فکر و نظر

کیا بی جے پی واقعی سیاست میں پریوار واد کے خلاف ہے؟

کانگریس کے صدر عہدے پر راہل گاندھی کی تاج پوشی ہو چکی ہے۔جمہوریت کابھرم  بچائے رکھنے کے لئے بھی بہت کچھ کیا گیا۔ اس درمیان  وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات کی الیکشن ریلی میں کانگریس کے پریوار واد پر حملہ کیا تو ان کی مغلوں سے محبت بھی چھلک اٹھی۔

ٖفوٹو پی ٹی آئی

ٖفوٹو پی ٹی آئی

مخالف جماعتوں کی ہر بات کو ہندو مسلم کے آئینے میں دیکھنے کو بےتاب بی جے پی گجرات الیکشن میں بار بارمغلوں اور بابر کو یاد کر رہی ہے۔ مودی نے کانگریس کے صدر عہدے پر راہل کی تاج پوشی کو ‘اورنگ زیبی راج’بتایا اور اس کا موازنہ مغل حکمرانوں میں نسل در نسل چلنے والی  روایت سے کیا۔وزیر اعظم کی پریوار واد  مخالف تقریروں کو سن‌کر لگتا ہے کہ ان کی پارٹی اس سے آزاد ہوگی۔ لیکن بی جے پی سمیت پورے راجگ اتحاد کو دیکھیں تو نریندر مودی کی یہ بات بھی ان اچھے دنوں کی طرح ہے، جن کو کبھی آنا نہیں ہے۔اس کا زمینی حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔جس گاندھی خاندان کا مقابلہ نریندر مودی اورنگ زیبی راج  سےکر رہے ہیں، اسی خاندان کا ایک کنبہ خود بی جے پی میں معززہے۔ گاندھی خاندان کی بہو مینکا گاندھی مرکز میں وزیر ہیں اور ان کے بیٹے ورن گاندھی رکن پارلیامنٹ ہیں۔

بی جے پی میں نظرانداز ہوچکےسابق وزیر خزانہ یشونت سنہاان دنوں پارٹی کی اندرونی جمہوریت قائم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ،ان کے بیٹے جینت سنہا بھی مرکز کی مودی حکومت میں وزیر ہیں۔مرکزی وزیر روی شنکر پرساد بھی اسی پریوار واد پر اگے پھول ہیں۔ ان کے والد ٹھاکر پرساد جن سنگھ کے بڑے رہنماؤں میں شمار کیے جاتےتھے۔ وہ بہارحکومت میں وزیر رہ چکے تھے۔ حالانکہ، روی شنکر پرساد کا پریوارواد پر حملہ دیکھتے بنتا ہے۔مرکزی حکومت میں وزیر پیوش گوئل کے والد وید پرکاش گوئل اٹل بہاری واجپئی حکومت میں وزیر تھے۔ بی جے پی کے قدآور رہنما رہے کلیان سنگھ راجستھان کے گورنر ہیں۔ ان کے بیٹے راجویر سنگھ رکن پارلیامنٹ ہیں۔ ان کی بہو بھی سیاست میں فعال ہیں اور انتخاب لڑ چکی ہیں۔ کلیان سنگھ کے نواسہ سندیپ سنگھ بھی ایم ایل اے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے بیٹے پنکج سنگھ بی جے پی سے ایم ایل اے ہیں۔ اتر پردیش کی سیاست میں فعال بہوگونا فیملی سے ریتا بہوگونا جوشی کانگریس سے بی جے پی میں آئی ہیں اور یوگی حکومت میں وزیر ہیں۔ اتراکھنڈ کی سابق  وزیراعلیٰ  ریتا بہوگنا کے بھائی وجے بہوگونا بھی فی الحال بی جے پی میں ہیں۔وجے راجے سندھیا کی بیٹیاں وسندھرا اور یشودھرا سیاست میں ہیں۔ وسندھرا راجے دوسری بار وزیراعلیٰ کی کرسی پر ہیں۔ ان کی بہن یشودھرا راجے مدھیہ پردیش ریاستی حکومت میں وزیر ہیں۔ وسندھرا کے بیٹے دشینت سنگھ بی جے پی رکن پارلیامنٹ ہیں۔چھتّیس گڑھ کے وزیراعلیٰ رمن سنگھ کے بیٹے ابھیشیک سنگھ سیاست میں ہیں۔ پریم کمار دھومل کے بیٹے انوراگ ٹھاکر  بی جے پی کے نوجوان اورقدآور رہنماسمجھے جاتے ہیں۔

