فکر و نظر

نفرت سے بھرا انڈیا ہی ’نیو انڈیا ‘ہے

 راجسمند میں افرازال کے وحشیانہ قتل کے باوجود ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی گجرات میں مسلمان اورپاکستان کا حساب کتاب لگا رہے تھے۔

Shambhunath-Raiger-Afrazul-Murder

وزیر اعظم دفتر (پی ایم او)سے ای میل آیا ہے-’ٹاپ اسٹوریز آف دی فورٹنائٹ ‘یعنی اس ہفتے عشرے کی سب سے بڑی خبریں۔ سب سے بڑی خبریں یعنی حکومت کی سب سے بڑی کامیابیاں۔ اس میں سب سے پہلی ہیڈلائن ہے، ‘واٹ اوانکا ٹرمپ سیڈ اباؤٹ پرائم منسٹر نریندرمودی؟’یعنی ‘اوانکا ٹرمپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کیا کہا؟ ‘بتا دیں کہ اوانکا ٹرمپ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی بیٹی ہیں اور اس پکھواڑے ہندوستان آئی تھیں۔

حیدر آباد میں ایک کانفرنس میں اوانکا نے مودی جی کے بارے میں کہا کہ ‘معمولی پس منظر سے وزیر اعظم کےعہدے تک کا ان کا سفر بےحد ترغیبی ہے ‘۔اوانکا کا یہ لفظ ملک کی حکومت کے لئے اس ہفتے عشرے کی سب سے بڑی خبر ہے۔ اوانکا کے بیان سے مودی جی کے  عام اور معمولی پس منظر پر امریکہ کی مہر لگ گئی ہے۔اوانکا کا لفظ مودی جی‌کے ناقدین کے منھ پر ایک طمانچہ ہے۔ کم بختوں، جو بات امریکہ کی اوانکا کو بھی معلوم ہے اس پر تم نے سوال کھڑے کئے! لیکن اس کے ساتھ ایک موقع بھی حکومت نے گنوا دیا۔ لگتا ہے اوانکا کو اس کی جانکاری نہیں دی گئی کہ مودی جی بچپن میں مگرمچھ سے لڑ گئے تھے۔ وہ اس پر بھی مہر لگا دیتی تو وزیر اعظم جی کی ساکھ اور بھی بڑھ جاتی۔

اس کے علاوہ، اوانکا سے کہہ دیتے تو وہ کسی امریکی یونیورسٹی سے وزیر اعظم جی کو بی اے کی اعزازی ڈگری بھی دلوا دیتی۔ یہاں والی ڈگری پر لوگ ابتک شک کر رہے ہیں۔ خیر ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ اوانکا کے ڈیڈی سے کہہ‌کر یہ کام کروایا جا سکتا ہے۔دوسری بڑی خبر ہے کہ دوسری سہ ماہی (یعنی اس سال کے اپریل، مئی اور جون) میں جی ڈی پی شرح بڑھ گئی ہے۔ جی ڈی پی میں اضافہ کو ثابت کرنے کے لئے جو اعداد و شمار دئے گئے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ اس سہ ماہی میں ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد میں 13 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افرازل کا قتل، ”لو جہاد “ کا متھ اور ہندوستانی میڈیا

ان 13 فیصد لوگوں کے تئیں ملک کو احسان مند ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کی حصے داری پچھلے پکھواڑے ملک کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ اگر آج ملک میں کوئی امید ہے تو انہی لوگوں سے ہے۔ سائیکل چلانے والوں یا پیدل چلنے والوں کے بھروسے ملک کو بھلا کیا حاصل ہوگا؟لیکن ہوائی سفر کے معاملے میں اس عشرے کی سب سے بڑی خبر تو چھوٹ ہی گئی ہے۔ اس ہفتے عشرے کے سب سے بڑاہوائی سفر تو خود مودی جی نے کیا۔

سی-ہوائی جہاز میں انتخابی کرتب دکھاتے ہوئے۔ سی-ہوائی جہاز سے ہاتھ لہراتے مودی بالی ووڈ کے کسی ہیرو سے کم نہیں لگ رہے تھے۔ گجرات انتخاب میں سارے داؤ کھیلے گئے۔ پاکستان تک کو گھسیٹ لیا گیا۔ بس ایک کمی تھی کسی فلمی اسٹنٹ کی۔ سو وہ بھی مودی جی نے پوری کر دی۔ہیرو-ہیروئن کی پرکشش مگر جھوٹی امیج سے بھری فلمیں خوب ہٹ ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار پٹ بھی جاتی ہیں۔ گجرات میں کس کی فلم ہٹ ہوگی اور کس کی پٹے‌گی یہ تو گجراتیوں کے اوپر ہے۔

