ادبستان

یادوں کے سہارے: ششی کپور پشاوریوں کو یاد آتے رہیں گے …

جو چیز ششی کو اپنے ہم عصروں سے واقعی اوپر اٹھاتی ہے وہ تھا ان کا تنوع versatility جس کی بدولت وہ ایک ہی دور میں کمرشل فلم کے رومانوی ہیرو بھی تھے، آرٹ ہاؤس سنیما کے روح و رواں بھی اور مغربی پکچرز کے مرکزی کردار بھی۔

Photo via Twitter

Photo via Twitter

یہ مضمون پہلی بار 10 دسمبر2017 کو شائع کیا گیا تھا۔

گاڑی ہے، دوست؟ ششی کپور نے پاس کھڑے ہمارے بھائی سے پوچھا۔ اس نے جواب دیا، جی جناب۔ نکالو پھر۔ اس کے بعد جسیم ششی کپور چھوٹی سی سوزوکی میں تشریف فرما ہو کر اپنے اور ہمارے آبائی محلے ڈھکی منور شاہ، اندر شہر پشاور سے رخصت ہوۓ۔ یہ شاید سن دو ہزار کا واقعہ ہے جب ششی اپنا پشتینی گھر، جو ہمارے گھر سے کوئی پانچ مکان چھوڑ کر واقع ہے، دیکھنے آۓ تھے۔

سہ پہر کا وقت تھا مگر جیسے ہی ان کی آمد کی خبر پھیلی ان کے پشاوری مداحوں نے انہیں جھرمٹ میں لے لیا۔ جب محبت کی گرمی ذرا فرو ہوئی اور ان کو موسم کی گرمی محسوس ہوئی تو وہاں سے چلنے کو کہا اور ہمارے بھائی کی موٹر میں قلعہ بالا حصار تک گۓ جہاں صوبائی گورنر صاحب کی بھیجی ہوئی گاڑیاں ان کی منتظر تھیں۔

بھائی نے ان سے درخواست کی ہمارے ہاں چاۓ پیجئے اور شری راج کپور کی ایک دیوار گیر تصویر ملاحظہ کرتے جایئے جو ہمارے گھر میں آویزاں ہے۔ “میں پھر آؤں گا دوست اور راج صاحب کی تصویر بھی دیکھوں گا”، ششی نے کہا۔

یہ مکان ششی کپور کے دادا دیوان بشیشر ناتھ نے بنوایا تھا جو محکمۂ پولیس میں ہمارے پرنانا کے ہم عصر تھے۔ یہ گھر پشاور میں پرتھوی راج کے گھر طور پر جانا جاتا ہے اور باوجود اپنی موجودہ مخدوش حالت کے ایک تبرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جو مکان آج بھی پرتھوی راج کا نام لیے ہوۓ ہے عین اسی مقام پر محمود غزنوی نے اپنی چھاؤنی لگائی تھی کہ یہ پشاور کا سب سے اونچا مقام تھا۔

ششی کے برادرِ اکبر اور ہندوستان کی فلمی صنعت پر راج کرنے والے عظیم شو مین showman راج کپور اسی گھر میں پیدا ہوۓ تھے۔ پرتھوی راج کپور نے ایڈورڈز کالج پشاور سے ہی اسٹیج اداکاری کا آغاز کیا تھا اور اسی زمانے میں ان کی شادی راما دیوی سے ہوئی جنہیں گھر میں جھائی جی بلاتے تھے جو ھندکو لفظ بھرجائی کا اختصار ہے یعنی بھائی کی بیوی۔

جب 14 دسمبر 1924 کو راج کپور پیدا ہوۓ تو پرتھوی راج کپور ابھی ایڈورڈز کالج ہی میں زیرِ تعلیم تھے۔بعد ازاں  پرتھوی راج اپنے خانوادے کو لے کر بمبئی منتقل ہو گۓ جہاں انہوں نے خاموش فلموں میں کام شروع کیا اور پھر ہندوستان کی پہلی بولتی فلم عالم آر میں بھی ایک کردار ادا کیا- مگر تھیئٹر کی کسک پرتھوی راج کو کشاں کشاں کلکتہ لے گئی جہاں وہ نیو تھئیٹرز سے وابستہ ہوگۓ۔

