فکر و نظر

کارپوریٹ قرض معافی بنام کسان قرض معافی:آخر ترقی کا پیمانہ کیا ہے؟

کسان اپنی پیداواربہت کم قیمت پر بیچنےکو مجبور ہیں،لیکن سیاست اور حکمراں  طبقے نے ان کے مسائل کو اپنی بیان بازیوں تک محدود کر رکھا ہے ۔

farmers-1

ملک کے سیاستداں اکثر ہندوستان کی کل آبادی کے ساٹھ فیصد حصے یعنی کسانوں کے تئیں اپنی اثرانگیز تقریر میں کسان کے مفاد میں باتوں کے پل باندھتے رہتے ہیں، لیکن ان کسانوں کے مفادات میں کئے جانے والے تقریروں کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ جس کی اصلیت ملک کے کسانوں کے ذریعے مسسلسل جاری خودکشی کے ساتھ ہی سرکاری فیصلوں میں لگاتارخارج ہوتے کسانوں کےمسائل کی شکل میں روز ہی سامنے آتی رہتی ہے۔

تازہ حالات کے مطابق کسانوں کے خون پسینے  سے تیار ہوئی خریف پیداوار منڈیوں میں  لاگت  سےبھی کم دام پربکتی  ہے۔ ستمبر مہینے کے آخری ہفتے میں ملک بھر کی منڈیوں میں کسانوں کی مصنوعات کو لےکر ملک کے مشہور مدھیہپردیش، مہاراشٹر اور راجستھان کی کچھ منڈیوں میں کسانوں کی پیداوار کو ملنے والی قیمتوں کا حساب کتاب کچھ اس طرح رہا-آج کسانوں کو لاگت  سے بھی کم داموں پر اپنی پیداوارکو بیچنا پڑ رہا ہے، تمام سرکاری اعلان اور انتظام ان کے لئے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔  ہمارے ملک کے کسان جی توڑ محنت کر کے  زراعت کے شعبے میں ملک کو مسلسل خود مختار بنانے میں لگا ہے۔

وہ سال در سال بھاری پیداوار سے ملک کے اناج گوداموں کے ساتھ غریب اور امیر سب کی تھالی کو مناسب کھانے سے بھرنے کے لئے اپنا پسینہ بہاتا ہے۔ لیکن جب وہی کسان اپنی پیداوار لےکر منڈی پہنچتا ہے تب اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ نقصان کے سودے کے لئے خون پسینہ ایک کرنے میں لگا ہے۔

اس طرح نقصان پر نقصان جھیلتا ہندوستانی کسان آخرکار ساہوکار اور بینک کے قرض میں پھنس‌کر  بےوقت موت کو گلے لگانے کے لئے مجبور ہو رہا ہے۔  حال میں ہی بین الاقوامی اشیائےخوردنی پالیسی ریسرچ ادارہ (آئی ایف پی آر آئی) نے اپنی جو سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق ہندوستان بھوک کے اشاریہ میں تین سیڑھی اور نیچے کھسک گیا ہے۔

آج ہم بھوک کے معاملے میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور شمالی کوریا سے بھی بدتر حالت میں پہنچ گئے ہیں جبکہ ہمارے رہنما، وزیر روز بیان دےکر ہندوستان کو عالمی طاقت کا درجہ دیتے رہتے ہیں۔ اچھے دنوں کے وعدے کے ساتھ آنے والی موجودہ مرکزی حکومت بھی صرف کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کو سادھنے میں لگی ہے۔ اس کو نہ تو کسانوں کی فکر ہے نہ تو آدھا پیٹ کھاکر جینے والے حاشیے کے ناقص غذا میں مبتلا غریبوں کی۔

حال ہی میں ہمارے ملک کی غذائی نگرانی بیورو (این این ایم بی) کے ذریعے کئے گئے ایک سروے میں یہ خوفناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ آج ہمارے ملک کے دیہاتیوں کے کھانے کی تھالی چالیس سال پہلے سے بھی پیچھے چھوٹ گئی ہے۔

