حقوق انسانی

تہاڑ جیل میں اصلاح : کتنی حقیقت ، کتنا فسانہ

دہلی کی تہاڑ جیل کی مہمان نوازی کا مجھے بھی براہ راست تجربہ ہے۔  جیل کے عملہ کا رویہ بھی فلم کے جیلر سے مختلف نہیں ہے، جس کا مشہور مکالمہ تھا:”ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو قیدیوں کو سدھارنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تم کبھی نہیں سدھرو گے۔

Photo Credit : Milli Gazette

Photo Credit : Milli Gazette

حال ہی میں دہلی کی تہاڑ جیل میں 18کشمیری محبوسین کی اذیت رسانی کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں، وہ کسی بھی مہذب معاشرہ کو شرمندہ کرنے کےلئے کافی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے قائم ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی 111 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نہ صرف اس ٹارچر کی تصدیق کی بلکہ یہ تشویش ناک انکشاف بھی کیاکہ جیل حکام اور سیکورٹی پر مامور اسپیشل فورس نے بغیر کسی معقول وجہ کے ان قیدیوں کو تختہ مشق بنایا۔ انٹروگیشن یا دوران تفتیش، پولیس یا دیگر تفتیشی ایجنسیاں دنیا بھر میں ملزم کی خود اعتمادی کو متزلزل کرنے یا اقبال جرم کروانے کےلئے ٹارچر کو ایک حربے کے بطور استعمال کرتی آرہی ہیں۔ مگر بعد از تفتیش جب ملزم عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کےلئے جیل حکام کی تحویل میں ہوتا ہے ٹارچر کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ گو کہ ملک میں دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح جیلیں ابھی تک بلند بانگ دعوں کے باوجود ریفارمیشن سینٹرز کے بجائے تعدیب خانے ہی ہیں،مگر جوں ہی جیل میں کسی مسلمان ، کشمیری یا پاکستانی قیدی کا داخلہ ہوا، تو جیل حکام ، چاہے وہ سیکورٹی پر مامور اہلکار ہو یا ڈاکٹر یا سوشل ورک آفیسرکی رال ٹپکنے لگتی ہے۔

بھارت  ماتا کے یہ سپوت حب الوطنی کا درس دینے کےلئے کھل کراپنے ہاتھوں اور پیروں کی ورزش کرتے ہوئے ان بد نصیب قیدیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہندوستان میں دہلی کی تہاڑ جیل کو ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اکثر حکام اسکو جیل کے نام سے موسوم کرنے پر بھڑک جاتے ہیں اور اسکو تہاڑ آشرم یا اصلاح خانہ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ مگرتعدیب کی خبریں اس آشرم سے آرہی ہوں تو ملک کی دیگر جیلوں کا کیا حال ہوگا؟ 2011 میں ڈنمارک کی ہائی کورٹ نے 1995میں بنگال کے ضلع پورنیا میں جہاز سے ہتھیار گرانے کے واقعہ میں ملزم کم پیٹر ڈیوی کو ہندوستان کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ کورٹ نے کم ڈیوی کی اس دلیل کو تسلیم کیاکہ ہندوستان میں جیلوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ڈیوی ہندوستان میں ایک انتہائی مطلوب ملزم ہے۔ پاکستان میں حافظ محمد سعید کی طرح ہی ہندوستان کا اصرار تھاکہ ڈنمار ک کی حکومت عدالتی کاروائی میں مداخلت کرکےاسکو ہندوستان کے حوالے کردے، جس کو وہاں کی حکومت نے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ اسی طرح 90ارب روپے کی مبینہ فراڈ میں ملوث لندن میں پناہ لینے والے ہندوستان کے ایک معروف صنعت کار وجے مالیہ نے بھی برطانوی کورٹ میں ہندوستان کی ایما پر دائر کی گئی حوالگی کی درخواست کے خلاف ہندوستانی جیلوں کی خراب حالت اورانسانی حقوق کی زبوں حالی کی دہائی دی ہے۔ اب ان کشمیری محبوسین کی تصاویر اور دہلی ہائی کورٹ کی رپورٹ کے بعد وزارت خارجہ اور مرکزی تفتشی بیورو کےلئے دنیا بھر سے مطلوب ملزمین کو واپس لاکر انہیں عدالتی کاروائی کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانا ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔

