خبریں

ضمانت کے بعد بھی 26سال کاٹی سزا، عدالت نے دیا رہائی کا حکم

سلطان پورسیشن کورٹ نے 1982میں ایک شخص کو اپنے بھتیجے کے قتل کے جرم میں عمرقید کی سزا سنائی تھی۔

فوٹو پی ٹی آئی

فوٹو پی ٹی آئی

لکھنؤ :انصاف میں تاخیر کے جھنجھوڑ  دینے والے ایک معاملے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے قتل کے مجرم  ایک شخص کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عمر قید کی سزا کاٹ رہے اس شخص کو ضمانت ملنے کے باوجود تقریباً26سال قید میں گزارنے پڑے۔ اس میں سے 22 سال اس نے علاج کے لئے ہاسپٹل میں گزارے ۔مجرم کا اب بھی علاج چل رہا ہے اور اس کی حالت سنگین ہے۔ عدالت نے حالانکہ اس کو مجرم قرار دیے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھاہے، لیکن سزا کو صرف 26 سال کی عمر قید تک محدود کر دیا، جو وہ پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔جسٹس مہیندر دیال اور جسٹس دنیش کمار سنگھ کی بنچ نے تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد سوموار کو مکمل انتظام، خاص طور پر ناگیشور کے وکیل کے لچیلے رویے،پر سخت تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ تاخیرسے ملنے والے انصاف میں انصاف نہیں رہ جاتا۔

قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ  رہے مجرم ناگیشور سنگھ کو ہائی کورٹ کی  لکھنؤ بنچ سے ضمانت ملنے کے بعد بھی قریب 26 سال جیل میں گزارنے پڑے۔ اس میں بھی اس کے 22 سال دماغ کے علاج کے لیے ہاسپٹل میں بیت گئے۔ وہ 25 سال بعد ضمانت پر باہر آیا۔ اس کے بعد وکیلوں کی پیروی نہیں کرنے کی وجہ سے پولیس نے اس کو سال بھر پہلے پھر جیل میں ڈال دیا۔استغاثہ  کے مطابق ناگیشور سنگھ پر الزام تھا کہ اس نے 19دسمبر 1981 کو اپنے پانچ سالہ بھتیجے کا کلہاڑی سے قتل کر دیا  تھا۔ ناگیشور اپنے بھائی پر گاؤں کے دو لوگوں کے ساتھ دیوانی کے ایک مقدمہ میں صلح کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا۔بھائی کے نہیں ماننے پر اس نے اپنے بھائی کی بیوی پر حملہ کیا اور جب وہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کو لےکر  بھاگی تو ناگیشور نے اس پر پوری طاقت سے کلہاڑی چلائی۔ کمر پرسنگین چوٹ لگنے سے بچے کی فوراً موت ہو گئی۔ مرنے والے  کے والد نے اسی دن واقعہ کی رپورٹ سلطان پور ضلع کے تھانہ بلدی رائے پر لکھائی۔

یہ معاملہ کچھ ایسا ہے۔ سلطان پور سیشن کورٹ  نے 24 اگست 1982 کو ناگیشور کو بھتیجے کے  قتل میں عمر قید کی سزا دی لیکن 1982میں ہی 30 ستمبر کو اس کوہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔ ضمانت کے کاغذ داخل نہیں کر پانے کی وجہ سے وہ جیل میں ہی رہا۔ ناگیشور کو 24 فروری 1986 کو نینی جیل سے وارانسی کے ہاسپٹل بھیج دیا گیا۔اس کو 21 سال بعد مارچ 2007 میں ہاسپٹل سے پھر نینی جیل بھیجا گیا۔ اس بیچ ضمانت کے دستاویز داخل ہو چکے تھے۔ وہ 10مارچ 2007 کو ضمانت ملنے کے ساڑھے 24 سال بعد نینی جیل سے رہا ہوا۔ہائی کورٹ میں اس کی اپیل پر وکیلوں نے جانا بند کر دیا۔ نومبر 2015میں اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا۔ ناگیشور کو 15 فروری 2016 کو گرفتار کیا گیا اور سلطان پور جیل بھیج دیا گیا اور اب جاکر وہ دسمبر میں جیل سے باہر آ پایا۔

اس معاملے میں سیشن کورٹ نے 24 اگست 1982 کو ناگیشور کو عمر قید کی سزا سنائی جس کو اس نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ کورٹ نے تین ستمبر 1982 کو اپیل، بحث کے لئے منظور کر  لیا اور اس کو ضمانت دے دی۔ لیکن 11 سال تک ناگیشور ضمانت دینے والوں کا انتظام نہیں کر پایا اور  آخر کاراس کا انتظام ہونے کے بعد بھی وہ 10 مارچ 2007 کو جیل سے رہا ہو پایا۔رہائی میں اتنے سال کیوں لگ گئے اس کا کوئی ریکارڈ مکتوب میں نہیں ملا۔ اس دوران ناگیشور الٰہ آباد کے سینٹرل جیل نینی سے دماغی علاج کے لئے 24 فروری 1986 کو وارانسی کے دماغی ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے ضمانت ہونے کے چوبیس سال بعد رہا ہونے کے چند دن پہلے تک وہ رہا۔کورٹ میں دو دسمبر 2015 کو اس کی زیر سماعت اپیل پر اس کے وکیل حاضر نہیں ہوئے جس پر عدالت نے اس کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کر دیا تھا۔ اس کو پھر گرفتار کر 15 فروری 2016 کو جیل میں ڈال دیا گیا۔

دماغی حالت ٹھیک نہیں ہونے پر اس کو 15 مارچ 2017 کو وارانسی کے ہاسپٹل میں بھرتی کرا دیا گیا جہاں وہ ابھی بھی سنگین حالت میں بھرتی ہے۔ سلطان پور جیل سپریٹنڈنٹ نے ناگیشور کے دو بیٹوں کو 18 مئی 2017 کو خط لکھا کہ وہ آکر  اپنے والد کی دیکھ ریکھ کریں تاکہ ہاسپٹل کی کچھ مدد ہو سکے۔ایسی حالت میں ناگیشور کے وکیل اور سرکاری وکیل کی طرف سے کسی قسم کے تعاون کے بغیر کورٹ  نے اپیل پر سماعت کر اس پر گزشتہ سوموار کو فیصلہ سنایا۔ عدالت نے قتل کے جرم کو تو برقرار رکھا لیکن عمر قید کی سزا کو 26 سال تک محدود کر دیا جو کہ وہ پہلے ہی گزرا چکا ہے۔ اس طرح عدالت نے ناگیشور کی رہائی کو فوراً یقینی بناتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا۔