فکر و نظر

کیامودی اس ملک کے باپ ہیں؟

محلّے کا دادا اور ملک کا باپ یہ سب کیا ہے۔ آپ نے 2014 میں کہا تھا کہ آپ ہندوستان کے بڑے خادم ہیں، تین سال بعد 2017 میں سنبت پاترا کہہ رہے ہیں کہ آپ اس ملک کے باپ ہیں۔ مجبوری میں کوئی کسی کو باپ بنا لیتا ہے، یہ محاورہ سب نے سنا ہے۔ کیا سنبیت آپ کو مضبوط رہنما سے مجبوری کا رہنما بنا رہے ہیں؟

Narendra-Modi-Gujarat-PTI

2014  میں وزیر اعظم مودی کی جو تقریر ان کی وجئے رتھ کا رتھ بان بنی وہی تقریر 2017 تک آتےآتے ان کی مخالف ہو گئی ہے۔ اپنی تقریروں سے شکست دینے والے وزیر اعظم اپنے ہی تقریروں میں شکست کھا رہے ہیں۔ کم بولنا اگر مسئلہ ہے تو بہت زیادہ بولنا بھی مسئلہ ہے۔ بولنا سب کو اچھا لگتا ہے لیکن کچھ بھی بول دینا کسی کو اچھا نہیں لگتا ۔ وزیر اعظم مودی اپنی تقریروں میں کچھ بھی بولنے لگے ہیں۔ اس لئے ان کے جلسوں کا ذکر خالی کرسیوں کی وجہ سے ہو رہاہے۔ گجرات انتخابات کی اہم تصویروں میں سے ایک ہے کہ وزیر اعظم کو سننے کم لوگ آ رہے ہیں۔

تین سال پہلے کی بات ہے، وزیر اعظم کی تقریروں کے آگے کانگریس کو بولنے کا موقع نہیں مل پاتا تھا، آج انہی تقریروں نے کانگریس کو بولنے کا موقع دے دیا ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ بولتے بولتے وزیر اعظم کے پاس کچھ بچا نہیں ہے۔ سچائی نے ان کو گھیر لیا ہے اس لئے نریندر مودی جی اب نریندر مودی جی پر ہی تقریر کررہے ہیں۔ کس نے سوچا تھا کہ مودی کا یہ مضبوط ہتھیار انہی کے خلاف استعمال ہونے لگے‌گا۔

2014کا سال الگ تھا۔ منموہن سنگھ دلکش مقرر نہیں تھے اور نہ ہی جارحانہ انداز تھا ان کا۔ 2009 میں منموہن سنگھ کے سامنے بی جے پی کا کمزور وزیر اعظم کا نعرہ نہیں چلا تھا، 2014 میں منموہن سنگھ کے سامنے بی جے پی کا مضبوط وزیر اعظم کا نعرہ چل گیا۔ چلا ہی نہیں، بلکہ آندھی طوفان میں بدل گیا۔ 2009 میں منموہن سنگھ کے کمزور وزیر اعظم کے سامنے خود کے مضبوط ہونے کا دعویٰ کرنے والے اڈوانی 2014 کے بعد منموہن سنگھ سے بھی کمزور ثابت ہوئے۔

اڈوانی کی خاموشی اس طرح کی ہو چکی ہے جیسے انہوں نے کبھی مائک اور لاؤڈسپیکر بھی نہیں دیکھا ہو۔ وقت کا پہیا کیسے گھومتا ہے۔

نوٹ بندی پر منموہن سنگھ کا بیان مودی حکومت پر جا چپکا۔ وہی منموہن سنگھ کہہ رہے ہیں کہ غریب تو میں بھی تھا مگر میں نہیں چاہتا کہ ملک مجھ پر ترس کھائے۔

پھر بھی کس نے سوچا تھا کہ ان کی اس غریبی کا جواب منموہن سنگھ سے آئے‌گا جو خود بھی بےحد غریب فیملی کے تھے مگر اپنی قابلیت کے دم پر دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں تک پہنچے اور وزیر اعظم بھی ہوئے۔

منموہن سنگھ اپنے بیک گراؤنڈ پر بات نہیں کرنا چاہتے، وزیر اعظم مودی اس کے بنا کوئی تقریر ہی نہیں کر تے ۔ راہل گاندھی نے صحیح کہا ہے کہ مودی صرف مودی پر بات کرتے ہیں۔