ششی کپور کا جنم کلکتے میں ہی ہوا اور بڑے بھائیوں رنبیر راج کپور اور شمشیر (شمی) راج کپور کے ہم قافیہ ان کا نام بلبیر راج کپور رکھا گیا۔ تینوں بھائیوں میں سے ششی ہی اپنے والد سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ ان کے گھنگریالے  بال، دانت اور جبڑے کا کٹاؤ پرتھوی راج کی جوانی سے مطابقت رکھتا تھا۔

پرتھوی راج نے اس اثناء میں پرتھوی تھیئٹر کی داغ بیل ڈالی جہاں پر ان کے تینوں بیٹوں بشمول ششی نے اداکاری کی بنیادی تربیت حاصل کی۔ بڑے دونوں بھائی شمی اور راج صاحب تو جلد ہی اڑن چھو ہو کر فلم نگر میں جا بسے مگر ششی کو تھیئٹر سے والہانہ لگاؤ تھا اور وہ سن 1960 تک پرتھوی تھیئٹر میں کام کرتے رہے تا وقتیکہ کہ بہ امرِ مجبوری پرتھوی راج کو اپنی کمپنی بند کرنا پڑی۔

تھیئٹر کی وساطت سے ہی ششی کی ملاقات جینیفر کینڈل سے ہوئی جو ایک معاصر تھیئٹر کمپنی شیکسپیئرانہ کے مالک جیفری کینڈل کی بیٹی تھیں۔ ششی نے شیکسپیرانہ کے کئی کھیل بھی کیے مگر جب انہوں نے جینیفر سے شادی کرنا چاہی تو جیفری کینڈل اس پر معترض ہوۓ۔ بہر کیف وہ ششی اور جینیفر کے آڑے نہ آسکے اور دونوں کی شادی ہوگئی۔

کچھ عرصہ بعد شیکسپیئرانہ کمپنی انگلستان منتقل ہوگئی۔ پرتھوی تھیئٹر بند ہو چکا تھا اور سٹیج پر کام کرنے کی راہ ششی کے لیے اب مسدود تھی۔ وہ خود کہتے تھے کہ اگر انہیں اسٹیج پر کام کرنے کا موقع ملتا رہتا تو وہ شاید فلموں میں نہ آتے۔ مگر ان حالات میں ان کو فلموں میں قدم رکھنا ہی پڑا۔

ابتدائی فلم چار دیواری اور پھر یش چوپڑا کی بنائی دھرم پتر تو پِٹ گئیں مگر کچھ خاندان کا نام اور کچھ ان کا سوبھاگیہ کہ بمل راۓ جیسے جغادری ہدایتکار نے ان کو اپنی فلم پریم پتر میں لیا مگر وہ بھی باکس آفس پر ناکام ہی رہی۔ ششی خود کہتے تھے کہ اس دور میں ہیرویئینیں ان کے ساتھ کام کرنے سے کتراتی تھیں۔

shashi-kapoor-family-PTI

ایسے میں اداکارہ نندا نے ان کے ساتھ کئی فلمیں کیں۔ کہتے ہیں کہ راج کپور نے نندا سے کہا کہ ششی ان کے لیے اپنے بیٹے ڈبو (رندھیر کپور) جیسا ہے۔ نندا کے ساتھ 1965 میں کی فلم جب جب پھول کھلے خوب کامیاب رہی جس کا گانا پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا آج تک لوگوں کو یاد ہے۔ مگر ہمارے جیسے مداحوں کے لیے تو ششی کپور اسی وقت سے سپر سٹار ہیں جب وہ راج کپور کی شہرۂ آفاق فلم آوارہ میں بوٹ پالش کا بکس لے کر کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں “ یہ ہے برش، اور یہ ہے پالش کی ڈبیا، میں بڑی اچھی پالش کرتا ہوں”۔

آوارہ میں راج کپور کے بچپن کا پارٹ جس طرح بارہ تیرہ سالہ ششی نے نبھایا تھا اس کی مثال چائلڈ سٹارز میں کم ہی ملتی ہے۔ مگر یہ سب تھیئٹر اور ان کے پتا شری پرتھوی راج کا فیضان تھا جن کی بدولت ششی نے بچپن میں ہی نہ صرف اسٹیج پر کام کیا بلکہ ایک سولہ ایم ایم فلم پھانسی بھی بنا ڈالی۔ آوارہ میں دیوان بشیشر ناتھ، پرتھوی راج، راج کپور اور ششی چاروں جلوہ گر ہوۓ جو شاید ہندوستانی فلموں میں تین نسلوں کے ایک ساتھ کام کرنے کی پہلی مثال ہے۔

