خبریں

ہندوستان کو اپنی مسلم آبادی کی قدر کرنی چاہیے: براک اوباما

یہ پوچھے جانے پر کہ جب اوباما نے  مذہبی رواداری کی ضرورت اور کسی بھی مذہب کے ماننے کے حق پر زور دیا تو مودی کا کیا ردعمل تھا ،انہوں  نے کہا وہ اس بارے میں زیادہ تفصیل سے بات نہیں کرنا چاہتے۔

U.S. President Barack Obama delivers remarks at the dedication ceremony for the Edward M. Kennedy Institute for the United States Senate, in Boston March 30, 2015. REUTERS/Jonathan Ernst

U.S. President Barack Obama delivers remarks at the dedication ceremony for the Edward M. Kennedy Institute for the United States Senate, in Boston March 30, 2015. REUTERS/Jonathan Ernst

نئی دہلی:امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے جمعہ کو کہا کہ ہندوستان کو اپنی مسلم آبادی کی قدر کرنی چاہیے اور ان کا دھیان رکھنا چاہیے جو خود کو اس ملک سے جڑا ہوا اور ہندوستانی مانتے ہیں۔اوباما نے ہندوستان ٹائمس لیڈرشپ سمٹ میں کہا کہ اس خیال کو مضبوط کئے جانے کی ضرورت ہے۔

 سابق امریکی صدر نے اپنے خطاب اور اس کے بعد سوال جواب کے سیشن میں کئی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔انہوں نے اس دوران منموہن سنگھ کے ساتھ اپنے  رشتے ،دہشت گردی ،پاکستان، اسامہ بن لادن کی تلاش کے علاوہ  ہندوستانی دال اور قیمہ کے بارے میں باتیں کیں ۔سابق صدر نے کہا کہ سال 2015 میں بطور صدر ہندوستان کے آخری دورے پر انہوں نےوزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بند کمروں میں ہوئی بات چیت  کے دوران مذہبی رواداری کی ضرورت اور کسی بھی مذہب کو ماننے کے حق پر زور دیا تھا۔

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ مزیدار دال بنا سکتے ہیں لیکن روٹی بنانا انتہائی مشکل ہے۔مسٹر اوباما نے ’ایچ ٹی لیڈرشپ سمٹ‘میں کہا کہ کالج کے زمانے میں ہوسٹل میں ساتھ رہنے والے ہندوستانی اور پاکستانی ساتھیوں کی ماؤں سے انہوں نے اچھی دال بنانے کی ترکیبیں سیکھی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ میں اکلوتا ایسا امریکی صدر رہا ہوں جو دال بنانا جانتا ہے۔ میں  قیمہ اور چکن بھی بنالیتا ہوں‘‘۔

سال 2009 سے 2017 کے درمیان امریکہ کے صدر رہے اوباما نے اپنے سفر کے آخری دن بھی اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا۔ہندوستان سے جڑے ایک سوال کے جواب میں اوباما نے ملک کی بڑی مسلم آبادی کا ذکر کیا، جو خود کوملک سے جڑا ہوا اور  ہندوستانی مانتی ہے۔اوباما نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ دیگر ممالک کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔انہوں نے کہا یہ کچھ ایسا ہے جس کی قدر کرنے کی ضرورت ہےاور اس کو مسلسل مستحکم کیا جاناچاہیے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ جب انہوں نےمذہبی رواداری کی ضرورت اور کسی بھی مذہب کے ماننے کے حق پر زور دیا تو مودی کا کیا ردعمل تھا ،اوباما نے کہا وہ اس بارے میں زیادہ تفصیل سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان سے دہشت گردی کی تشہیر سے جڑے ایک سوال کے جواب میں اوباما نے کہا،’ہمارے پاس ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہو کہ پاکستان کی حکومت کو اسامہ بن لادن کے وہاں ہونے کے بارے میں کوئی جانکاری تھی، لیکن اس پر ہم نے ظاہر ی طور پر غور کیا۔ جو میں نے کہا، اس کے آگے غور کرنے کے لئے اس کو میں آپ کےاو پر چھوڑتا ہوں۔ ‘

واضح ہو کہ امریکی فوج نے مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں حملہ کرکے اسامہ کو مار گرایا تھا جو اپنی فیملی اور قرابتداروں کے ساتھ چھپ‌کر وہاں رہ رہا تھا۔انہوں نے کہا، ‘جب نومبر 2008 میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ ہوا،تودہشت گردوں کے  نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لئے امریکہ بھی ہندوستان کی طرح  ہی بے چین تھا اور حکومت ہند کی مدد کے لئے امریکی خفیہ محکمے کے جوانوں کی تعیناتی کی گئی۔ ‘

پاکستان سے پیدا دہشت کے بارے میں پوچھے جانے پراوباما نے کہا کہ پریشانی کے پس پردہ  یہ نظریہ ہے کہ پاکستان کی کچھ خاص دہشت گرد تنظیم اور پاکستان کے اندر مختلف سرکاری اداروں سے منسلک عناصر  کے درمیان تعلقات ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ ہندوستان اور امریکہ کی ایٹمی توانائی کمپنیوں جی ای اور ویسٹنگ ہاؤس کے درمیان ہندوستان میں ایٹمی ریئکٹر بنانے کی سمت میں سست رفتاری سے مایوس ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کا کا رول امریکی کمپنیوں کو موقع فراہم کرانا تھا۔اوباما نے کہا کہ امریکہ نے ہندوستان کو 48 رکنی ایٹمی فراہم کنندہ گروپ میں جگہ دلانے کے لئے بہت محنت کی۔ انہوں نے کسی ملک کا نام لئے بغیر کہا، ہمیں ہر ملک سے تعاون نہیں ملا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اس کے لئے چین کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اوباما نے کہا، عالمی معاملات میں، کسی خاص ملک کے منشاء میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔ میں واضح طور پر یہ کہنے کا خطرہ  نہیں لوں‌گا کہ چین کے اعتراضات اس کے مقابلہ جاتی نظریے پر مبنی ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا اور یواین آئی اردو کے ان پٹ کے ساتھ)