دہلی کی تہاڑ جیل کی مہمان نوازی کا مجھے بھی براہ راست تجربہ ہے۔ ایک دہائی قبل جب جون کے جھلسا دینے والے دن مجھے عدالت نے دہلی پولیس کی مسلح بٹالین کے سپرد کرکے عدالتی حراست میں بھیج دیا،تو میرے کیس کی تفتیش پر مامور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے ایک افسر نے ازراہ مروت کھانے کا ایک پیکٹ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا، کہ جیل میں داخلے کی خانہ پری میں بہت وقت لگتا ہے اور کبھی کبھی تو نیا قیدی جیل میں رات کے کھانے سے محروم رہ جاتا ہے۔ کھانے کا پیکٹ ہاتھ میں لئے مجھے پنجرے جیسی بس میں پھینک دیا گیا۔ قبل اس کے میں اپنے حواس پر قابو پاتا بس میں موجود قیدی مجھ پر جھپٹ پڑے اور یہ سمجھنے میں مجھے کئی سیکنڈ لگے وہ مجھ پر نہیں بلکہ بندروں کی طرح کھانے پر جھپٹے تھے۔ میں نے خود کو بچانے کےلئے کھانے کا پیکٹ فرش پر پھینک دیا۔ پیکٹ پھٹ گیا۔دال اور سبزی فرش پر بکھر گئے۔ میرے یہ ہم سفر گرد و غبار سے اٹے فرش سے اٹھا اٹھا کر ایک ایک دانہ چٹ کر گئے۔ ’واہ کیا بات ہے۔ ایک سال بعد تڑکے والا کھانا نصیب ہوا ہے“ ۔ ایک قیدی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔

یہ منظر واقعی قابل رحم اور مضحکہ خیز بھی تھا۔ اگلے آٹھ ماہ میں نے دیکھا کہ عدالت سے جیل یا واپسی کے دوران اس بس میں چاہے کتنی مارپیٹ ہو یا پھر چاہے قتل کی واردات کیوں نہ ہوجائے، پولیس والے اندر آنے کی زحمت نہیں کرتے۔ حالات اگر زیادہ ہی بے قابو ہوں تو باہر سے گیس ڈال کر قیدیوں کو بے حس کردیا جاتا ہے۔ تہاڑ دراصل نو جیلوں کا مجموعہ ہے۔ مجھے جیل نمبر تین کے دروازے پر اتار کر پولیس نے دیگر نئے آنے والے قیدیوں کے ساتھ جیل حکام کے حوالے کردیا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ڈیسک کے چاروں طرف کھڑے جیل ملازمین میں بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ مجھے سیدھے جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے متصل ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں دس بارہ افراد موجود تھے ۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میرا نام پوچھا گیا ۔ ابھی میں نام بتا بھی نہیں پایا تھا، کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے میرے منہ پر زور کا تھپڑ رسید کیا۔ یہ باقی افراد کےلئے اشارہ تھا۔ ایک ساتھ سب لوگ مجھ پر پل پڑے۔ خود اس اعلیٰ حاکم نے میرے بالوں کو ہاتھ میں جکڑ کر میز پر دے مارا۔ میرے منہ ، ناک اور کان سے خون رسنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ چن چن کر گالیا ں دی جارہی تھیں۔ کچھ لوگ ڈنڈوں سے پیٹ رہے تھے۔ ”تم جیسے لوگوں کوزندہ رہنے کا حق نہیں ہے، سالے غداروں کو سیدھے پھانسی دینی چاہئے“۔

Photo : Reuters

Photo : Reuters

 یہ نعرہ ایک زیر سماعت قیدی ونود پنچم کا تھا ۔ بعد میں جیل کے اندر بھی اس نے مجھے حب الوطنی کا سبق سکھانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں ہونے دیا۔ یہ درس میری بے ہوشی تک جاری رہا۔ ہوش میں آنے کے بعد میں نے خود کو راہداری میں پڑا پایا۔ میرا چہرہ خون سے لت پت تھا۔ حکم ہوا کہ جاکر اپنا چہرہ دھو ڈالوں۔ باتھ روم میں جاتے ہوئے بھی گالیاں میرا پیچھا کر رہی تھیں۔ تبھی حکم ہوا کہ ”ٹائلٹ صاف کرو“ یہ ٹائلٹ کسی بس اڈے کے سرکاری پاخانے کی طرح متعفن اور غلیظ تھا۔ میں ادھر ادھر کسی کپڑے کو تلاش کرنے کےلئے نظریں دوڑانے لگا۔ تو حکم ہوا کہ اپنی شرٹ اتار کر اسی سے صاف کروں۔ حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور ٹائلٹ صاف کرنے میں تقریباًایک گھنٹہ لگا۔ اسی دوران نئے قیدیوں کا جیل میں داخل ہونے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ جیل کے افسر اورایک ڈاکٹر کے علاوہ کچھ منظور نظر قیدی اس کام میں معاونت کر رہے تھے۔ معائنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کا جذبہ حب الوطنی بھی جوش میں آیا۔ اس نے اپنے پیشے کا لحاظ کئے بغیر گالیوں کی بارش کرتے ہوئے پیٹنا شروع کردیا۔ اب اس نے مجھ سے لکھ کر دینے کو کہا، کہ یہ زخم پولیس حراست کے دوران آئے ہیں۔

