خبریں

’بی جے پی کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس کو راہل کے نانا پرنانا یاد آ رہے ہیں‘

سوشل میڈیا :’جن غدار وطن کو گجرات ماڈل کا سچ جاننا ہو وہ جان لیں کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ جن بےروز گاروں کو روزگار چاہئے وہ جان لیں کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں……

فوٹو پی ٹی آئی

فوٹو پی ٹی آئی

نئی دہلی:ایک ریلی میں راہل گاندھی کے سوم ناتھ مندر جانے پر تبصرہ کرنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ وزیر اعظم کے تبصرہ کو لےکر سوشل میڈیا پر ان کی خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ تمام لوگوں نے اس تبصرہ کو وزیر اعظم کے عہدے کے وقارکے خلاف بتایاہے۔

بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو نے ٹوئٹر پر لکھا،’ناناپرنانا،دادادادی، چچاچچی جیسی فالتو بیان بازی کے بجائے یہ کیوں نہیں بتاتے کتنے گھر دیے، روزگار دیا، اسکول اورہسپتال دیے؟ ہمت ہے تو وہاں جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے فائدے بتاتے!مہنگائی کی بتیاتے۔ کہتے دلت او بی سی یہاں سب خوش ہے۔ کہاں ہے وکاسوا؟ ‘

ایک دوسرے ٹوئٹ میں لالو پرساد نے لکھا، ‘مودی حکومت پارلیامنٹ میں بل منظور کر یہ لازمی کر دے کہ وہی شخص مندر میں داخل ہو سکتا ہے جس کے ناناپرنانا نے مندر بنوایا ہے۔ باقی کے لئے نو انٹری کا بورڈ لگا دیں۔ ‘

غور طلب ہے کہ راہل گاندھی بدھ کو گجرات کے مشہور سوم ناتھ مندر گئے تھے، جس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ‘ آج جن لوگوں کو سومناتھ یاد آ رہے ہیں، ان سے ایک بار پوچھئے کہ تم کو تاریخ پتا ہے؟ تمہارے پرنانا، تمہارے پتاجی کے نانا، تمہاری دادی ماں کے پتا جی، جو اس ملک کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ جب سردار پٹیل سومناتھ کو آزاد کروا رہے تھے تب ان کی بھوویں تن گئیں تھیں۔ ‘

مودی نے کہا، ‘ہندوستان کے صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد کو سردار بلّبھ بھائی پٹیل نے افتتاح کے وقت سومناتھ آنے کی دعوت دی۔ تب تمہارے پرنانا پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر راجیندر پرساد کو خط لکھ‌کر سومناتھ کے پروگرام میں جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ ‘

بدقسمتی سے نریندر مودی نے جس طرح کا سطحی تبصرہ کیا، تمام لوگوں نے  وزیر اعظم کےعہدے کے وقار کو طاق پر رکھ‌کران پر تبصرےکئے۔

نلیش شیوگانوکر نام کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لکھا گیا، ‘مودی اور بی جے پی کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس کو راہل کے نانا پرنانا یاد آ رہے ہیں۔ 18تاریخ کو عوام نانی یاد دلائیں گے۔ ‘

ردر پرتاپ نے لالو یادو کے پوسٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ‘ اگر یہ بل منظور ہو گیا کہ جس کے ناناپرنانا نے ملک کے لئے خون دیا ہے وہی ملک میں رہ سکتا ہے تو سارے بھاجپائی اور سنگھیوں کو ملک چھوڑنا پڑ جائے‌گا۔ ‘

سوشل میڈیا پر سرگرم صحافی و مصنف گریش مالویہ نے فیس بک پر لکھا، ‘ پھر وہی ہندو مسلم کا شگوفہ اچھال‌کر کھڑے ہو گئے، راہل گاندھی کے نانا، سومناتھ کا مندر وغیرہ وغیرہ آپ کہیں‌گے کہ نئے رافیل سودے سے ملک کو اتنا نقصان کیوں ہوا؟ وہ کہیں‌گے کہ راہل گاندھی صحیح ہے کہ نام راہل خان ہونا چاہئے!آپ پوچھیں‌گے کہ جسٹس لویا کی مشتبہ موت کیسے ہوئی؟ وہ بتائیں‌گے کہ نہرو کے کتنی عورتوں کے ساتھ کیسی کیسی فوٹو تھی!آپ کا سوال ہوگا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے چھوٹے کاروباریوں کو تباہ کر دیا؟ ان کا جواب ہوگا کہ اس بار ایودھیا میں کیسی اچھی دیوالی منائی!ان کے لئے تو صرف ایک ہی بات کرنی چاہئے

