خبریں

مردہ دہشت گرد اور تسلیمہ نسرین کے ٹوئٹ کا سچ

میڈیا کی جلدبازی میں اگر کسی زندہ شخص کو دہشت گرد بناکر مردہ قرار دیا جائے تو آپ کیا کہیں گے ؟

fn1

اکنامکس یعنی اقتصادیات کا انسانی زندگی میں اتنا ہی دخل ہوتا ہے جتنا  ہوا اور پانی کا۔  روزانہ کی خرید فروخت اور اشیاء کی قیمتوں کا کم یا زیادہ ہونا  اسی کا حصّہ ہے۔  اکنامکس میں مہنگائی کو انفلیشن (inflation) یعنی افراط زر کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کو مہنگائی کہتے ہیں ،لیکن  کسی خاص وقت میں مہنگائی کے بڑھ جانے کی شرح (rate) کو انفلیشن کہتے ہیں۔حکومت ہند کی مالیاتی وزارت (finance ministry ) نے 5 دسمبر کو ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی اور یہ دعویٰ کیا کہ انفلیشن مستقل کم ہو رہی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے !

اس تصویر کے ٹوئٹر پر اپلوڈ کئے جانے کے بعد لوگوں نے اعتراض ظاہر کیا اور کہا کہ مہنگائی کا کم ہونا  اور انفلیشن کا کم ہونا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ٹوئٹرپرموجود وویک کول اور اسٹینلے پگنل جیسے   ماہرین نے بھی افسوس ظاہر کیا کہ وزارت کو اتنا بھی شعور نہیں کہ دو چیزوں میں جو فرق ہوتا ہے ، اسکو سمجھ سکیں! لہذا وزارت کے ٹوئٹر سے جو دعویٰ کیا گیا تھا اس میں سمجھ کا فقدان تھا جو ایک طرح سے فیک نیوز کو فروغ دیتا ہے۔

fn2

میڈیا کی جلدبازی میں اگر کسی زندہ شخص کو دہشت گرد بناکر مردہ قرار دیا جائے تو آپ کیا کہیں گے ؟ غازی آباد میں ‘پاکستان زندآباد’ کے نعروں کی جھوٹی خبر شائع کرنے کے بعد امر اجالا اور دینک جاگرن نے ایک عام کاروباری شخص کی تصویر شائع کی اور کہا کہ یہ شخص دہشت گرد تھا جسکو ہندوستانی  فورسز نے مار گرایا !بقول الٹ نیوز  اس شخص کا نام عبد الماجد ہے، یہ جمو میں گوشت کا کاروبار کرتا ہے لیکن میڈیا نے اس شخص کے فیس بک سے تصویر لیکر اس کو دہشت گرد قراردیا اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ یہ شخص دہشت گرد تھا جسکو ہندوستانی فورسز نےان دہشت گردوں کے ساتھ ہلاک کر دیا ہے جن میں ایک شخص لکھوی کا رشتےدار بھی تھا !A2Zنیوز چینل کی اس ویڈیو میں اس شخص کو  سنا جا سکتا ہے :

15 نومبر  سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا کے زعفرانی حلقوں میں بہت عام ہو رہی ہے ۔ الٹ نیوز کے مطابق یہ ویڈیو فیس بک پر ‘Narendra Modi for 2019PM’ نامی پروفائل سے عام کی جا رہی ہے اور 16 لاکھ سے زیادہ  ناظرین اس کو دیکھ چکے ہیں۔  ویڈیو کو اس پروپیگنڈہ کے ساتھ عام کیا جا رہا ہے کہ سماجوادی پارٹی کے منسٹر کمال اختر کو فرقہ وارانہ  تشدد پھیلانے کے جرم میں پولیس نے بری طرح مارا ہے ! الٹ نیوز کی تفتیش میں جو اصل ویڈیو حاصل ہوئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ 2011 کی ویڈیو ہے جس میں کمال اختر نہیں بلکہ سماجوادی پارٹی کے راجہ چترویدی ہیں جو اتر پردیش اسمبلی کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں اور جس میں پولیس کے ساتھ کھینچ تان ہو رہی ہے، ان کو مارا نہیں گیا ہے۔ ویڈیو:

گزشتہ ہفتے الٹ نیوز  پر ایک مضمون شائع ہوا جو بے حد حیران کرنے والا تھا۔ مضمون میں گاندھی جی کو نشانہ بناتے ہوئے کچھ افسوس ناک باتیں ان سے منسوب کر دی گئیں۔ بطور پرپگنڈہ یہ کیا گیا کہ گاندھی جی نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہندو اور سکھ عورتوں کو ہدایت کی تھی کہ اگر مسلم مرد انکے ساتھ زبردستی  کرتے ہیں تو وہ احتجاج نہ کریں؛ بلکہ انکی اس خواہش کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیں !اس کو شنکھ ناد اور rightlog.in  نامی ویب سائٹوں نے شائع کیا تھا اور اپنے مضمون میں کتاب سے حوالاجات بھی درج کئے تھے۔ الٹ نیوز نے  اپنی ریسرچ میں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ حوالےجعلی ہیں۔ جس صفحہ کا حوالہ دیا گیا ہے، وہاں ریپ سے متعلق بات ضرور موجود ہے لیکن وہ اس بدترین انداز میں نہیں ہے جس طرح زعفرانی فکر کی ویب سائٹوں نے اپنے پروپیگنڈہ کے تحت اس کو پیش کیاہے۔  جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے مصنف نے بنا کسی حوالے کے لکھا ہے کہ گاندھی جی ریپ کی ستائی ہوئی خواتین سے کہتے تھے کہ وہ خاموش رہیں اور اپنی زبان نہ کھولیں !

fn4

حالانکہ ،مہاتما گاندھی کے ان خیالات پر بحث کی جا سکتی ہے جوکہ آج کی ماڈرن قدروں کے مطابق اجنبی محسوس ہوتی ہیں لیکن اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ مہاتما گاندھی صبراور روحانی قوّت کے حامی تھے، اسی وجہ سے وہ اس طرح کی ہدایت کیا کرتے تھے۔

fn5

مشہور ناول نگار تسلیمہ نسرین نے ایک تصویر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپلوڈ کی جس میں ایک مسلم شخص دوسرے شخص کو  بوتل سے شراب دے رہا ہے۔تصویر کے ساتھ کوئی  عبارت درج نہیں تھی۔  دوسرے شخص کی پوشاک زعفرانی رنگ کی ہے اور وہ سادھو معلوم ہوتا ہے۔ بوم لائیو اور سوشل میڈیا ہوَش سلیر ویب سائٹ نے اس تصویر کی اصل تصویر اپنی ویب سائٹ پر شائع کی جس میں شراب کی بوتل کی جگہ پانی کی بوتل ہے ۔  ہندو-مسلم اتحاد کی وکالت کرنے والے پروگریسو افراد نے جب اس تصویر کو دیکھا تو بہت افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ یہ احمقانہ قدم ہے ! تسلیمہ کا وہ ٹوئٹ یہاں آرکایئو میں دیکھا جا سکتا ہے۔

(مضمون نگار مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں شعبہ سیاسیات میں ریسرچ اسکالر ہیں )