اترپردیش میں رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے بیٹے پرتیک بھوشن اس بار انتخاب لڑ‌کر ایم ایل اے بنے ہیں جن کے لیے  انتخابی جلسہ میں خودنریندر مودی تشہیر کرنے گئے تھے۔گونڈہ میں نریندر مودی کا جلسہ ہوا تھا، جس میں نریندر مودی نے گونڈہ میں تعلیمی مافیا کے فعال ہونے کا ذکر کیا تھا۔ منچ پر بیٹھے برج بھوشن شرن سنگھ کے تین درجن سے زیادہ اسکول اور کالج ہیں۔ سابق کانگریسی رہنما این ڈی تیواری بھی اپنے بیٹے کے ساتھ بی جے پی میں موجود ہیں۔بی جے پی کے مرحوم رہنماؤں کے بیٹےبیٹیوں کو بھی ان کے رہتے یا بعد میں سیاست میں اتارا گیا۔ مدھیہ پردیش میں دلیپ سنگھ بھوریا کی بیٹی نرملا بھوریا، مہاراشٹر میں مرحوم پرمود مہاجن کی بیٹی پونم مہاجن، گوپی ناتھ منڈے کی بیٹیاں پنکجا منڈے اور پریتم منڈے کو فعال سیاست میں حصےداری اور عہدے ملے۔دہلی میں صاحب سنگھ ورما کے بیٹے پرویش ورما بھی رکن پارلیامنٹ ہیں۔سردار سداشیو راؤ مہادک کی بیٹی گائتری راجے مہادک، جو مرحوم تکوجی راؤ کی بیوی ہیں، ان کو بھی مدھیہ پردیش کی سیاست میں اتارا گیا۔ وہ ایم ایل اے ہیں۔ یہ فیملی مدھیہ پردیش کی سندھیا فیملی کی قریبی ہے۔

کانگریسی رہنما بھگوت جھا آزاد کے بیٹے کیرتی آزاد بی جے پی سے ہی رکن پارلیامنٹ بنے، بعد میں ان کو ارون جیٹلی کے خلاف بد عنوانی کو لےکر مورچہ کھولنے پر پارٹی سے معطل کیا گیا، حالانکہ، وہ اب بھی رکن پارلیامنٹ ہیں۔ لالو کے بیٹے تیجسوی یادو کی طرح وہ بھی کرکٹر سے رہنما بنے۔لال بہادر شاستری کی فیملی بھی سیاست میں آئی اور ابھی تک بنی ہوئی ہے۔ شاستری کی امیج ایماندار رہنما کی رہی ہے، وہ کانگریس پارٹی سے وزیر اعظم بنے تھے لیکن ان کی اولادوں کو بی جے پی میں  جگہ ملی ہے۔

اترپردیس حکومت میں وزیر سدّھارتھ ناتھ سنگھ لال بہادر شاستری کی بیٹی سمن شاستری کے بیٹے ہیں۔ شاستری کے بیٹے انل شاستری کانگریس میں ہیں اور ان کے بیٹے آدرش شاستری عام آدمی پارٹی سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔بہار میں لالو کو پریوارواد کے لئے کوسا جاتا رہا ہے، لیکن اسی بہار میں پچھلے اسمبلی انتخاب کے دوران بی جے پی کے تین رکن پارلیامنٹ کے بیٹوں کو ٹکٹ دیا۔ ڈاکٹر سی پی ٹھاکر کے بیٹے وویک ٹھاکر، اشونی چوبے کے بیٹے ارجیت شاشوت اور حکم دیو نارائن یادو کے بیٹے اشوک کمار یادو کو بہار اسمبلی انتخاب میں اتارا گیا۔ چارا گھوٹالہ میں قصوروار ٹھہرائے جا چکے جگنّاتھ مشر کے بیٹے نتیش مشر بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے۔