بمبئی فلم انڈسٹری میں ششی کپور نے پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ جو اداکار محض اپنے خاندان کے نان و نفقہ کا سلسلہ چلانے کے لیے فلموں میں آیا تھا وہ اتنا مصروف ہو گیا کہ ایک بار تو پتا سمان بڑے بھائی راج کپور بھی ان سے ناراض ہو گۓ۔ واقعہ یوں ہے کہ راج کپور کی متنازع فلم ستیم شوم سندرم میں ششی مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ راج صاحب ابتدا میں راجیش کھنہ کو اس فلم میں لینا چاہتے تھے مگر بوجوہ نہ لیا اور ششی ہیرو قرار پاۓ۔

مگر ششی کی مصروفیت اس قدر زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ راج صاحب کو تاریخیں نہیں دے پا رہے تھے۔ اس پر راج صاحب نے نالاں ہو کر یہاں تک کہہ دیا کہ ششی تو ٹیکسی ہے، جو کرایہ بھرے وہ لے جاۓ۔ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ راج صاحب کی طرح ششی بھی اپنے والد پرتھوی راج کے سوشلسٹ آدرشوں کا دم بھرتے تھے۔

امریکی فلم کمپنی آیوری مرچنٹ نے انہیں کئی سال تک پورا معاوضہ ادا نہیں کیا مگر چونکہ اس کام میں ان کا جی لگا تھا انہوں نے روپے کی پرواہ نہ کی۔ ششی کپور غالباً پہلے ہندوستانی اداکار تھے جنہوں نے باقاعدگی سے مغربی فلمیں کیں۔ فی الواقع ان کا مغربی فلمی کیریئر ان کے بالی وڈ کیریئر کے ایک سال بعد ہی شروع ہوا جب اسماعیل مرچنٹ نے ان کو اصرار کر کے اپنی فلم دیوگر میں کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔

اس میں ششی کے بالمقابل سائرہ بانو کو کام کرنا تھا مگر کئی وجوہات کی بنا پر وہ فلم نہ بن سکی۔ مگر اسماعیل مرچنٹ اور جیمز آیوری نے ناول نگار روتھ جابھوالا کی ایک کہانی پر فلم دی ہاؤس ہولڈر کرنے کی ٹھانی اور ششی کو ہی کام کرنے کو کہا۔

ششی نے تو حامی بھر لی مگر روتھ جابھوالا نے کہا کہ یہ آدمی تو اتنا زیادہ وجیہہ ہے کہ ان کی کہانی کے عام جیسے ہیرو، جو ایک اسکول ٹیچر ہے، کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ ششی کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے نائی کے پاس گۓ اور کہا کہ میرے بال اس طرح کاٹو جیسے عام طبقے کے ایک اسکول ٹیچر کے ہوتے ہیں۔ باربر نے ان کے بال حسبِ فرمائش برابر کردیے۔

ششی یہ ہئیرکٹ لے کر روتھ جابھوالا کے ہاں جا دھمکے اور روتھ نے فلم میں ان کے رول کی منظوری دے دی۔  مرچنٹ آیوری ٹیم کے ساتھ ششی نے پانچ چھ فلمیں کیں جن میں ہیٹ اینڈ ڈسٹ، بامبے ٹاکی اور شیکسپیئر والا بھی شامل ہیں۔

مگر ہمارے نزدیک ششی کی بہترین فلمیں ہیں جنون اور نیو دہلی ٹائمز۔ ہمارا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں بائیں بازو کی تحریک سے رہا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں باقاعدہ اسٹڈی سرکلز سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا جہاں مارکس ازم، لینن ازم کے علاوہ تخلیقی آرٹ وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی۔

ان سیاسی تدریسی حلقوں میں ستیہ جیت رے اور شیام بینیگل کی فلمیں گویا صحیفے کا درجہ رکھتی تھیں۔ پشاور کے مشہور روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ کے میگزین ایڈیٹر اور سوشلسٹ پارٹی پاکستان کے افضل بخاری ہمارے عزیز بھی تھے اور صحافت و ثقافت میں گُرو بھی۔

