسا ہے۔ ماندر صاحب لکھتے ہیں کہ گریڈیہہ میں عثمان انصاری کے مسئلے پر منعقد میٹنگ میں تقریباً 300 لوگوں نے شرکت کی لیکن  ہندوؤں کی شکایت یہی رہی کہ جلسہ میں ان “بے گناہ ” ہندو جوانوں کے بارے میں گفتگو کیوں نہیں ہوئی جو مارپیٹ کے الزام میں جیل میں ہیں۔ ماندر صاحب نے  انسانی جذبے کے ساتھ اپیل کی پر وہ لوگوں کو بہت ناگوار گزری۔ امن اور بھائی چارہ کی باتیں اکثریت کو بری لگ گئی۔ ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ ہم ستّر سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ مجھے راہی معصوم رضا کے ” آدھا گاؤں “کے کردار یاد آرہے ہیں جو علیگڈھ سے آئے نوجوان لیگیوں سے کہتے ہیں : پاکستان کہاں بنے‌گا؟ کیا ہم اپنی گنگاجی اور زمین لےکے وہاں جائیں‌گے؟ اگر نہیں تو پاکستان سے ہمیں کیا لینا؟ مجھے ” گرم ہوا ” کا تانگےوالا یاد آ رہا ہے جو کہتا ہے : ہم کیوں کراچی جائیں، وہاں تو اونٹ چلتے ہیں۔ میں اپنے قصبے میرگنج (گوپال گنج، بہار) کے بارے میں سوچتا ہوں جہاں میں پیدا ہوا اور بڑا ہوا۔ جہاں کبھی کوئی فرقہ وارانہ واقعہ نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ سال وہاں کی ہوا میں بھی تشدد تھا۔ یہ وہی میرگنج ہے جہاں محرّم کا تعزیہ اور مہاویری اکھاڑا ایک ساتھ نکلتے رہے ہیں۔ جہاں ہندو عورتیں تعزیے پر تلک لگائے تو تعزیہ آگے بڑھے۔ مرثیہ میں تمام ہندو مسلمان ساتھ رہے۔ مرثیہ میں گھلا دکھ کئی دنوں تک ہوا میں بنا رہے۔

گاؤں گاؤں میں درگاہوں کا یہ ملک اچانک کہنے لگا ہے کہ سیکولرزم مغربی نظریہ ہے۔ اچانک صدیوں کا مشترکہ وجودایک جھٹکے میں ناقابل قبول ہو گیا ہے اور ایک سو سال پرانی فرقہ وارانہ شرارت سچائی بن گئی ہے۔ شاید ایک دوسرے کو جانے بغیر ہی ہم اجنبی ہو گئے ہیں۔ حبیب جالب نے کہا ہے : ظلم بھی ہو، امن بھی ہو۔ ممکن ہے کیا تم ہی کہو۔ لیکن صلح کے پہلے تو بات چیت کو موقع ملنا چاہیے۔ سعید نقوی کی کتاب Being the Other میں وہ ایک واقعہ بتاتے ہیں جہاں انہوں نے ایک جلسہ میں شامل تمام ہندوؤں سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی کسی مسلمان کے گھر کے اندر گئے ہیں؟ کئی ہندوؤں نے کہا : میری ماں چکن بناتی ہے۔ میرے کئی دوست مسلمان ہیں۔ نقوی کے اصل سوال کا جواب دینے سے کئی کتراتے رہے اور آخرمیں  سب نے قبول کیا کہ وہ کبھی بھی کسی مسلمان کے گھر کے اندر نہیں گئے۔ ٹھیک اسی طرح اس پورے جلسہ میں ایک بھی مسلمان کبھی کسی ہندو کے گھر کے اندر نہیں گیا تھا۔ نقوی لکھتے ہیں کہ اس دن ان کو احساس ہوا کہ ہندوستانی سماج کئی سیکڑوں سالوں سے ایک منظم نسلی عصبیت (اپارتھائڈ) کی حالت میں رہتا آیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں کئی سالوں کی نسلی عصبیت تھی۔ مگر سنا ہےنسلی عصبیت کے دور کے خاتمے کے بعد وہاں ایک ٹروتھ اینڈ ریکنسیلئیشن (سچ اور صلح) کمیٹی بنائی گئی تھی۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں سچ کے بغیر صلح کیسے ہوگی۔

(مضمون نگار ممبئی میں لیکچرار ہیں۔)