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ میک ان انڈیا کا، ترقی کا، روزگار کا، معیشت کا کارواں کیوں لٹا، مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے۔ ‘

آزاد سفر نے ٹوئٹ کیا، ‘ گجرات میں حالت اتنی خراب ہے کہ گجرات ماڈل والے نانا پرنانا پر آ گئے کچھ دن انتظار کیجئے، ماں بہن پر بھی آئیں‌گے۔ یہ جھلاہٹ بتاتی ہے کہ گجرات ماڈل کتنا کھوکھلا اور ملک سے بولا گیا کتنا بڑا جھوٹ تھا۔ کیا پورے ملک کو دھوکہ دینے والے کے خلاف عوام کو کارروائی نہیں کرنی چاہئے؟ ‘

گورو نام کے ایک طالب علم نے فیس بک پر تبصرہ کیا، ‘وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اس طرح کا تبصرہ کرنا مجھے نہ بہت الگ لگا اور نہ ہی پریشان ہوا۔ مودی جی نے ہمیشہ نچلی سطح کی سیاست کی ہے۔ گجرات الیکشن میں ساکھ کا سوال ہے تو سب جائز ہے۔ آگے آگے دیکھتے جائیے ابھی اور کتنے گرتے ہیں لوگ۔ ‘

سماجی کارکن اجیت ساہنی نے لکھا، ‘راہل کے نانا معمارملک ہیں، معمار مندر  نہیں صاحب، تم وہ بھی نہ بنا پا رہے، جھانسے دے رہے ہو، وہپ 1800 کروڑ چندہ کھا گیا۔ ‘

اجئے کمار نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘پی ایم کے ناناپرنانا والی تقریر سے یاد آیا کہ سیاست میں مقبول ہونے کے لئے پڑھائی میں پی ایچ ڈی نہیں، گالی گلوچ میں پی ایچ ڈی ہونی چاہئے۔ ‘

صحافی روبی ارون نے فیس بک پر لکھا، “ان کے پرنانا نے نہیں تو آپ کے باپ نے بھی تو نہیں بنوایا نہ حضور……اس وقت جو مندر کھڑا ہے اسے ہندوستان کے وزیرداخلہ سردار بلبھ بھائی پٹیل نے بنوایا اور پہلی دسمبر 1995 کو ہندوستان کے صدر شنکر دیال شرما نے اسے ملک و قوم کو انتساب کیا…… تب ملک میں حکومت، ان کے نانا کی ہی پارٹی کی تھی صاحب عالم!”

ایک دوسرے تبصرہ میں انہوں نے لکھا، سنہ 1297 میں جب دلّی سلطنت نے گجرات پر قبضہ کیا تو اس کو پھر گرایا گیا۔ سوم ناتھ مندر کی تعمیرنو اور تباہی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت جو مندر کھڑا ہے اس کو ہندوستان کے وزیر داخلہ سردار ولّبھ بھائی پٹیل نے بنوایا اور پہلی دسمبر 1995کو ہندوستان کے صدر شنکر دیال شرما نے اس کو ملک کو معنون کیا…… سب سربراہ کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے ہوا اور اس وقت حکومت تو نانا کی پارٹی کی ہی تھی۔ ‘

ڈی یو کے پروفیسر نے فیس بک پر سوال اٹھایا، ‘ میں نے آج تک ایسا کوئی مندر، مسجد، چرچ یا گرودوارا نہیں دیکھا، جہاں مذہب یا جنس کے حساب سے زائرین کا رجسٹر رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ سنتا آیا ہوں کہ کچھ ہندو مندروں میں ایسی جانبداری کی جاتی ہے۔ ہندو مذاہب کے پیروکاروں کے لئے یہ دکھ اور شرم کی بات ہے۔ میں بھی پیدائشی ہندو ہونے کے ناطے اس شرم میں شامل ہوں۔ ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ دنیا کا کوئی مسلک یا عقیدہ رکھنے والا خدا کے سامنے ایسی جانبداری نہیں کرتا۔ ہندو اتنے قدامت پسندکیوں ہیں؟ سوم ناتھ مندر کا مذہبی رجسٹر ہٹنا چاہئے۔ ‘