 میں نے پہلی بار جراٰت کا مظاہر ہ کرکے رپورٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کارروائی مکمل کرتے ہی جیل افسر نے کہا، ”قمیص کہاں ہے؟“ میں نے کہا۔”باتھ روم میں پھنک آیا ہوں“ حکم دیا گیا، ”جاوٰ اور جیسی بھی ہے پہن کر آوؑ“۔ قمیص اتنی گندی تھی کہ مجھے قے آنے لگی۔ پھر بھی اگلے تین روز تک جون کی جھلستی گرمی میں مجھے وہی غلاظت بھری قمیض پہننی پڑی ۔ اس دوران قمیض اتارنے کی نہ غسل خانہ جانے کی اجازت ملی۔ یہ ہندوستان کی ماڈرن تہاڑ جیل کے ساتھ میری ابتدائی ملاقات تھی۔ اگلے آٹھ ماہ تذلیل و تضحیک کے ان گنت واقعات کا میں چشم دید گواہ بنا اور ان میں اکثر واقعات خود میرے ساتھ پیش آئے۔ ابتدائی چند ماہ کو چھوڑ کر عمومی طور پر قومی میڈیا ، سیاسی پارٹیوں اور خود اس وقت کی حکومت کے اندر بھی چند خیر خواہوں نے میرے لئے آوا ز بلند کی اور میری رہائی کےلئے ایک طرح سے مہم چلائی۔ اسلئے اگر اسطرح کے واقعات میرے ساتھ پیش آسکتے ہیں،تواندازہ کیجئے ایک بے یار و مدد گار کشمیر ی یا مسلمان قیدی کے ساتھ کس طرح کا سلوک جیل میں کیا جاتا ہوگا۔

حالانکہ عدالت اعظمیٰ نے اپنے بہت سے فیصلوں میں قیدیوں کے حقوق پر زور دیا ہے، لیکن جیلوں کی حالت اس کے بالکل برعکس ہیں جو قانون کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں۔قیدیوں پر نظر رکھنے کےلئے ان کے بیچ مخبروں کی موجودگی تہاڑ جیل اور بالی ووڈ کی ’شعلے‘ فلم کی جیل میں واحد مماثلت نہیں ہے۔ ’شعلے‘ کا جیلر یہاں حقیقی شکل میں نظر آتا ہے۔ جیل کے عملہ کا رویہ بھی فلم کے جیلر سے مختلف نہیں ہے، جس کا مشہور مکالمہ تھا:”ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو قیدیوں کو سدھارنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تم کبھی نہیں سدھرو گے۔ ارے، جب ہم نہیں سدھر سکے تو تم کیا سدھرو گے۔“ گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی بد عنوانیاں ، غیر تربیت یافتہ جیل اسٹاف اور جیل انتظامیہ کا فرسودہ انداز فکر و عمل، استعماری دور کے جیل مینوئل آج بھی نافذالعمل ہیں ۔ انہی فرسودہ قوانین کا نتیجہ ہے کہ جیل کے حکام قیدیوں کو ان کے حقوق دینے سے انکار کرتے ہیں۔ایک دن مجھے جیل کی لائبریری کے نیم خواندہ نگران (جو خود ایک سزا یافتہ سکھ قیدی تھا) نے طلب کرکے کہا کتابوں کی ایک فہرست تیار کرنے کےلئے کہا اور بتایا کہ حکومت نے جیل کی لائبریری کےلئے کتابیں خریدنے کے مقصد سے بجٹ فراہم کیا ہے۔ میں نے قانون، لیڈروں کی جیل ڈائریوں ، اوپن یونیورسٹی سے کورس کرنے والے قیدیوں کی ضرورت کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ جیل مینوئل اور جیل ضابطوں سے متعلق کتابوں کو بھی شامل کرکے لسٹ تیار کرکے اس کے حوالے کی۔

نگران نے اس لسٹ کو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو پیش کرکے اپنی دانشوری کی دھاک جمانے کی کوشش کی۔ شاید یہ جم بھی جاتی، مگر فہرست میں جیل مینوئل اور قیدیوں کے حقوق سے متعلق کتابیں دیکھ کر جیل حاکم کا پارہ چڑھ گیا۔نگران نے فوراً میرا نام لیا۔ مجھے جیل کنٹرول روم میں طلب کیا گیا، دیکھا سرادارجی کو الٹا لٹکایا گیا ہے اور ان پر لاٹھیوں کی بارش ہو رہی ہے۔ ان کی دانشوری کا ڈبہ تو پہلے ہی گول ہوگیا تھا وہ زار و قطار رحم کی بھیک مانگ کر پورا ملبہ میرے اوپر ڈال رہے تھے۔ میرا انٹروگیشن شروع ہوگیا۔میں نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہہ دیا کہ مجھے معلوم نہیں تھا، کہ جیل کے قوانین سے متعلق کتابیں ممنوع ہیں اور معافی کا خواستگار ہوں۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے مسکرا کر کہا۔ ’میں جانتا تھا، کہ یہ فہرست سردارجی تیار نہیں کرسکتے تھے‘ میرے دور زندان تک باقی کتابیں بھی کبھی لائبریری میں نہیں پہونچیں۔ اور کسی کو معلوم نہیں کتابوں کےلئے مختص اس بجٹ کا کیا ہوا۔ کہتے ہیں علم آزادی کی چابی ہے۔ لیکن قیدیوں کا جیل کے قوانین کا علم حاصل کرنا جیل انتظامیہ اپنے لئے اچھا شگون نہیں سمجھتی، کیونکہ غلامی اور جہالت لازم و ملزوم ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور ‘تہاڑ میں میں میرے شب و روز’ کے مصنف ہیں )