فوٹو ُپی ٹی آئی

فوٹو ُپی ٹی آئی

خیر، ہم واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں۔ ہفتے عشرے  کی سب سے بڑی خبروں پر۔ حکومت کی سب سے بڑی کامیابیوں پر۔ اصل میں وزیر اعظم دفتر یہاں ایک بار پھر چوک گیا۔ اس پکھواڑے کی سب سے بڑی کامیابی نہ تو اوانکا کےمنھ سے مودی جی کی تعریف ہے اور نہ ہی جی ڈی پی میں اچھال۔اس پکھواڑے مودی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے قتل کی حمایت میں کھڑی بھیڑ اور نفرت ودیوانگی سے بھری بھیڑ۔خبر ہے کہ راجستھان کے راجسمند میں محمّد افرازال کے قاتل کی مدد کے لئے پانچ سو سے بھی زیادہ لوگوں نے اس کی بیوی کے کھاتے میں ڈھائی لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ عطیہ کیا ہے۔یہی نہیں، اس کی حمایت میں ادئےپور میں ریلی بھی ہوئی ہے۔ ریلی میں شامل وطن پرستوں نے پتھربازی کی جس میں تقریباً بارہ پولیس والے زخمی ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افرازل کے قتل کی وجہ ’لوجہاد‘ نہیں’ بھگوا آتنک‘ ہے

گجرات فسادات کے بعد بھی میں نے کئی لوگوں کے منھ سے سنا تھا کہ مسلمانوں کو وہاں اچھا سبق سکھایا گیا ہے۔ لیکن وہ یہ دبی زبان میں ہی کہتے تھے، عوامی طور پر نہیں۔نفرت تھی لیکن عام حالات میں اس کا کھلم کھلا اجتماعی مظاہرہ نہیں تھا یا کم سے کم اتنے بڑے پیمانے پر تو نہیں ہی تھا۔پچھلے تین سال میں یہ تبدیلی آئی کہ نفرت کا اظہار عوامی طور پر کیا جانے لگا ہے۔ لیکن یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ کسی قتل کی حمایت میں اس طرح کا مظاہرہ کیا گیا ہو۔

اس طرح کی نفرت سے بھری اجتماعی کاروائیاں عام طور پر فسادات کے ماحول میں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن راجسمند میں کوئی فساد تو نہیں ہوا تھا، قتل ہوا تھا۔پھر یہ اجتماعی مظاہرہ کیا اشارہ کرتا ہے؟ دراصل یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نفرت والی اجتماعیت ہمارے ملک میں اب ایک ‘ عام ‘ بات بنتی جا رہی ہے۔یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب نفرت کے ماحول کو لگاتار بنائے رکھا جاتا ہے۔ اس میں وقت وقت پر جان ڈالی جاتی ہے۔ اس کو لگاتار سلگائے رکھا جاتا ہے۔جب نفرت کو لگاتار منظم کیا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ‌کر، جب نفرت کرنے والی بھیڑ کو اقتدار سے تحفظ کا بھروسا ہوتا ہے۔

ویڈیو: افرازل کا قتل،’لو جہاد‘اور ملک میں نفرت کی سیاست

یہ حساب کتاب ملک میں پورا بیٹھ چکا ہے۔ یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے کہ راجسمند میں ہوئے وحشیانہ قتل کے باوجود ملک کے وزیر اعظم گجرات میں مسلمان اور پاکستان کا حساب کتاب بٹھا رہے تھے۔اس کو مودی جی‌کے بڑکپن کی انتہا ہی کہیں‌گے کہ یہ مضمون لکھے جانے تک ملک کے وزیر اعظم کی طرف سے اس قتل کی اور قاتل کی حمایت میں ابھری حمایت کی کوئی تنقید تو دور ، رسمی افسوس تک نہیں جتایا گیا ہے۔راجسمند میں ہوئے قتل اور اس کے بعد قاتل کی حمایت میں ایسی حمایت کوئی چھوٹا-موٹا واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک بڑے کرشمےکا اشارہ ہے۔

اب قاتلوں کے ساتھ کھڑی بھیڑ کھل‌کر کہے‌گی کہ وہ قاتل کے ساتھ اسی لئے کھڑی ہے کیونکہ اس نے قتل کیا ہے۔ اور لوگوں کو اس حد تک پرجوش کرنے کے لئے کسی فساد کی ضرورت نہیں ہوگی۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

نفرت کا ماحول اب اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ یہ خونخوار بنتا جا رہا ہے۔ نفرت سے بھری ہوئی دیوانگی ہی اب عام حالت ہے ہمارے ملک میں، ‘ نیو انڈیا ‘ میں۔یہ اس حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ صرف اس پکھواڑے کی نہیں ابتک کے ساڑھے تین سالوں کے سب سے بڑی کامیابی۔ اور نہ جانے کیوں، مودی حکومت کے سر پر کامیابی کا یہ سہرا باندھتے ہوئے میرے ہاتھ کپکپا رہے ہیں۔

(مضمون نگار آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں ، بھوپال میں رہتے ہیں۔)