روشن سنگھ نے ٹوئٹ کیا، ‘قابل احترام مودی جی‌کے مطابق اب مندر وہی جا سکتا ہے جس کے نانا پرنانا نے مندر بنوایا ہو۔ ملک کے تمام نانا سے گزارش ہے کہ وہ ایک ایک مندر ضرور بنوائیں تاکہ ان کی آنے والی نسل مندر جا سکے۔

صحافی ابھشیک شریواستو نے فیس بک پر ایک لمبی پوسٹ لکھ‌کے سناتن ہندو مذہب اور سیاسی ہندو مذہب کے درمیان فرق پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے لکھا، ‘راہل گاندھی کے سناتنی ہونے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ ان کے پسندیدہ دیوتا کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کی ذات، مذہب، راستہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پیدائشی پہچان سناتن ہونے کے آڑے نہیں آتی۔ اپنے یہاں 33 کروڑ دیوی دیوتا ہوتے ہیں۔ گاؤں کے برم بابا، ڈیہہ بابا سے لےکر روجگاریشور مہادیو اور اردھکپاریشور مہادیو تک۔ سناتن کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ سب کو اپنے میں سمو لیتا ہے۔ زبردست طریقے سے تکثیریت ہے۔ ‘

انہوں نے آگے لکھا، ‘دقت تب پیدا ہوتی ہے جب سناتن ‘ ہندو ‘ بن جاتا ہے۔ پھر اس کی سیاسی قدر و قیمت پیدا ہوتی ہے، تو پیچھے سے ‘ ہندو مذہب ‘ آتا ہے۔ ہندو مذہب کو 33 کروڑ دیوتاؤں سے دقت ہے…… سناتن کا تنوع، کثرت، پیچیدگی، پراسراریت، غیرمذہبیت، ہندو یا ہندو مذہب کے لئے ناقابل ہضم ہے۔ سناتن کا ہندو/ہندو مذہب کی شکل میں سخت کر دیا جانا دراصل ایک سیاسی پروجیکٹ ہے۔ مذہب کا سیاست سے کیا لینادینا؟ سناتن مذہب تو پنج عنصری  مذہب تھا۔ قدرت کا، انسان کا مذہب تھا۔

صحافی سروپریہ سانگوان نے فیس بک پر تبصرہ کیا، ‘دوسرے ممالک میں جاکر ملک کی خاصیت بتاتے ہیں کہ ایک سکھ وزیر اعظم رہا، ایک مسلم صدر رہا اور اپنے گھر میں یہ قومی مسئلہ ہے کہ راہل گاندھی ہندو نہیں ہیں۔ ‘

صحافی پرکاش کے رے نے فیس بک پر لکھا، ‘وزیر اعظم مودی نے راہل گاندھی کے دادانانا کی بات لاکر کوئی پہلی بار اپنی سطحی سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ مذہب کو لےکر بھی سنگھی پینترا دے رہے ہیں۔ اس ملک کو بنانے میں نہرو جیسے معمار کی جنم کنڈلی تو تاریخ نے لکھ دی ہے، کوئی کوڑ مغز اور بدذہن نہ جانے، تو اس کی پھوٹی قسمت۔ پر، یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ملک کو بنانے میں ہر شخص کی خدمات رہی ہے۔ اسی لئے میں آپ سبھی سے التجا کر رہا ہوں کہ اپنے دادانانا، دادی نانی کی کہانی لکھیں۔ اس سے دو باتیں ہوں‌گی ایک، ہم اپنے آباو اجداد کو یاد رکھ سکیں‌گے، اور دوسرے کہ ان کی خدمات اور ان کے ہونے کی اہمیت کو نشان زد کر سکیں‌گے۔ تاریخ کوراج پتھ سے گاؤں  محلّے میں لے چلو… ‘

