ادبستان

بک ریویو:بھارت کے راج نیتا:علی انور

ذات پات کے سوال پر اگر آپ سوچتے ہیں تو آپ کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے اور علی انور کی دیگر تحریر و تقریر سے بھی آشنا ہونا چاہیے۔

Ali Anwar PB

 

علی انور بہار سے راجیہ سبھا کے  ایم پی ہیں مگر عام لوگ انہیں پسماندہ تحریک سے وابستہ ہونے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ سماجی تحریک اور سیاست میں قدم رکھنے سے قبل علی انور ہندی زبان کے ایک جانے مانے صحافی تھے۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آئی  )کےجن شکتی اخبار سے کیا۔  بعد کے دنوں میں وہ نوبھارت ٹائمس اور جن ستاجیسے  بڑے قومی اخبار سے بھی وابستہ رہے۔ بطور صحافی علی انور نے ذات پات کے تعصب پر کئی ساری رپورٹ لکھیں۔ سال 2002 میں ان کی مطبوعہ کتاب “مساوات کی جنگ” نے لوگوں کو مسلم سماج  کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ عطا کیا۔ زیر تبصرہ کتاب بھارت کے راج نیتا: علی انور(مرتبہ ،راجیو سمن) کی خدمات کے اعتراف میں شائع کی گئی ہے۔ جس میں پارلیامنٹ میں کی گئی  ان کی تقریروں کے ساتھ ان کا ایک طویل انٹرویوشامل  ہے۔

علی انور کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے پسماندہ اصطلاح کو مقبول بنایا جو کہ ایک فارسی لفظ ہے۔ مساوات کی جنگمیں علی انور نے واضح کیا ہے کہ اس لفظ کا مطلب ہے پیچھے چھوٹے ہوئے۔ چند پسماندہ ذاتیاں ہیں-لال بیگی، حلال خور، موچی، بھٹیارہ، پمریا، نٹ، بکھو، ڈفالی، دھوبی، سائیں، رنگ ریز، چک، مرسیقار و درزی، اگر ہم عام زبان میں کہیں تو پسماندہ شودر وہ دلت ہیں جن کے اسلاف نے صدیوں پہلے ذات پر مبنی ظلم و ستم سے نجات پانے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے۔ مگر مذہب بدلنے سے ان کے ساتھ ہو رہےتعصب اور غیر مساوی سلوک پوری طرح سے ختم نہیں ہوا۔ اصولاً اسلام مساوات اور بھائی چارے کا حامی ہے مگر مسلم معاشرے میں اونچ نیچ پائی جاتی ہے۔ اونچ نیچ کی کھائی اتنی گہری اور خطرناک ہے کہ کبھی کبھی اشرف مسلمان مسجدوں اور قبرستانوں میں دلت مسلمانوں کو داخل نہیں ہونے دیتے۔ مسلمانوں میں شرفا برادری کے لوگ پسماندہ مسلمانوں کے یہاں شادی بیاہ کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ ان تمام مسئلوں کو علی انورنے پورے زور و شور کے ساتھ پارلیامنٹ میں اٹھایا۔ 11 اگست 2006 کو  راجیہ سبھا میں بولتے ہوئے علی انور نے کہا؛

“میں کہنا چاہتا ہوں کہ تین الفاظ ہیں اشراف، اجلاف، ارذال ۔ محترم یہ اردو کے الفاظ نہیں ہیں یہ فارسی کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ خالص عربی کے الفاظ ہیں۔ اس لیے ان کے سماج میں جب اس طرح کی بیماری نہیں تھی تو یہ ان کی لغت میں کہاں سے آئے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ ہمارے پیغمبر ہمارے آخری نبی نے اس کی لڑائی لڑی۔ ان کا آخری خطبہ حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔ مولانا عبیداللہ خاں اعظمی صاحب یہاں نہیں ہیں ہم ان کو بتانا چاہتے تھے کہ ہمارے آخری نبی نے یہ ہدایت دی تھی کہ نہ گورے کو کالے پر، نہ کالے کو گورے پر، نہ عرب کو عجمی پر، نہ عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت  حاصل ہے۔ص: 76″۔