فی الحال گاؤں کے لوگوں کو چالیس سال پہلے سے بھی کم غذائت سے بھرپور کھانا مل پا رہا ہے۔ این این ایم بی کی اس رپورٹ کے مطابق آج ملک کے دیہی عوام 1975-79کے مقابلے میں اوسطاً 550کیلوری میں 13گرام پروٹین، 5ملی گرام۔ آئرن عناصر، 250ملی گرام کیلشئم اور تقریباً 500ملی گرام وٹامن کی کمی جھیلتے ہوئے جی رہا ہے۔

  ہماری موجودہ حکومت اور اس کی حامی میڈیا مسلسل اس سچ کو جھٹلانے میں ہی اپنی ساری طاقت کو جھونکے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے ملک کی ناقص غذا ئیت کے شکار  لاچار ستّر فیصددیہی آبادی کا کوئی پرسان حال نہیں ۔

یہی نہیں حالات کتنے خوفناک ہیں اس کو مندرجہ ذیل تفصیلات سے اور بھی اچھی طرح جانا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ آج تین سال سے کم عمر کابچّہ روزانہ صرف 80ملی لیٹر دودھ ہی لے پا رہا ہے، جبکہ اس کو روز 300ملی لیٹردودھ ملنا چاہیے۔

ویڈیو: جن گن من کی بات: کارپوریٹ قرض معافی پر ارون جیٹلی کی صفائی

اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملک کے گاؤں کے 35فیصد مرد اور عورتوں کو کم خوراک مل پاتا ہے، اور 42فیصد دیہاتی بچّوں کا وزن کم پایا گیا۔ اسی سلسلے میں کئے گئے ایک دیگر سروے سے پتا چلتا ہے کہ آج ہمارے ملک کے 80فیصد شہری اور 70فیصد دیہاتی آبادی روزانہ کی ضرورت کے بنیادی چوبیس سو کیلوری غذائی عناصر سے محروم ہوکر گزر-بسر کرنےپر مجبور ہے۔

 ملک کی ترقی کو رفتار دینے کے نام پر حال ہی میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ذریعے کیے گئے اعلان کے وقت زراعت لفظ کا استعمال ایک بار بھی نہیں ہوا۔ غالباً ان کی ڈکشنری میں ترقی کے نام پر کسان لفظ ہے ہی نہیں۔ وزیر خزانہ نے اپنے اعلان میں 83677کلومیٹر لمبی سڑک بنانے کے لئے 6.92لاکھ کروڑ روپیے دینے کی بات کہی۔ ساتھ میں بینکوں کو 2.99لاکھ کروڑ روپیے کے پیکیج دینے کی بھی بات کہی۔

ہمیں اس بھاری بھرکم پیکیج کی اصلیت کو بھی اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔ اصل میں ا س کی  بنیاد میں یہ سوچ سامنے آتی ہے کہ بینکوں کو دی جانے والی اس بھاری بھرکم رقم سے کارپوریٹ کو بانٹی گئی ادائیگی نہ ہونے والے بٹےکھاتے میں جا چکے قرض کو پاٹ دیا جائے۔ وہیں زراعت پر مبنی 60فیصد آبادی کے لئے  وزیر خزانہ ‌کے پاس امداد تو دور، ایک لفظ بھی نہیں ہے۔

موجودہ حکومت ملک کی ترقی کے نام پر ایشیا کے تمام ممالک سے بھی زیادہ ٹیکس وصول رہی ہے۔ کسانوں اور  عام لوگوں  کو غیر جی ایس ٹی والے مہنگے پیٹرول اور ڈیزل بیچے جا رہے ہیں۔ پچھلی سرکار نے 14 فیصد جی ایس ٹی کی تجویز رکھی تھی، اس کی بجائے حکومت 28فیصد کا ناقابل عمل اور پریشانی بھرا جی ایس ٹی لگاکر غریبوں اور عام لوگوں کے خون-پسینہ سے جٹائے پیسے سے کارپوریٹ کے قرض کو پاٹنے میں لگی ہے۔