پرسنّ پربھاکر نے فیس بک پر لکھا، ‘اچھا ٹھیک ہے، سردار پٹیل نے نہرو کی خواہش کے خلاف سومناتھ میں مندر قائم کروا دیا۔ آج راجناتھ سنگھ، نریندر مودی کی خواہش کے خلاف ایک قدم بھی اٹھاکے دکھا دیں!اس وقت نہرو نظریہ پسند تھے، تو پٹیل ہم خیال ہوتے ہوئے بھی، جوناگڑھ ریاست کی عوام کے ساتھ کئے وعدے کے ساتھ تھے۔ بات چیت انہوں نے ہی کی تھی۔ یہی باریک فرق ہوتا ہے جب ہم خیال ہوتے ہوئے بھی دو لوگ الگ الگ قدم اٹھاتے ہیں۔ ملے حالات سے فرق آ ہی جاتا ہے۔ ‘

آگے انہوں نے لکھا، ‘ اگر سردار پٹیل کے دل میں شروعات سے اس مندر کے تعمیرنو کا ارادہ ہوتا تو جانے کتنی بار اس واقعہ کے پہلے اس مسئلے کو اٹھا چکے ہوتے۔ لیکن کبھی نہیں اٹھایا۔ واضح ہے-حکمت عملی صرف تھی۔ اس کو نظریاتی بناکر  پیش نہ کیا جائے۔ آج ہم یاد رکھتے ہیں کہ نہرو نے صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد کو بھی روکنا چاہا۔ اس واقعہ کے بعد بھی پٹیل نے نہرو کو اپنا علمبردار مانا اور راجیندر پرساد نے اپنی طرف سے پہل کرتے ہوئے غیرملک گئے نہرو کو بھارت رتن کے لئے نامزد کیا۔ یہ پروپیگنڈہ ہے کہ نہرو نے خود کو بھارت رتن دیا۔ اس وقت پروسس الگ ہوتا تھا۔ آج کے  مودی ہوتے تو راجناتھ سسپنڈ ہو چکے ہوتے اور عزّت مآب صدر کو گالیاں پڑ رہی ہوتیں۔ ‘

مصباح صدیقی نے لکھا، ‘ سوم ناتھ مندر کیا ان (راہل گاندھی) کے نانا کا ہے؟ نہرو سوم ناتھ مندر کے بننے سے خوش نہیں تھے۔ راہل گاندھی نے اپنے آپ کو غیر ہندو لکھا۔ شرم محسوس ہوتی ہے جب اس طرح کی بےحیائی بھاری بیان بازی پردھان سیوک کی طرف سے ہوتی ہے۔ صاحب کسی کو نیچے گرانے کے  چکر میں خود اتنا نیچے مت گرو……’

انل گپتا نے ٹوئٹ کیا، ‘مودی جی کتنی گھٹیا سطح کی سیاست کر رہے ہیں کہ سوم ناتھ مندر راہل کے نانا پرنانا نے نہیں بنوایا تھا۔ اس کا مطلب اس عوامی مندر میں راہل نہیں جا سکتے۔ پرائیویٹ مندر میں بھی کوئی منع نہیں کرتا ہے۔ کیا مودی جی‌کے پاس کوئی اور موضوع نہیں ہے؟ یہ الیکشن میں ناامیدی تو نہیں ہے؟ ‘

پنکج سنگھ نے فیس بک پوسٹ میں لکھا، ‘جن غدار وطن کو گجرات ماڈل کا سچ جاننا ہو وہ جان لیں کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ جن بےروز گاروں کو روزگار چاہئے وہ جان لیں کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ جن کسانوں کو اپنی فصل کی مناسب قیمت چاہئے وہ جان لے کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ جن غدار وطن کو کالے دھن میں حصےداری چاہئے وہ جان لے کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ جن لوگوں کو اچھے دن دکھائی نہیں دے رہے ہیں وہ جان لے کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ جن لوگوں کو نیو انڈیا بننے پر شک ہو وہ یہ جان لیں کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ جن لوگوں کو جے شاہ کا دھنیا والا فارمولا سمجھ نہیں آ رہا ہے وہ یہ جان لے کہ راہل گاندھی مسلمان ہیں۔ سب مسئلوں کا ایک حل، راہل گاندھی ہیں مسلمان۔ ‘