جب باقی لوگ ششی کپور اور امیتابھ بچن کی سہاگ اور دیوار وغیرہ دیکھ رہے تھے بخاری صاحب نے ہمیں ششی اور جنیفیر کپور کی جنون دکھائی اور سکھائی۔ شیام بینیگل کے ہدایت میں بنی یہ ششی کپور کی کمپنی فلم والاز کی پہلی پروڈکشن تھی جو 1978 میں منظرِ عام پر آئی۔ ششی نے اس میں روہیل کھنڈ کے ایک پشتون جاوید خان کا کردار ادا کیا ہے جو 1857 کی رستخیز کے دوران ایک دیکھی اور نہ اس کے بعد۔انگریز لڑکی پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ فلم کا آغاز امیر خسرو کے ترتیب دیے ہوۓ رنگ سے ہوتا ہے جو بہ اندازِ قوالی پیش کیا گیا ہے۔ گو کہ ھندوستانی فلمی موسیقی میں قوالی کو باقاعدہ genre صنف کا درجہ حاصل ہے، ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اتنی حقیقت پسندانہ قوالی کسی فلم میں نہ جنون سے پہلے

ایک اہم چیز جو جنون میں بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہے وہ بحیثیت مرکزی کردار ششی کپور کا Restrain یعنی ضبط ہے۔ ہندوستانی فلموں میں بالعموم اور پرانے بمبیئا تھیئٹر میں بالخصوص اداکاروں کو چلانے اور گرجنے کی عادت ہوتی تھی۔ باوصف اس کے کہ ششی بنیادی طور پر تھیئٹر کے اداکار تھے وہ اپنے اوپر بھرپور قابو رکھ کر کردار نبھاتے تھے۔

یہ ضبط پرتھوی راج کا خاصہ تھا جو مغلِ اعظم میں شہنشاہ اکبر کے کردار میں خوب نظر آیا کہ جب وہ داروغۂ زندان کو غصے میں آواز دیتے ہیں تو بھی صدا ایک حد سے بلند نہیں ہونے پاتی۔ گو کہ فلم کا نام ہی جنون ہے اور اس میں عشق سے لے کر جنگ تک جنون ہی جنون ہے مگر نہ ششی کی آواز بلند ہوتی ہے نہ ہی وہ آپے سے باہر ہوتے دِکھتے ہیں۔

درحقیقت یہی understatement اور subtlety یعنی ایک خفیف رکھ رکھاؤ ہی ان کی اداکاری کا جوہر تھا۔ اسی طرح نیو دہلی ٹائمز میں انہوں نے ایک صحافی کا کردار ادا کیا جو بیک وقت ششی کپور کی اداکارانہ صلاحیتوں اور آزادی صحافت پر صاد ہے۔ آج کے دور میں جب حکومتیں آزاد اخباروں اور میڈیا پر دباؤ ڈال رہی ہیں یہ فلم دیکھنا ہر فعال سیاسی کارکن کے لیے لازم ہے۔

ششی کپور نے بیسیوں کمرشل فلمیں کیں مگر وہاں بھی  نہ کبھی کسی کردار میں اوپرے چھچورے ہوتے نظر آۓ نہ ایسے بلند و بانگ کہ پبلک کے کان ہی پھاڑ ڈالیں۔ جس زمانے میں امیتابھ بچن اپنی چیخم دھاڑ کی بنیاد پر غضیلے نوجوان آدمی angry young man قرار پاۓ ششی کپور نے کم و بیش درجن بھر فلمیں ان کے ساتھ کیں اور اپنے خفیف انداز میں امیتابھ کی کردار نگاری کے ساتھ ایک ایسا تضاد پیدا کیا جو کہ ان کا خاص انداز بن گیا۔ حتیٰ کہ ششی گانوں میں ہیروئین کو رجھاتے ہوۓ بھی ایک متانت کو قائم رکھتے تھے۔ البتہ حسینہ مان جاۓ گی میں ان کا ایک گانا یاد آتا ہے سنو سنو کنھیاؤں کا ورنن جہاں وہ مختلف عورتوں کا سوانگ بھرتے ہیں، جس میں لگتا ہے کہ جیسے ان کے اندر بجلی بھری ہے۔ ششی کپور پر ہر پلے بیک سنگر کی آواز یوں جچتی تھی جیسے وہ صرف انہی کے لیے گاتا چلا آ رہا ہو۔ وہ راگ جھنجھوٹی میں کشور کمار کا گایا گھنگرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں ہو یا کِھلتے ہیں گل یہاں کھل کے بکھرنے کو، راگ آھیر بھیروں میں مکیش کی آواز میں وقت کرتا جو وفا آپ ہمارے ہوتے، یا پھر رفیع صاحب کا لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں ہزاروں رنگ کے نظارے بن گۓ۔ اسی طرح نندا سے لے کر شبانہ اعظمی تک ان کی جوڑی خوب جمی۔