بی جے پی کی معاون پارٹی لوک جن شکتی پارٹی (لوجپا)سپریمو رام ولاس پاسوان کےبیٹے چراغ پاسوان بھی رکن پارلیامنٹ ہیں۔ رام ولاس پاسوان کے بھائی پشوپتی کمار پارس اسی انتخاب میں الولی سے انتخاب لڑے اور ہارے۔لوجپا رکن پارلیامنٹ رام چندر پاسوان کےبیٹے پرنس راج کلیان پور سیٹ سے پہلی بار انتخابی میدان میں تھے، حالانکہ عوام نے ان کو بھی قبول نہیں کیا۔ لوجپا نے کھگڑیا سے رکن پارلیامنٹ چودھری محبوب علی قیصر کے بیٹے محمّدیوسف صلاح الدین کو میدان میں اتارا اور وہ 37 ہزار ووٹ کے فرق سے انتخاب ہار گئے۔بہار میں بی جے پی کی مددگار پارٹی ہے ‘ ہم ‘ یعنی ہندوستانی عوام مورچہ۔ اس کے مکھیا جیتن رام مانجھی کے بیٹے سنتوش کمار سمن اسمبلی انتخاب میں کٹنبا محفوظ سیٹ سے انتخابی میدان میں تھے، لیکن ہار گئے۔ ہم کےریاستی صدر شکونی چودھری کے بیٹے راجیش چودھری کھگڑیا سے انتخاب لڑے اور ہار گئے۔

ہم کے قدآور رہنما نریندر سنگھ کے بیٹے اجئے پرتاپ کو بی جے پی نے جموئی سے امیدوار بنایا تھا، وہ بھی انتخاب ہار گئے۔ نریندر سنگھ کے دوسرے بیٹے سمیت کمار کو چراغ پاسوان کی مخالفت کی وجہ سے جموئی سے ٹکٹ نہیں ملا تو وہ چکائی سے آزاد امید وار کے طور پرانتخاب لڑےاور  ہار گئے۔مودی جی نے لوک سبھا انتخاب کے بعد ریاستوں کے انتخاب میں بھی پریوارواد کو موضوع بنایا، لیکن مہاراشٹر اور کشمیر میں بی جے پی اسی پریوارواد کی کشتی پر سوار ہوکر اقتدار کے سمندر میں سیر کر رہی ہے۔کشمیر میں مفتی محمّد سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کی پارٹی سےان کا اتحاد ہے۔ وہاں بی جے پی نے پہلے مفتی محمّد سعید کو وزیراعلیٰ بنایا، ان کی وفات کے بعد اب محبوبہ وزیراعلیٰ ہیں۔ مہاراشٹر میں تین پشتوں والی شیوسینا سےان کا اتحاد ہے۔

پنجاب میں بی جے پی کی مددگار پارٹی ہے اکالی دل۔ پرکاش سنگھ بادل وزیراعلیٰ تھے، ان کے بیٹے نائب وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی بہو مرکز میں وزیر ہیں۔ داماد اور بیٹے کے سالے کو بھی حکومت میں عہدوں سے نوازا گیا۔ جس طرح اتر پردیش میں ملائم سنگھ کی فیملی سے سب سے زیادہ ممبر سیاست میں فعال ہیں، اسی طرح بادل فیملی ایسی ہے جس کے سب سے زیادہ ممبروزیر بن چکے ہیں۔بی جے پی کے پتامہ اٹل بہاری واجپئی جب وزیر اعظم تھے تب ان کے متبنی داماد رنجن بھٹّاچاریہ کا پی ایم او میں جلوہ تھا۔ رنجن بھٹّاچاریہ اٹل بہاری واجپئی کی دوست راج کماری کول کے داماد تھے۔اٹل جی‌کے وقت میں کہا جاتا تھا کہ راجگ حکومت میں  اقتدار انہی کے ہاتھ میں تھا۔ لیکن راجگ حکومت کے جاتے ہی وہ بھی غائب ہو گئے۔ بعد میں ان کا نام نیرا راڈیا ٹیپ معاملہ میں آیا۔

