خبریں

اعلیٰ عدالتوں میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے نپٹارے کے لئے پڑے ہیں 6 لاکھ معاملے

سال 2016 تک ملک کی 24 اعلی ٰ عدالتوں میں 40.15 لاکھ معاملےنپٹارے کئےلئے پڑے ہیں۔ ان میں سے دس سال یا زیادہ عرصہ سے زیر التوا معاملوں کی تعداد 19.45 فیصد ہے۔

MumbaiHighCourt_PTI

نئی دہلی : بمبئی ہائی کورٹ سمیت ملک کی مختلف اعلیٰ عدالتوں میں تقریباً   6لاکھ معاملے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے نپٹارے کے لئے پڑے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ تقریباً ایک لاکھ معاملے  بامبے ہائی کورٹ میں ہیں۔ ایک نگرانی نظام کے ذریعے جمع اعداد و شمار میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے۔سال 2016 کے آخر میں ملک کی 24 اعلی عدالتوں میں تمام 40.15 لاکھ معاملے  نپٹارے کے لئے پڑے تھے۔ ان میں بھی تمام نپٹارے کے لئے پڑے معاملوں میں سے دس سال سے زیادہ وقت سے نپٹارے کے لئے پڑے معاملوں کی تعداد 19.45 فیصد ہے۔

قومی عدالتی ڈاٹا گریڈ کے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سات دسمبر تک 20 اعلی ٰعدالتوں میں 5،97،650 معاملے ایک دہائی سےزیادہ عرصہ سے نپٹارے کے لئے پڑے تھے۔ملک میں 24 ہائی کورٹ ہیں لیکن ان میں سے جن کے اعداد و شمار نہیں مل پائے ہیں انہی میں سے ایک ہے الہ آباد ہائی کورٹ۔  بمبئی  ہائی کورٹ میں 1،29،063 زیر التوا معاملے ہیں۔ اس فہرست میں دوسرے مقام پر ہے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ جہاں کل 99،625 معاملے زیر التوا ہیں۔ کلکتہ ہائی کورٹ میں 74،315 معاملے زیر التوا ہیں۔

دلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مقامی بلدیہ نالے کی صفائی، درختوں کو کٹنے سے روکنے سمیت دیگر آئینی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہی ہیں اور اس کام کے لئے بھی عدلیہ کو مجبور کر رہی ہیں۔دلی ہائی کورٹ کی کار گزار چیف جسٹس  گیتا متّل اور جسٹس سی ہری شنکر کی ایک بینچ نے سیویج کے بہاو اور شمالی دلّی کے سول لائن علاقے میں جھوپڑیوں میں رہنے والے لوگوں کے ذریعے جمع کئے گئے کچرے کو ہٹانے سے متعلق سہولیات  کی مبینہ طور پر کمی کو لےکر دائر کی  گئی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔بنچ نے کہا، اگر مقامی اتھارٹی نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی، تو ہم اپنا فرض کو پورا کر سکتے تھے۔ لیکن ہم آپ کی آئینی ذمہ داریوں کو پوراکر رہے ہیں۔

عدالت نے مرکز، دلّی حکومت ،محکمہ ماحولیات و جنگلات ، پولیس، دلّی آلودگی کنٹرول کمیٹی، شمالی دلّی کارپوریشن اورDelhi Urban Shelter Improvement Board کو نوٹس جاری کرکے سات مارچ تک اس سے متعلق جواب مانگا ہے۔ اس علاقے میں جھگی کے قریب رہنے والے ایک وکیل نے عرضی دائر کی تھی۔