کیا یہی ہیں اچھے دن؟ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار‌کےسبب  آئی اقتصادی مندی کو آنے والے دنوں کے لئے خوشحالی کا اشارہ بتانے والی ہماری موجودہ حکومت کسی بھی حالت میں غریبوں کی بھوک اور بدحالی کو کسی طرح کی پریشانی ماننے کو تیار نہیں ہے۔

شاید ان داتا کسانوں کی روز روز ہونے والی خودکشی موجودہ حکومت کے ماہرین اقتصادیات کی نظر میں کسی بھی طرح کی  پریشانی کا سبب نہیں بنتی۔ ان کی نظر میں لمبی چوڑی سڑکیں، ان پر فراٹے بھرنے والی ائیرکنڈیشن کاریں، ان سڑکوں کے کنارے بننے والے عالی شان ہوٹل، ان میں مستی کرنے والے امیروں اور افسرشاہوں اور رہنماؤں کےبھاری بھرکم خرچیلے اجلاس ہی ترقی کا ذریعہ ہوں‌گے۔

کیا گاؤں غریب اور کسان کی ترقی کے لئے یہ چیزیں ہی ضروری ہیں؟ ممکن ہے آج کے حکمرانوں کی اقتصادی ترقی کے تصور کا ماڈل بھی یہی ہو۔ ان سرکاری ماہر اقتصادیات نے ممکنہ ہاورڈ یونیورسٹی کے اس سروے کو پڑھنے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے جس میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ ‘غریبی اور بھوک سے نجات پانے کے لئے بنیادی ڈھانچہ سے زیادہ موثر تدبیر زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری ہی ہے۔’

 83،677کلومیٹر لمبی سڑکوں کے لئے 6.92لاکھ کروڑ روپیے کے پیکیج کو اگر ہائی وے کی جگہ  کسانوں کی بہتری کے لئے خرچ کیا جاتا تو اس سے ملک کی معیشت کو خاصا  زور ملتا اور لاکھوں ضرورت مندوں کی طرز زندگی میں اصلاح ہوتی اور کسانوں کی خودکشی میں کمی کا امکان بڑھ جاتا۔

اگر ہمارے وزیر خزانہ کے ذریعے بڑے کارپوریٹ کے قرض سے ڈوبتے بینکوں کو 2.99کروڑ کا پیکیج دےکر ان کی مالی حالت کو درست کرنے کے بجائے زراعی محکمہ کو یہ پیکیج دیا جاتا تو سست رفتار  ہندوستانی معیشت میں نئی جان آ جاتی اور زیادہ ترغریب اس سے مستفید ہوتے۔

 اگر صرف اتّر پردیش، مہاراشٹر، پنجاب، تمل ناڈو، کرناٹک اور مدھیہ پردیش کے کسانوں پر بقایا قرض کو ختم کر دیا جائے تو  1.8کروڑ کسان پریواروں کو واضح فائدہ ملے‌گا۔

اس حکومت کے خصوصی اقتصادی صلاح کار ارویند سبرمنیم کا یہ کہنا ہے کہ کارپوریٹ گھرانے کا قرض سے پار پانااقتصادی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ رزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل نے کہا کہ کسانوں کی قرض معافی سے ملک کی بیلینس شیٹ گڑبڑ ہو جائے‌گی۔ یہ باتیں اس کا واضح ثبوت ہیں کہ ملک کے اعلیٰ ترین لوگ کسانوں سے زیادہ کارپوریٹ گھرانوں کے فائدے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

کچھ ہی سال پہلے دنیا کے تمام دولت مند ممالک کے بینک دیوالیہ ہو گئے تھے اور ان کی اقتصادی حالت گڑبڑ ہو گئی تھی۔ اس وقت ہمارے ملک میں دیہی معیشت کی وجہ سے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور ہم عالمی قتصادی مار سے بچ گئے تھے۔  مغربی نظام کی نقل سے پنپی سوچ ہماری زراعی معیشت کو نظرانداز  کرنے کے نتیجوں کو واضح طور پر نہیں سمجھ پارہی ہے۔

(بنارس میں رہنے والے صحافی جگ نارائن زراعت اور دیہی معاملات پر لکھتے ہیں۔)