ششی کپور کو اپنے عہد کا وجیہہ ترین اداکار کہنا بے جا نہ ہو گا۔ ان کا ذرا اترا کے چلنا swagger ، مسکراہٹ اور بال انہیں دیگر معاصرین سے ممتاز کرتے تھے۔ شاید اسی لیے انہیں ھینڈسم کپور بھی کہا جاتا تھا۔ ششی کپور کے سوانح نگار عصیم چھابڑا لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ برلن فلم فیسٹیول میں ششی کپور کی فلم شیکسپیئر والا پیش ہوئی۔ ششی اور ان کی ساتھی اداکارہ مدھر جعفری لفٹ میں سوار ہوۓ تو اس میں قتالۃ عالم جینا لولو بریجیڈا بھی سوار تھیں۔ جینا ششی کو دیکھ کر لہلوٹ ہو گئیں۔ ایک دوسرے سے ناموں کے تبادلے بھی ہوۓ۔ اگلی صبح مدھر جعفری کے کمرہ میں  جینا کی طرف گلدستہ آیا جس کے ساتھ لنچ کی دعوت تھی۔ مدھر نے وہ لے جا کر ششی کو دیا کہ شاید ہندوستانی ناموں کی وجہ سے جینا لولو بریجیڈا کو مغالطہ ہوا ہے، یہ گلدستہ تمہارے لیے معلوم ہوتا ہے مگر تم کہو تو میں ہی جا کر جینا کے ساتھ لنچ کرلوں!

جو چیز ششی کو اپنے ہم عصروں سے واقعی اوپر اٹھاتی ہے وہ تھا ان کا تنوع versatility جس کی بدولت وہ ایک ہی دور میں کمرشل فلم کے رومانوی ہیرو بھی تھے، آرٹ ہاؤس سنیما کے روح و رواں بھی اور مغربی پکچرز کے مرکزی کردار بھی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پرتھوی راج کا وہ سفر جو ایڈورڈز کالج پشاور کے سٹیج سے ہوتا ہوا انہیں کلکتہ کے نیو تھیئٹرز اور پھر پرتھوی تھیئٹر لے گیا، ششی کپور نے اسے جاری رکھا۔ انہوں نے جس سال یعنی 1978 میں جنون بنائی اسی سال پرتھوی تھیئٹرکو بھی زندہ کیا جو آج تک ان کے بچوں سنجنا اور کنال کی بدولت نہ صرف فعال ہے بلکہ پھل پھول رہا ہے۔  ششی کپور تو چل بسے مگر تھیئٹر کی جو بستی وہ بسا گۓ وہ ان کا نام روشن کرتی رہے گی۔

وعدے کے خلاف ششی کپور جیتے جی تو پھر پشاور نہ آۓ مگر اب جب کہ وہ پرلوک سدھار گۓ شہر پشاور کے لوگوں نے ان کی یاد میں ان کے پرکھوں کے گھر ہر ان کے دیوار گیر پوسٹر آویزاں کیے اور شمعیں روشن کیں۔ پشاور کی روایت ہے کہ جو پشاور کو یاد رکھتا ہے پشاور بھی اسے دل میں بٹھاکر رکھتا ہے۔ ششی کپور پشاوریوں کو تادیر یاد آتے رہیں گے۔

(ڈاکٹر محمد تقی پاکستانی ،امریکی کالم نگارہیں،@mazdakiان کا ٹوئٹر ہنڈل ہے۔)