مودی کو اس نے کہا، اس نے کہا۔ مودی نے خود دوسروں کو کیا کہا، کیسے کہا۔ مودی کی پوری فوج راہل گاندھی کو کیا کیا کہتی رہتی ہے، کبھی راہل کو روتے نہیں سنا کہ مودی نے مجھے پپّو کہا۔ مغل کہا تو ان کے لوگوں نے ہندو ہونے پر بھی شک کیا۔

2014کے لوک سبھا انتخاب میں مودی کی جیت صرف تقریر کی وجہ سے نہیں تھی۔ تقریر بھی بڑی وجہ تھی۔ لوگوں کو لگا کہ کوئی بولنے والا رہنما بھی ہونا چاہئے، لوگوں نے مودی کی یہ خواہش پوری کر دی۔ مگر وزیر اعظم کبھی نہیں سمجھ پائے کہ اچھے مقرر کی چاہ رکھنے والے لوگ اچھی تقریر کی بھی چاہ رکھتے ہوں‌گے۔ وزیر اعظم مودی لگاتار اس کسوٹی پر فیل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی خود کو نصیب والا کہا تو کبھی کسی کےڈی این اے کو ہی خراب بتا دیا۔

دلی سے لےکر بہار تک میں دیکھا تھا کہ لوگ کیسے ایک اچھے مقرر کی خراب تقریر سے فکرمند تھے۔ وزیر اعظم مودی مقرر بہت اچھے ہیں مگر تقریر بہت خراب کرتے ہیں۔

ایک قدآور رہنما کے لئے انتخابی جیت ہی سب کچھ نہیں ہوتا ہے۔ آخر وہ اتنی جیت کا کریں‌گے کیا؟ ایک دن یہی جیت ان کی تقریروں پر ملبے کی طرح پڑی نظر آئے‌گی۔ لوگوں کی زندگی انتخابی جیت سے نہیں بدلتی ہے۔ اگر بدل پائے ہوتے تو گجرات میں 22 سال کا حساب دے رہے ہوتے۔ بتا رہے ہوتے کہ میں نے 50 لاکھ گھر بنانے کا دعویٰ کیا تھا، یہ رہی چابی، سب کو دے دیا ہے۔ بتا رہے ہوتے کہ کیسے شیوراج سنگھ چوہان سے لےکر رمن سنگھ کی حکومتوں نے تعلیم اور اسپتال کے تجربہ بدل دئے ہیں۔ روزگار کے معنی بدل دئے۔ کسی اور نے بھی نہیں کئے ہوں‌گے مگر کیا اب آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں نے بھی نہیں کئے اور میں کروں‌گا بھی نہیں۔ آپ ہی نہیں کسی بھی جماعت کے پاس زندگی بدلنے کا آئیڈیا نہیں ہے۔ یہ بحران آپ کے پاس زیادہ ہے کیونکہ آپ سب سے زیادہ دعویٰ کرتے ہیں۔

وزیر اعظم کی تقریر میں کچھ جواب ہونے چاہئے جو نہیں ہوتے ہیں۔ وہ بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ کانگریس نے مسلم ریزرویشن کے نام پر مسلمانوں کو ٹھگا ہے۔ خود نہیں بتاتے کہ وہ اور ان کی پارٹی مسلم ریزرویشن کا نام سنتے ہی کس طرح ہنگامہ کر دیتے ہیں۔ مخالفت کرتے ہیں۔

کانگریس پر ان کا حملہ صحیح بھی ہے مگر اپنی بات وہ غائب کر دیتے ہیں۔ وہ یہ بات شاید مسلمانوں کو بتا رہے تھے کہ کانگریس نے ان کو ٹھگاہے۔ یوپی، ہریانہ اور راجستھان کے جاٹ بھی ان سے یہی پوچھ رہے ہیں کہ جاٹ ریزرویشن پر ہم سے کیا گیا وعدہ کیا ہوا۔ کیا بی جے پی نے ویسے ہی جاٹوں کو ٹھگا ہے جیسے کانگریس نے مسلمانوں کو ۔

مہینے بھر سے گجراتی میں تقریر کر رہے وزیر اعظم کو اپنے بولنے پر بہت یقین ہو چکا ہے کہ وہ کچھ بھی بول دیں‌گے، لوگوں کو سننا پڑے‌گا۔

