خبریں

کیاانصاف سسٹم کی گود میں گہری نیند سو رہاہے؟

 کیا رویش کمار کی اس جن شنوائی کی مہم سے سسٹم کے بہرے کانوں پر کوئی اثر ہوگا؟ کیا سسٹم کے ستائے لوگوں کو انصاف ملے گا ؟

Ravish_System

یہ  کیسالوک تنترہے جہاں ْلوکٗ یعنی عوام انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہےاور ْتنتر’پوری طرح فیل ہو چکا ہے۔ افرازل ہویا اخلاق ، جسٹس لویا ہوں یا گوری لنکیش ،سب کی کہانیاں کچھ کہتی  ہیں۔انصاف کے ترازو اور ہمارے لوک تنتر پر سوال کرتی یہ کہانیاں دراصل ہمارے سسٹم کے سڑ چکنے سے عبارت ہیں ۔ کہانیاں اور بھی ہیں لیکن انصاف سسٹم کی گود میں گہری نیند سو رہا ہے۔جانے کیوں اس خیال سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہی ہوں۔

ہندوستان اپنی پہچان شاید کھو چکا ہے ،یہ صحیح ہے کہ مایوسی اچھی بات نہیں ،لیکن مجھے یہ مایوسی سے زیادہ وہ کڑوی حقیقت لگتی ہے، جو آنکھیں بند کر لینے سے بدل نہیں سکتی ۔ پچھلے ہفتے معمول کے مطابق ناشتہ کرتے ہوئے یو ٹیوب پررویش کمار کا پرائم ٹائم دیکھ رہی تھی۔ جانے کیا ہوا کہ آنکھیں بھیگنے لگی ،نوالا حلق میں اٹکنے لگا ،جی چاہا کہ نہ دیکھوں ،لیکن کیا میرے نہ دیکھنے سے حقیقت بدل جائے گی ۔’سسٹم کا ستمٗ  سیریز کا یہ پہلا ایپی سوڈ تھا۔میں سوچنے لگی کہ  جسے دیکھنا بھر میرے لیے اتنااذیت ناک ہے اسے کیمرے کے سامنے جینے میں رویش جی کو کس کرب سے گزرنا  پڑتا ہوگا؟ آنکھیں اور کان بند کر لینا ،چینل بدل دینا آسان ہے لیکن اس سچ کو جینا آسان نہیں ۔ لمحہ لمحہ مرنے کی اس کیفیت سے گزرتے ہوئے جب قوت برداشت جواب دینے لگی تو یوں ہی کچھ لکھنے بیٹھی ہوں۔

میں نہیں جانتی کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں ،کہنے کے لیے کچھ ہے بھی یا نہیں، لیکن رات کی یہ تاریکی  میرے اندر بھی اتر تی جارہی  ہے۔ اس روتی ہوئی ماں کے آنسو اندر کہیں قطرہ قطرہ ٹپکتے رہتے ہیں ،جس کے بیٹے سوپنل کو صرف اس لیے بے رحمی سے مار دیا گیا کہ اس نے اپر کاسٹ کی لڑکی سے محبت کی تھی۔ اس بچے کی ْنادان محبتٗ یہ کب جانتی تھی کہ اسے اس لیے مار دیا جائے گا کہ وہ دلت ہے۔ اس کی محبت ْMatureٗہوتی تو شاید ان باریکیوں کو سمجھ پاتا۔لیکن 15 سال کا لڑکا ان سیاسی باتوں کو کیسے سمجھ سکتا تھا۔پولیس کے سامنےسیراٹ فلم2بنانے کی دھمکی دینے اور کسی کو بے رحمی سے مار  دینےوالوں کے اندر آخر اتنی ہمت  کہاں سے آتی ہے یہ سوال بھی ہونا چاہیے۔