کانگریسی رہنما اور ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کو آج بی جے پی اپنا مثالی رہنما بناکر پیش کرتی ہے، ان سردار پٹیل کی بھی فیملی سیاست میں آئی۔سردار ولّبھ بھائی پٹیل کے بڑے بھائی وٹھل بھائی پٹیل نے سی آر داس اور موتی لال نہرو کے ساتھ سوراج پارٹی بنائی تھی۔ وٹھل بھائی پٹیل 1925 میں سینٹرل لیجس لیٹیو اسمبلی کے صدر اوراسپیکر تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی سردار ولّبھ بھائی پٹیل وزیر داخلہ بنے۔ دونوں بھائی اپنےاپنے طریقے سے تحریک آزادی میں فعال تھے۔سردار پٹیل کی موت کے بعد جواہرلال نہرو نے 1952 میں ان کی بیٹی منی بین کو لوک سبھا کا ٹکٹ دیا۔ اس پر تنازع ہوا تو نہرو نے کہا کہ وہ پٹیل کی بیٹی ہیں مگر 1930سے وہ آزادی کی لڑائی میں شامل ہیں۔1957 میں سردار پٹیل کی بیٹی منی بین پٹیل اور بیٹے دیابھائی پٹیل دونوں لوک سبھا کا انتخاب لڑ‌کر پارلیامنٹ پہنچے۔ بعد میں منی بین پٹیل راجیہ سبھا کی ممبر بھی ہوئیں۔

ملک میں کون سی پارٹی ہے جس پر آپ اطمینان جتا سکتے ہیں؟ کمیونسٹ پارٹیوں کو چھوڑ‌کر تمام پارٹیاں فرد یا فیملی کی روایت کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ بی جے پی کا مطلب آج صرف نریندر مودی  ہے اور کانگریس کا مطلب ہے صرف گاندھی فیملی۔باقی پارٹیوں پر غور کریں،راجد (لالو فیملی)،سپا (ملائم فیملی)،اکالی دل(بادل فیملی)نیشنل کانفرنس (عبداللہ فیملی)، لوک دل (چوٹالا فیملی)، این سی پی (پوار فیملی)، ڈی ایم کے (کروناندھی فیملی)، بسپا (مایاوتی) عام آدمی پارٹی (کیجریوال)، جےڈی یو (نتیش کمار)، شیو سینا (ٹھاکرے فیملی)، بیجو جنتا دل (پٹنایک فیملی)ترنمول کانگریس (ممتا بنرجی)۔ ان میں سے آپ کس کے پریوارواد یا شخصیت پرستی کی حمایت میں کھڑے ہوں‌گے اور کیوں؟

اگر پریوارواد برا ہے تو گاندھی، لالو یادو  اور ملایم یادو کا ہی پریوارواد ہی کیوں ؟ باقی پورے ملک کی پارٹیوں کی طرح بی جے پی میں بھی اتنے سارے پریواروں کا پریواردواد کیسے اچھا ہے، اگر باقیوں کا برا ہے؟پریوار واد کے مسئلے پر کانگریس پر سب سے زیادہ حملے بی جے پی کرتی ہے جو یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ وہ  خود اس سے آزاد ہے؟ کانگریس نے امت شاہ کے صدر بننے کے پروسس کے بارے سوال پوچھا ہے جس کا بی جے پی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔کانگریس پارٹی کی بنیاد1885 میں پڑی۔ سوا سو سال پرانی پارٹی میں قابض گاندھی فیملی کے راہل چھٹی پشت ہیں۔ بی جے پی کی بنیاد 1980 میں پڑی۔ اس کی عمر فی الحال 37 سال ہے۔ 37 سال کی جوان پارٹی میں اتنی فیملی فعال ہیں۔

جب بی جے پی 100 سال پرانی ہوگی، تب کے بارے میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بی جے پی جس رفتار سے پریواروں کوجگہ دے رہی ہے، بہت جلدی سب کو پیچھے چھوڑ دے‌گی۔بی جے پی کے  بننے کے بعد کچھ مثالوں کو چھوڑ‌کر تقریباً تمام لیڈروں کی فیملی سیاست میں ہیں۔ بی جے پی کی اس  مخالفت کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی اس کی گرفت میں ہے اور باقی جماعتوں کو پیچھے چھوڑتی نظر آ رہی ہے۔ کیا نریندر مودی بی جے پی میں بھی فعال پریواروں کا موازنہ  مغلوں کےپریوار واد سے کرنا پسند کریں‌گے؟