اس طرح کا گمان کے سی بوکاڈیا اور راج سپّی کو ہوتا تھا کہ کوئی بھی پکچر بنا دیں‌گے، ہٹ ہو جائے‌گی۔ راج کمار کو رکھ لینے سے ہر فلم ہٹ ہو جائے‌گی، تب بھی ضروری نہیں تھی۔ اب بھی نہیں ہے۔وزیر اعظم حزب مخالف کے سنجیدہ سوالوں کا جواب کبھی نہیں دیتے ۔ بےتکی باتوں کو لےکر آفت کھڑی کر دیتے ہیں۔ سارے وزیر جٹ جاتے ہیں، آئی ٹی سیل جٹ جاتا ہے اور گودی میڈیا کے اینکر ہفتوں کے لئے ایجنڈا سیٹ کر دیتے ہیں۔

آج نہ کل وزیر اعظم مودی کو اس گودی میڈیا سے چھٹکارا پانا ہی ہوگا۔ کئی بار وہ اپنی غلطیوں کی فوراً اصلاح کر لیتے ہیں، گجرات انتخابات کی وجہ سے ان کو جی ایس ٹی کی حقیقت دکھ گئی، اصلاح کیا، اسی طرح کسی انتخابی مجبوری کی وجہ سے ہی وزیر اعظم کو اپنی گود سے اس میڈیا کو اٹھاکر پھینکنا ہوگا ورنہ یہ میڈیا ایک دن ان کی تقریروں کی طرح انہی کو نگلنے لگے‌گی۔ کوئی بھی فعال سماج میڈیا کو حکومت کی گود میں لمبے وقت تک دیکھنا برداشت نہیں کر سکتا ہے۔

وزیر اعظم نے خود بھی کس طرح کی سیاسی زبان کا استعمال کیا ہے۔ ان کی قیادت میں تین سال سے کس زبان کا استعمال ہو رہا ہے، وہ چاہیں تو کسی بھی ماہر لسانيات  سے مطالعہ کرا سکتے ہیں۔ آئی ٹی سیل اور ٹرول کے ذریعے جو حملے ہوتے رہے، جھوٹ کی تشہیر ہوتی رہی، یہ سب جاننا ہو تو ان کو زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس آلٹ نیوز کی ویب سائٹ پر جانا ہے، کافی کچھ مل جائے‌گا۔ ان کے دور اقتدار کاجائزہ کیا صرف انتخابی جیت کے حوالے سےلیا جائے گا یا سیاسی تہذیب سے بھی ۔

15اگست کو وزیر اعظم نے کہا کہ فرقہ پرستی کو مٹانا ہے لیکن ان کی تقریروں میں مغل خاندان اورنگزیب یا ان کے ترجمان کی زبان پر خلجی کا ذکر کس تناظر میں آتا ہے؟

فرقہ پرستی کی بنیادی سمجھ رکھنے والا بھی اس کا جواب دے سکتا ہے۔ وہ بےحد چالاکی سے فرقہ وارانہ سوچ کی حمایت کرتے ہیں۔ قبرستان ہو یا اورنگزیب ، یہ سارے ان کی شاندار جیت‌کے پیچھے ملبے کے ڈھیر کی طرح جمع ہیں۔ وہ چاہیں تو ٹی وی کھول‌کر اپنے ترجمان کی زبان کا بھی مطالعہ کر سکتے ہیں۔

مخالف جماعتوں نے واقعی ان کے خلاف کئی بار خراب زبان کا استعمال کیا ہے مگر کیا وہ ہر بار اسی سے چھوٹ لیتے رہیں‌گے کہ ان کو ایسا بولا گیا ہے، کیا وہ کبھی بھی نئی لکیر نہیں کھینچیں‌گے؟ کیا وہ کبھی اس کا جواب نہیں دیں‌گے کہ وہ بھی اسی طرح سے بولتے رہے ہیں؟ انتخابات کے وقت مخالفوں کی سی ڈی بنوانا، اسٹنگ کروانا یہ سب ان کے خلاف بھی ہوا اور آپ بھی دوسروں کے خلاف کھل‌کر کئے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی خود کو گالی دئے جانے کو لےکر مسئلہ بنانے لگتے ہیں، مگر ان کی قیادت میں نہرو کے خلاف کس طرح کی مہم چلائی جا رہی ہے؟آپ کا اعتباریا مقبولیت چاہے جتنی ہو، آپ کے لوگوں کو بھی پتا ہے انتخابی کمیشن سے لےکر تمام اداروں کا بھروسہ بڑھا نہیں ہے بلکہ پہلے جیسا ہے یا اس سے بھی گھٹ گیا ہے۔