اس ماں باپ کے کرب کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتاجو بیٹے کی موت کے بعد انصاف کی لڑائی میں اس قدر تنہا اور بے بس ہو گئے کہ انھیں مہاراشٹرسے دہلی آنا پڑا۔ حالانکہ میڈیا نے اس معاملے کو خوب جگہ دی تھی، لیکن 16 مہینے بعد بھی کچھ نہیں ہوا۔ان کا کیس لڑ رہے وکیل امت پر جان لیوا حملے رک نہیں رہے، ان کی بیوی ممتا کو اپنے شوہر اورڈیڑھ سال کے بچے کو  ہسپتال میں چھوڑ کردہلی آنا پڑتا ہے’کیوں؟ کیوں  کہ بار بار شکایت درج کرانے کے بعد بھی انھیں کسی طرح کا تحفظ نہیں دیا جاتا۔ممتا اور ان کے شوہر دونوں وکیل ہیں ۔عرضیاں دے دے کر تھک چکی ممتا آخر کیا کرے؟اپنے بچے کی موت کے صدمے کے ساتھ جینے والے وہ ماں باپ انصاف کے لیے کہاں جائیں؟ کیا انصاف کے اس سفر کا کہیں کوئی انت ہے؟آخر یہ لوگ کہاں جائیں، کس سے شکایت کریں؟آپ یہ ایپی سوڈ دیکھیے ،ان کی بے بسی اندر تک ہلا دیتی ہے۔ کیا ہمارا سسٹم نپن شک  ہو گیا ہے؟کون لوگ ہیں جو ان قاتلوں کو تحفظ دے رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات رکنے میں نہیں آرہے بلکہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔وہ بے بس تنہا لوگ رویش کے پاس اس امید میں آتے ہیں کہ ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں ۔ اسیْ جن شنوائی کے لیے رویش نے ْسسٹم کا ستمٗ سیریز شروع کی ، ایک امید تو ہے کہ شاید سسٹم کے اندھے اور بہرے ہو چکے کان کچھ سُن پائیں گے؟ لیکن کیا ایسے لوگوں کی آخری امیدصرف  رویش ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی طرح رویش سے ملنے اور انصاف پانے کی امید میں بھٹکتے یہ لوگ کیا ہمارے ْلوک تنتر’کے لیے شرم کی بات نہیں۔ کیوں رویش یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ وہ  بہت سے لوگوں کا دباؤ نہیں جھیل سکتے۔ظاہر ہے کوئی بھی اتنادباؤ نہیں جھیل سکتا۔لیکن کیا اس کا کوئی حل ہے؟

سسٹم کے ستم کی دوسری کہانی میں24 اگست 2017 کوچمبل ایکسپریس کی بوگی نمبر S2  میں سفر کر رہے 23 سال کے راہل سنگھ کوٹرین سے نیچے پھینک دیا جاتاہے۔ اپنی بیوی جیوتی(جو اس وقت 8 مہینے کی حاملہ تھیں)سے ملنےبہار جا رہے اس انجینئر کے گھر اس کی لاش پہنچتی ہے۔ ٹرین میں سفر کر رہے لوگوں سے وصولی اور مار پیٹ کرنے والے ٹی ٹی ای اور آر پی ایف کی ملی بھگت کا ویڈیو بنانے والے راہل کو پہلے ویڈیو ڈلیٹ کرنے کو کہا جاتا ہے ،انکار کرنے پر اسے مارا پیٹا جاتا ہے ،تھوک کر چٹوایا بھی جاتا ہے اور ٹرین سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔سسٹم کے ستم کی اس کہانی میں آپ کو راہل کے والد کے بارے میں بھی جاننا چاہیے جو بی جے پی کے نیتا تھے اور 2007 میں ان کا انتقال ( قتل بھی کہا جاتا ہے)ہو گیا تھا۔راہل  بی جے پی کے نیتا کا بیٹا تھا ظاہر ہے اس کی موت پر آنے والےسیاست دانوں کی ایک لمبی لسٹ بھی ہے لیکن مجرموں کی گرفتاری کے سوال پر ان نیتاؤ کا دیا گیا آشواسن ہی نظر آتا ہے۔راج ناتھ سنگھ ،یوگی آدتیہ ناتھ، پیوش گویل،جنرل وی کے سنگھ، منوج سنہا، گری راج سنگھ، منوج تیواری(اس لمبی لسٹ میں اور بھی نام ہیں) جیسےقدآور نیتاؤ ں سے کئی دفعہ کی گئی ملاقاتوں کا نتیجہْ ایک گلاس پانی اور آشواسنٗ سے زیادہ کچھ نہیں نکلا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں 10 ہفتے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے،جیوتی کو انصاف ملنے کی امید بھی کی جا سکتی ہے لیکن کیا اس کی نارمل زندگی اسے لوٹائی جا سکتی ہے؟ کہانی بھاجپا نیتا کے پریوار کی ہے،آر ایس ایس کےکار کن راجیندر سنگھ سے قریبی تعلقات بھی ہیں لیکن آپ یہ مت سوچیے کہ حکومت آپ کی ہونے سے آپ کو انصاف بھی مل جائے گا۔ حکومت آپ کی ہونے سے اتنا تو ہو سکتا ہے کہ انصاف کا سفر آپ کے لیے ذرا آسان ہو جائے لیکن یہ سفر آپ کو اس ْاذیت اور کربٗ سے خالی نہیں  ملے گا جو ہمارےسسٹم میں اب اس سفر کا مقدر بن چکا ہے۔جیوتی کے آنسوؤں اور اس کی آواز  میں کرب کی یہ داستان سنی جا سکتی ہے۔

