فکر و نظر

جیت گئے الیکشن تو’وکاس‘ یادآیا…

وہ وکاس جو چناوی تقریر میں  گم ہو گیا تھا جیت کے بعد واپس مل گیا ہے اور اب وکاس کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے۔اچانک جیت کے بعد وکاس کا لوٹ آنا بھی ایک سوال ہے کہ کیا وکاس صرف نعرے بازی کے لیے رہ گیا ہے؟

Photo : PTI

Photo : PTI

الیکشن کے نتائج  آچکے ہیں ،جیت اور ہار کے اعدادوشمار کا مطالعہ ظاہر ہے سیاسی تجزیہ کار وں نے کیا ہے اور بہت سی باتوں پر روشنی بھی ڈالی چکی ہے۔ لیکن ان مباحث سےپرے میرے جیسے عام لوگ جو اعداد وشمارکی باریکیوں کو  زیادہ نہیں سمجھ پاتے؛ ان کے لیےالیکشن کے نتائج کی کہانی کیا  کہتی ہے؟شاید گجرات اور ہماچل پردیش کے نتیجے ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ہندوستان واقعی بدل رہا ہے۔ جتنی تیزی سے بھگوا کے گاڑھے رنگ نے ہندوستان کے مختلف رنگوں کو ہلکا کرنا  شروع کیا ہے بی جے پی کی یہ جیت اسی کی مثال کہی جا سکتی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس رنگ کے پس پشت کون سی فکر کام کر رہی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ پچھلی دفعہ کے مقابلے میں یہ جیت اتنی بڑی  نہیں اور کانگریس نے گجرات میں بی جے پی کو کانٹے کی ٹکّر بھی دی ہے۔ لیکن اس سے اس سوال کی اہمیت کم نہیں ہوتی کہ کیا ہمارا ملک بھگواہو رہا ہے؟

تاریخ سے چھیڑ چھاڑ، مخصوص کہانی والی فلم کی ریلیز روکنےسے لے کر کسی کے قتل تک؛ جتنے بدلاؤ ہم دیکھ رہے ہیں ان  سب کو ذہن میں رکھیے۔ان باتوں کو یاد رکھنا  اس لیے بھی ضروری ہے کہ چناوی بیان بازیوں سے ‘وکاس’  تقریباًغائب رہا ؛مذاکروں سے  یہ بات بھی سامنے آرہی  تھی کہ گجرات میں وکاس کی لہر نہ صرف تھم گئی ہے بلکہ وکاس کے گراف میں  گراوٹ بھی درج کی گئی  ہے۔سورت کے کاروباریوں کا غصہ بھی یادکر لیجیے۔  پھریہ جیت کی کہانی  کچھ اور کہتی نظر نہیں آ رہی؟ایک پہلو یہ بھی  ہے کہ عوام کے پاس Optionsنہیں ہیں، آخر وہ کس نیتا ،کس پارٹی کا انتخاب کرےکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ،ہماچل میں کانگریس کی حکومت کے بعد بی جے پی کی واضح اکثریت شاید یہی کہتی ہے ۔گجرات کی بات کریں توتقریباً2 فی صد لوگوں نے NOTA کو چنا ہے ، بی جے پی اور کانگریس کو چھوڑ کر یہ فیصد کسی بھی دوسری پارٹی کو ملنے والے ووٹ سے زیادہ ہے۔ذرا سوچیے کہ لوگوں نے بی جے پی اور کانگریس سمیت دوسری پارٹیوں پر (NOTA)کو ترجیح کیوں دیا؟لیکن یہاں جیت اور ہار کی دنیا میں گم پارٹیاں اس پر بات بھی نہیں کریں گی ۔

تصویر کے دوسرے رخ میں گجرات میں جگنیش میوانی،الپیش ٹھاکور کی جیت بہت خاص  ہے۔اس طرح کی تبدیلیوں کے پس پردہ ہاردک پٹیل کو  کم آنکنا صحیح نہیں ہوگا۔ دراصل یہ نوجوان ہماری سیاست کے وہ چہرے ہیں جنھوں نے اس تسلیم شدہ افواہ کو بہت حد تک غلط ثابت  کیا ہے کہ گجرات میں مودی کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔بی جے پی کی گنتی تہائی سے دہائی(99 ) تک کا سفر طے کر چکی ہےاور نریندر مودی کا ہوم ٹاؤنVadnagar بھی گنوا چکی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ خود بی جے پی کے شتروگھن سنہانےٹوئٹ کر کے ان نوجوانوں کو کچھ یوں مبارکباد دی ہے:

  لیکن سوال اب بھی وہی ہے کہ مذہبی تعصب،پاکستان اور رام جنم بھومی جیسے مدعوں پر کیا الیکشن  جیتنا اب آسان ہو گیا ہے؟اور کیا اس سوال کی سنجیدگی کو99اور 150 کے اعدادوشمار کے درمیانی جنگ کی نذرکر دینا صحیح ہوگا؟ کچھ لوگ یہی سوچ کر خوش ہیں کہ بی جے پی کےبھاری انتر سے جیت کے دعووں کی ہوا نکل گئی ہے، وہیں دوسری طرف جیت کے جشن میں ڈوبے لوگ’وکاس‘ اور عوام کو شاباشی دے رہے ہیں۔غرضیکہ شاباشی اور شکریے کا سلسلہ دونوں خیموں میں  جاری ہے ،اور وکاس دونوں جگہ سے غائب ہے ۔ہندوستان کے بنیادی مسئلے ان دونوں خیموں میں  نہیں  ہیں۔جس ملک میں لوگوں کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہ ہو،پینے کے لیے صاف پانی نہ ہو،کرشی پردھان دیش کہلانے والے ملک میں کسان خود کشی کر رہے ہوں،نظام تعلیم خستہ ہو، یونیورسیٹیز میں اسامیاں خالی ہوںاورنوجوان بے روزگار گھوم رہے ہوں؛وہاں نفرت کی  سیاست کے ذریعے ستا حاصل کر کےاپنی پیٹھ ٹھونکنے والے نیتاؤ کو کیا کہا جانا چاہیے،میں نہیں جانتی۔لیکن انتخاب کے نتیجے دیکھتے وقت اس سوچ کے ساتھ کہیں اٹک گئی ہوں کہ اگر مذہبی تعصب کے بل بوتےپر ستّا پانا آسان ہو گیا ہے تو پھر غریبی ،بھوک مری، بے روزگاری، نا خواندگی جیسے مسئلوں پر کون نیتا اپنا وقت برباد کرے گا؟اگرنوآبادیاتی دور کی’پھوٹ ڈالو اور راج کرو ‘والی پالیسی آج بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے،مذہب اور ذات پات کے نام پر حکومت کرنااتنا ہی آسان ہے تو پھر سوال یہ بھی ہے کہ آخرہم ہر سال کس آزادی کا جشن اتنے فخر سے مناتے ہیں؟

 سوال یہ بھی ہے کہ ہم نفرت کی سیاست  کا شکار ہو رہے ہیں اور آہستہ آہستہ ہمارے ملک کا رنگ بھی بدل رہا ہے۔ سیاسی باتیں جانے دیجیے،ہمارے سماج میں وہ پہلی سی محبت بھی نہیں رہی؛دوست ہوں یا آس پڑوس کے لوگ سب کے سوچنے کے طریقے اچانک بدل گئے ہیں ۔ اچانک کہنا شاید ٹھیک نہیں ہوگا لیکن’مودی لہر ‘نے اندھ بھکتوں کی کچھ ایسی کھیپ تیار کی ہے کہ فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے کون جاہل ہے اور کون ذی علم۔ اپنا دماغ اور اپنی آنکھیں استعمال کرنے والے اب اس زحمت سے آزاد ہو چکے ہیں۔دوستی میں ایسے تلخ تجربے اب عام ہو گئے ہیں۔ فیض کے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ’والے مصرعے پر عمل کرتے ہوئے محبت تک میں مذہب گھس آیا ہے۔ مجھے آج منٹو کا افسانہ ‘دو قومیں ‘بھی یاد آرہا ہے کہ نفرت کے اس سفر کا شاید کوئی انت نہیں۔

اتنے فرقہ وارانہ واقعات کے بعد بھی بی جے پی کی جیت اسی بدلاؤ کی طرف اشارہ کرتی ہے،جس میں مذہبی منافرت کا رنگ شامل ہے۔ ایسا کہا جا سکتا ہےکہ بھگوا رنگ ہندوستان کی مخصوص  پہچان ’انیکتا میں ایکتا ‘والے رنگ کوہلکا  کر رہا  ہے ۔ حال کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں بھگوا رنگ ترنگا بننے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ گجرات اور ہماچل کی یہ جیت اسی کوشش کی ایک ادنیٰ صحیح لیکن بہر حال کامیاب تو کہی ہی جائے گی ۔ اب یہی دیکھیے کہ وہ وکاس جو چناوی تقریر میں  گم ہو گیا تھا جیت کے بعد واپس مل گیا ہے اور اب وکاس کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے۔اچانک جیت کے بعد وکاس کا لوٹ آنا بھی ایک سوال ہے کہ کیا ‘وکاس ‘صرف نعرے بازی کے لیے رہ گیا ہے؟ وزیر اعظم کےیہ ٹوئٹ دیکھیے:

’جیتا وکاس ،جیتا گجرات

جے جے گروی گجرات ‘

’ہماچل پردیش میں لہرایا کمل ، وکاس کی ہوئی بھویہ جیت‘

کانگریس کا ’وکاس پاگل ہو گیا ہے‘والا نعرہ بھی آپ کو یاد ہی ہوگا۔فرقہ وارانہ تعصبات کو بڑھاوا دینے کے بعد یہ چھوٹی جیت ہی بڑی معلوم پڑنے لگتی ہے۔ کیونکہ یہ جیت ملک میں دھیرے دھیرے ہی سہی ؛لیکن آ رہے بدلاؤ کو درشاتی ہے۔ عدم گونڈوی نے کچھ یوں کہا تھا کہ :

پار کر پائے گی یہ کہنا مکمل بھول ہے

 اس عہد کی سبھیتا نفرت کے ریگستان کو

نفرت کا یہ ریگستان اب ہندوستان میں پھلنے پھولنے لگا ہے ۔جسے پار کر پانا شاید آنے والی نسلوں کے بس کی بات نہ ہو۔لیکن ان نوجوانوں کی تکڑی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو ایک نئی امید کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔اس سیاسی اٹھا پٹک میں ہندوستان اپنی مخصوص شناخت کو برقرار رکھ پائے گا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ، فی الحال عدم گونڈوی کے لفظوں میں ہی ‘جسم کیا ہے روح تک سب کچھ خلاصہ دیکھیے؛ آپ بھی اس بھیڑ میں گھس کر تماشا دیکھیے’۔تو آئیے ہم بھی دیکھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ملک کی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے۔حالانکہ ہمیں  اپنے ملک کی اس سیاسی تاریخ کوبھی نہیں بھولنا چاہیے جب  ایک شخص نےعوام کے ہی سپورٹ سے اندرا گاندھی کا تختہ پلٹ دیا تھا۔