فکر و نظر

کیا یو پی بلدیاتی انتخاب کے نتائج میں اپوز یشن کے لئے کوئی خوشخبری ہے؟

جیسا امت شاہ کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ملک کا موڈ دکھاتے ہیں، تب حزب مخالف کے پاس اصل میں خوشی منانے کی وجہ ہے۔

UP-Civic-Polls-Photo-FB-BJP4UP

گزشتہ دنوں بی جے پی صدر امت شاہ نے اتر پردیش بلدیاتی انتخاب کے نتائج کو ملک کے موڈ کو ناپنے کا پیمانہ بتایا۔ اگر اس کو سچ مان لیا جائے تو واضح طور پر ملک کا موڈ آنے والے انتخابات میں بی جے پی کو پہلے سےکم  ووٹ اور سیٹ دینے کا ہے۔اترپردیش کے بلدیاتی انتخابات میں تینوں سطح پر پڑے ووٹ کے اعداد و شمار کو فوری طور پر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بی جے پی کا ووٹ شیئر اس سال کی شروعات میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے مقابلے 12-10فیصد پوائنٹ نیچے آ گیا ہے۔

شاہ نے یہ بھی کہا کہ اترپردیش بلدیاتی انتخاب کے نتائج کا اثر آنے والے گجرات اسمبلی انتخاب پر بھی پڑے‌گا۔ ساتھ ہی امت شاہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ نتیجے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو ملی حمایت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ کہیں شاہ اپنی پارٹی کی ‘پی آر’ٹیم کے ذریعے کی گئی تشہیر میں تو نہیں بہہ گئے، جو صرف اوپری عہدوں (بلدیہ کے میئر)کے نتائج کی بنیاد پر بی جے پی کے ‘کلین سوئپ ‘ کا دعویٰ کر رہی ہے؟ معلوم ہو کہ بی جے پی کو میئر کے 16 عہدوں میں سے 14 پر کامیابی ملی ہے۔

نچلی دو  اکائیوں، جس میں میونسپلٹی اور نگر پنچایت کونسل کے میئر کے عہدے کا انتخاب ہوتا ہے، وہاں بی جے پی کے ووٹ شیئر میں اسمبلی انتخاب کے مقابلے میں خاصی گراوٹ آئی ہے، جبکہ ان دونوں میں ووٹروں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ تو اگر شاہ کے مبینہ طورپر گجرات میں ایسے ہی نتیجے آتے ہیں تو یہ بی جے پی کے لئے شرمندگی کی وجہ بن سکتی ہیں۔اس لئے بی جے پی صدر کو بس یہ امید کرنی چاہئے کہ اترپردیش بلدیاتی انتخاب کا یہ پیٹرن گجرات میں دوہرایا نہ جائے۔شروعات سے سمجھیں تو  اترپردیش بلدیاتی انتخاب کے نتائج کو بی جے پی کا ‘ کلین سوئپ ‘ نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ شروعاتی اعداد و شمار آتے ہی کئی ٹی وی چینلوں کے ذریعے بتایا جا رہا تھا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو اور واضح کریں‌گے۔

شہری بلدیاتی انتخاب میں تمام سطحوں پر ایڈمنسٹریٹو اکائی کے میئر کے تمام 652 عہدوں کے لئے ہوئے انتخاب میں بی جے پی کو 30فیصدسے بھی کم ووٹ ملے۔ ان 652میں بی جے پی کو 184عہدہ ملے،جہاں 16میئر، 198 بلدیہ صدر اور 438 نگر پنچایت اہم ہیں۔

جہاں بی جے پی کو اعلیٰ عہدوں یعنی بلدیہ کے میئر کے انتخاب میں 85فیصد سے زیادہ جیت درج کی، وہیں تیسرے یعنی سب سے نچلی سطح پر اس کا رکارڈ بےحد خراب رہا۔ نگر پنچایت کے میئر کے انتخاب میں سب سے آگے آزاد امیدواررہے،جنہوں نے438میں سے 182سیٹوں پر قبضہ کیا۔ بی جے پی کو 100، سماجوادی پارٹی کو 83، بہوجن سماج پارٹی کو 45 اور کانگریس کو 17 سیٹیں ملیں۔اس سے ایک پائیدان اوپر یعنی بلدیہ صدر کے انتخاب میں بی جے پی بھلےہی سب سے بڑی پارٹی بن‌کے ابھری، لیکن یہاں اس کا ووٹ شیئر سال کی شروعات میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے مقابلے تقریباً 42 فیصدکم رہا۔

یہاں غور کرنے والا پہلو یہ بھی ہے کہ ان دونوں  اکائیوں کے انتخاب میں بی جے پی کو مغربی اتر پردیش میں بھاری نقصان ہوا۔ شاملی، باغپت، مظفرنگر، میرٹھ میں یہ نقصان واضح طو رپردکھتا ہے۔ ہندوپولیرائزیشن کی سیاست کی جو کوشش خود وزیراعلیٰ  یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعے ایودھیا سے انتخابی مہم شروع کر کے کی گئی تھی، اس کا کوئی خاص اثر دکھائی نہیں دیتا۔یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ مغربی اتر پردیش میں اس سال ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو قریب 44 فیصدووٹ ملے تھے۔ میرٹھ اور علی گڑھ میں میئر کی سیٹ بسپا کے کھاتے میں آئی ہے۔اسمبلی انتخاب کے مقابلے مغربی اتر پردیش میں بی جے پی کا ووٹ شیئر 10فیصدی سے زیادہ گرا ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت اس جاٹ اکثریتی کسان بیلٹ میں گزشتہ مہینوں میں بی جے پی حکومت سے کسانوں کے دل ٹوٹنے  کی وجہ  کو بیان کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی اتر پردیش کے نگر  پنچایت کونسل انتخاب میں بی جے پی کا ووٹ شیئر تقریباً 25فیصدتک گرا ہے، جو ایک بڑا نقصان ہے۔

اگر ان اعداد و شمار کے حساب سے دیکھیں، تو امت شاہ بمشکل ہی اترپردیش بلدیاتی انتخاب کے نتائج کو جی ایس ٹی اور ان کی پارٹی کو ملی حمایت بتا سکتے ہیں۔ اصل میں جیسا شاہ کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ملک کا موڈ دکھاتے ہیں، تب حزب مخالف کے پاس اصل میں خوشی منانے کی وجہ ہے۔ لیکن بی جے پی کے رہنما شاید میڈیا کے ‘ کلین سوئپ ‘ والے چکمہ میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ بلدیاتی انتخاب کے نتائج کے بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی دہلی میں  وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات اپنی جیت کی سرشاری کودکھانا ہی تھا۔

مودی بھلےہی کیمرے کے سامنے اس جیت پر اپنی خوشی ظاہر کریں لیکن بلدیاتی  اکائی کے اعلیٰ عہدے پر بی جے پی کا قابض ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ بات اعداد و شمار بھی دکھاتے ہیں۔ بی جے پی کے ووٹ شیئر کے نقصان کی اصلی کہانی باقی دونوں سطحوں پر دکھائی دیتی ہے۔