سوال یہ  ہے کہ کیوں ہمارا سسٹم ایسا ہے کہ راہل ،سوپنل کے قاتلوں کے حوصلے بلند ہے،آئے دن ہونے والے اس طرح کے واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں؛ جبکہ جیوتی ،امت ،ممتا، سوپنل کے والدین کی زندگی انصاف کے اس لمبے سفر پر ہر روز مرنے کے مترادف ہے۔ان بے یارومددگار ،تنہا’ستم جھیلنے والے لوگوں کی داستان ہمیں اپنے سماج کی وہ کریہہ صورت دکھاتی ہے جہاں ذات اور مذہب کے نام پر لوگ کاٹ کر جلا دیے جاتے ہیں اور باقی لوگ اپر برتھ پر بیٹھے یاتری کی طرح صرف تماشا دیکھتے ہیں۔ ہاں اس صورت میں ہم اپنی خاموشی کا بھیانک چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ رویش کی یہ کوشش سیلیوٹ کیے جانے کے قابل ہے کہ ہم اور آپ اپنے سماج کے اس گھناؤنے چہرے کو دیکھ، سن اور سمجھ پا رہے ہیں۔ ورنہ ْگودی میڈیا ‘کے اس دور میں ہم اور آپ کیا دیکھ رہے ہیں یہ بتانے کی ضرورت شاید نہیں ہے۔

بنیادی طور پر ہماری سوسائٹی ٹرین کے اس ڈبے کے مانند ہو گئی ہے ،جس میں اپَر برتھ والا سکون سے اوپر بیٹھاتماشا دیکھتا رہتا ہےاور اس کے نیچے مڈل اور لوور برتھ والے سونے اور بیٹھنے کے معمول کو لے کر بھی جھگڑا کرتے ہیں ۔ ان کے جھگڑے سے لطف اندوز ہونے والے اپر برتھ کے مسافر پر اس کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کی اپنی دنیا اس سے متاثر نہیں ہوتی، اس کی دنیا  میں یہ لوگ کیڑے مکوڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتےجنھیں کسی بھی وقت بڑی آسانی سے کچلا جا سکتا ہے۔ لیکن اسی سوسائٹی سے کوئی رویش آتا ہے۔یہ اکیلا آدمیْ گودی میڈیا ‘کے اس دور میں دوسرے اینکروں کی بے جا چیخ و پکار کے درمیان بالکل الگ کھڑا نظر آتا ہے۔ اس کے چہرے میں ہمیں اپنے ہندوستان کی وہ تصویر نظر آتی ہے جو ستیم شوم سندرم سے عبارت ہے۔ورنہ ہمارا ہندوستان اب واقعی ْبدلٗ رہا ہے۔

انصاف کے لیے جدوجہد کر رہے ان لوگوں کی کہانی آپ کو ایک سی معلوم ہوگی، کیونکہ انہیں انصاف کے نام پر تسلی دینے والے سیاست دانوں کی لسٹ لمبی ہے ۔ ملاقاتوں کی اس لمبی لسٹ کے باوجود ہوتا کیا ہے؟ہم اور آپ شاید اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ انہیں انصاف ملتا ہوگا لیکن حقیقت کچھ اور کہتی ہے ۔ وقت یوں ہی گزرتا رہتا ہے ،حکمراں بدل بھی جاتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔سوال پھر وہیں آ جاتا ہے کہ کیا غریب ہونا ،اقلیت ہونا، کسی مخصوص جاتیٗ میں پیدا ہونا گناہ ہے؟ اگر لوک تنتر میں بھی عوام کی شنوائی نہیں ہوگی ،تو پھر کہاں ہوگی ؟ کیا کسی کی جان لینا اتنا آسان ہو گیا  ہے؟ ایسے مجرموں کو سزا ہونا تو دور کی بات ہے وہ تو پکڑے بھی نہیں جاتے؟ تو کیا سسٹم ان کے ساتھ ہے ؟ اور اگر نہیں ہے تو انھیں سزا کیوں نہیں ہوتی؟ اس طرح کے واقعات تھمتے کیوں نہیں؟ کیا یہ سب محض طاقت اور روپئے کا کھیل ہے ؟ یا پھر بات کچھ اور ہے؟