علی انور کی اس دلیل سے پہلے ماہر عمرانیات امتیاز احمد نے بھی مانا ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات کے لیے صرف ہندو مذہب کو ذمہ دار ٹھہرانا پوری حقیقت نہیں ہے۔ ان کے مطابق مسلم سماج میں اگر ذات پات ابھی بھی جڑ جمائی ہوئی ہے تو اس کے پیچھے مسلمانوں کے اندر نسل اور شجرہ کو لے کر پائے جا رہے احساس برتری کا رول ہے۔ تبھی تو علی انور تمام مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سماجی اور تعلیمی طور پر پچھڑے ہی اس کے مستحق ہیں اورمذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ملنا چاہیے۔ ان کی اس رائے کی مخالفت میں جو دلیل دی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اشرف مسلم بھی مسلم ہونے کی وجہ سے تعصب کے شکار ہیں۔ علی انور جہاں مذہب کی بنیاد پر پوری مسلم آبادی کو ریزرویشن دینے کی مخالفت کرتے ہیں وہیں دوسری جانب مذہب کی بنیاد پر دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو ایس سی درجے سے باہر رکھنے کے حکومتی فرمان سے بھی نالاں ہیں۔

ویڈیو :  علی انور انصاری کے ساتھ جے ڈی یو میں بٹوارہ ،بہار کی سیاسی صور ت حال ،گجرات انتخابات اور ہندوستان میں پسماندہ مسلم تحریک کے متعلق دی وائر اردو کی  بات چیت

واضح رہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا 1935 ایکٹ میں دلت مسلم اور دلت عیسائی کو ریزرویشن ملتا تھا جس کو آزادی کے بعد ختم کر دیا گیا۔ 1950 کے صدارتی فرمان کے تحت دلت عیسائی اور دلت مسلم کو یکایک شیڈول کاسٹ زمرے سے باہر کر دیا گیا۔ اس فرمان میں صاف طور پر لکھا گیا جو ہندو مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کو مانتا ہے وہ شیڈول کاسٹ زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ بعد میں اس فرمان میں ترمیم کیا گیا اور سکھ اور بدھ مذہب کے ماننے والے لوگوں کو ایس سی زمرے میں شامل کیا گیا۔ اس کے پیچھے جو دلیل دی گئی وہ یہ تھی کہ  چھوا چھوت اور ذات پر مبنی تعصب صرف ہندو مذہب کا حصہ ہے اور جنھوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام اور عیسائیت قبول کر لی وہ اس طرح کے ریزرویشن کے مستحق نہیں ہیں۔ مگر علی انور اس طرح کی دلیلوں کو پوری طرح خارج کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ دلت چاہے ہندو ہو، مسلم ہو، عیسائی ہو یا دیگر مذہب کا ہو اسے ہر روز تعصب اور ظلم جھیلنا پڑتا ہے اس لیے دلت عیسائی اور دلت مسلمان کو بھی دلت ہندوؤں، بدھوں اور سکھوں کے مواقف ایس سی کا درجہ ملنا چاہیے تاکہ وہ تعلیم، نوکری اور اقتدار میں اپنی حصہ داری حاصل کر سکیں۔ پارلیامنٹ میں دلت مسلمان اور دلت عیسائی کے مسئلوں نے علی انور نے اکثراٹھایا ہے  اور آگے کہتے ہیں کہ؛

  “یہ تعصب صرف مسلمان سماج کی بیماری نہیں ہے یہ عیسائی سماج میں جو دلت عیسائی ہے ان کے بھی چرچ الگ الگ ہیں۔ ان کے بھی قبرستان الگ الگ ہیں۔ اس لیے نام بھی ملتا جلتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ادھر ایک مسلم دھوبی ہے تو ادھر ہندو دھوبی شیڈول کاسٹ ہے، تو مسلمان دھوبی شیڈول کاسٹ کیوں نہیں ہوگا۔ کپڑا وہ بھی دھوتا ہے، کپڑا وہ بھی دھوتا ہے، ان کا نام شیام رجک ہے، وہ منتری بنتا ہے یہاں رحمان رجک ہے جو دھوبی گھاٹ پر گدھے کے ساتھ کپڑا دھوتے دھوتے وہیں مر جاتا ہے۔ ص: 74)”

ذات پات کے سوال پر اگر آپ سوچتے ہیں تو آپ کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے اور علی انور کی دیگر تحریر و تقریر سے بھی آشنا ہونا چاہیے۔ کتاب میں ٹائپنگ اور پروف کی بیشمار غلطیاں رہ گئی ہیں جنہیں دوسرے ایڈیشن میں ضرور دور کیا جائے۔ کتاب کے مدیر نے جو مقدمہ لکھا ہے وہ اور بہتر ہوسکتا تھا۔ ان  نقائص کے باوجود  اس طرح کی کتاب منظر عام پر آنی چاہئے جو سماج کے حاشیے میں چل رہے بحث ومباحثہ کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