صرف آپ ہی نہیں، کسی بھی ریاست میں کسی بھی رہنما کے سامنے یہی بحران ہے۔ اداروں کا بھروسہ گراتے رہنے سے کوئی رہنما اپنے بھروسے کی بلندی پر ہمیشہ  نہیں رہ سکتا ۔

نیوز 18 کے چوپال پروگرام میں سنبت پاترا کنہیاسے کہہ رہے تھے کہ آپ وندےماترم نہیں بولتے ہیں،کنہیا وندےماترم بھی بولتے ہیں، بھارت ماتا کی جے بھی بولتے ہیں، پھر سنبیت سے پوچھتے ہیں کہ اب آپ بولو گاندھی کو پوجتے ہیں یا گوڈسے کو۔ سنبت اس سوال کا جواب نہیں دیتے ہیں،کنہیا لینن زندآباد، اسٹالن مردہ باد بول رہے ہیں، سنبت جواب نہیں دیتے ہیں کہ گاندھی کی پوجا کرتے ہیں یا گوڈسے کی ۔ آخر میں بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ مودی اس ملک کے باپ ہیں۔

میں ہکا بکا  رہ گیا جب پاترا نے کہا کہ مودی اس ملک کے باپ ہیں۔ سنبت کو کس نے کہا کہ آپ اس ملک کے باپ ہیں۔

ممکن ہے آپ ہندوستان کا کوئی بھی انتخاب نہیں ہاریں، لیکن ان تمام جیت سے پہلے اور جیت کے سامنے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عوام اس ملک کا باپ ہے۔ آپ اس ملک کے باپ نہیں ۔

اتنی سی بات سنبت پاترا کو معلوم ہونی چاہئے۔ اس ملک میں داروغہ، جانچ ایجنسی کے دم پر کوئی بھی کچھ کروا سکتا ہے، یہ پہلے بھی تھا اور آپ کی حکومت میں بھی ہے، تھانہ پولیس کے دم پر یا بھیڑ کے دم پر دم بھرنا بہت آسان ہے۔

محلّے کا دادا اور ملک کا باپ یہ سب کیا ہے۔ آپ نے 2014 میں کہا تھا کہ آپ ہندوستان کے بڑے خادم ہیں، تین سال بعد 2017 میں سنبت پاترا کہہ رہے ہیں کہ آپ اس ملک کے باپ ہیں۔

مجبوری میں کوئی کسی کو باپ بنا لیتا ہے، یہ محاورہ سب نے سنا ہے۔ کیا سنبت آپ کو مضبوط رہنما سے مجبوری کا رہنما بنا رہے ہیں؟ مخالفوں کو کوئی کلن چٹ نہیں دے رہا ہے، مگر وزیر اعظم کو اقتدار میں بٹھانے میں لوگوں نے کیا کوئی کمی کی ہے جس کا بدلہ ایسی خراب سیاسی تہذیب کے ذریعے لیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم چاہیں تو اپنے ان ترجمان کو کچھ دن ٹی وی سے دور رکھیں، یہ تو رہنما ہیں نہیں، جو رہنما ہیں، انہی کا اثر کمزور کر رہے ہیں۔

یہ وزیر اعظم مودی کا اثر ہی ہے کہ نتیجہ آنے سے پہلے کوئی نہیں لکھتا ہے کہ گجرات میں مودی ہار سکتے ہیں۔ گجرات اور ہماچل پردیش میں ہار ہوئی تو وہی ایڈیٹر اور اینکر لکھنے اور بولنےلگیں‌گے کہ تقریروں سے لگ رہا تھا کہ مودی ہار رہے ہیں۔

میں نتیجہ آنے سے پہلے لکھ رہا ہوں۔ آپ بھلے چاہیں جتنا انتخاب جیتیں، لیکن آپ اپنی تقریروں میں ہر دن ہار رہے ہیں۔

(بہ شکریہ  نئی سڑک )