راجو آگے کے وکیل ارون جادھو بھی  کچھ اسی طرح کی بات کہتے نظر آتے ہیں کہ یہْ سسٹم غریبوں کو سپورٹ نہیں کرتا بلکہ امیر لوگوں اور اونچے طبقے کی طرف سے کام کرتاہےٗ۔سسٹم کے ستم کی تیسری کہانی مہاراشٹر کے کھرڈا گاؤں کےرہنے والے راجو  کی ہے ۔ جن کے  17 سال کے بیٹے نتِن آگےکو28 اپریل 2014 کو قتل کر دیا جاتا ہے۔وجہ اونچی جاتی کی  لڑکی سے بات کرنا ، کسی کو قتل کرنا کتنا آسان ہو گیا ہے یہ اس وجہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔یہ بات کچھ لوگوں کوپسند نہیں آتی اور نتن آگے کو مار دیا جاتا ہے۔پتا کے مطابق نتن کو مارا پیٹا گیا ،ننگا کیا گیا، گرم سریاسے بدن داغا گیااور پھر پیڑ پر لٹکا دیا گیا۔ اس کاقصورکیا تھا ،دلت ہونا یا اونچی ذات کی لڑکی سے بات کرنا ؟یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کیس  میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا انھیں23 نومبر 2017 کو ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔ٹین کےایک مکان میں رہنے والےاس بوڑھے شخص کو دیکھ کرشاید کچھ دیر کے لیے آپ کی پلکیں بھی نم ہو جائیں جو قرض لے کر اپنے بیٹے کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور انصاف کی امید میں اب تک ڈھائی سے تین لاکھ روپیہ خرچ کر چکے ہیں۔ لیکن اس کے حوصلے کو سلام کیے بغیر شاید آپ بھی نہیں رہ پائیں گے ۔سوال یہ ہے کہ ہمارے اس مفلوج سسٹم میں پتھر توڑنے والے اس بوڑھے مزدور کی سونی آنکھیں کیا اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا ملتا ہوا دیکھ پائیں گی؟

ویڈیو: یونیورسٹیز کے حالات زار پر رویش کمارکے ساتھ دی وائر کی خاص بات چیت

جانے ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو ہمارے سامنے نہیں آپاتیں۔ جانے کتنے یوں ہی انصاف کے لیے لڑتے لڑتے دنیا سے ودا ع ہو جاتے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا رویش جی کی اس جن شنوائی کی مہم سے سسٹم کے بہرے کانوں پر کوئی اثر ہوگا؟ کیا سسٹم کے ستائے لوگوں کو انصاف ملے گا ؟ جواب میں نہیں جانتی لیکنْ یونیورسٹی سیریز ‘کرنے کے بعد کیا ہوا یہ بتانے کی ضرورت شاید  نہیں ہے ۔

اتنی کہانیاں ہیں کہ آپ گنتے گنتے شاید تھک جائیں لیکن یہ گنتی ختم نہیں ہوگی۔ کہیں کوئی افرازل ہے ،کوئی اخلاق،کوئی نتِن  اور اس تعداد میں مسلسل اضافے ہو رہے ہیں۔یہ سیریز ابھی جاری ہے ایسی کئی کہانیاں بھی ہوں گی جو ہم تک، آپ تک نہیں پہنچ پاتی کہ ہماری ْ گودی میڈیا ‘میں رویش جیسے لوگوں کی بھاری کمی ہے ۔ لیکن وہیں سوہت مشر،ارون جادھو،نتِن سنکیت،کلدیپ شرما،امت،ممتاجیسے لوگ بھی ہیں جو بے بس لاچار،غریب لوگوں کے لیے بولنا جانتے ہیں ،لڑنا جانتے ہیں اور شاید اتنے اندھیرے میں یہی لوگ روشنی کی وہ کرن ہیں جوبھلے چھوٹی اور مدھم  ہوں لیکن ہمیں اندھیرے سے لڑنے کی قوت ضرورعطا کرتی ہیں۔