حقوق انسانی

’طلاق ثلاثہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ‘

مسلم خاتون کارکنوں نے کہا، مجوزہ قانون میں طلاق ثلاثہ کے ساتھ نکاح، حلالہ اور ایک سے زیادہ شادی کا مسئلہ  بھی شامل ہو۔ تمام سیاسی جماعتیں مل‌کر مسلم خواتین کے مدعوں کو حل کریں۔

Talaq_MWomen

نئی دہلی : ایک بار میں تین طلاق (طلاق بدعت) کے خلاف بل لانے کی حکومت کی تیاری کے درمیان مسلم خواتین  کارکنوں  نے کہا کہ مسلم خواتین کو انصاف دلانے کا مقصد تب تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک مجوزہ قانون میں نکاح، حلالہ، ایک سے زیادہ شادی اور بچّوں کے تحفظ جیسے مسئلوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔

مرکزی کابینہ نے گزشتہ جمعہ کومسلم خواتین کی شادی سےمتعلق تحفظ بل کے مسودہ کو منظوری دے دی ہے۔ اس بل کو پارلیامنٹ  کے موجودہ سرمائی اجلاس میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ اس مجوزہ قانون میں تین طلاق دینے والے شوہر کے لئے تین سال کی جیل اور جرمانے کی سزا اور متاثرہ کے لئے گزارا بھتہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے 22 اگست کے اپنے فیصلے میں طلاق  ثلاثہ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔ طلاق ثلاثہ کی روایت کے خلاف لمبی مہم چلانے والی تنظیم    بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن (بی ایم ایم اے) کی بانیوں میں سے ایک ذکیہ  سومن نے کہا، حکومت جو بل لےکر آ رہی ہے، اس کا ہم استقبال کرتے ہیں۔ آگے انہوں نے کہا، لیکن معاملہ صرف طلاق ثلاثہ تک محدود نہیں ہے اور ہماری لڑائی کسی کو سزا دلانے کی نہیں ہے، بلکہ مسلم خواتین کو انصاف دلانے کی ہے۔ نکاح،حلالہ، شادی کی عمر، بچّوں کے تحفظ جیسے مسئلوں  کی ابھی تشخیص نہیں ہوئی ہے۔ ان مدعوں کو حل کرکے ہی مسلم خواتین کو انصاف مل سکے‌گا۔ذکیہ  نے کہا، اس بل کو ہم شروعات مان رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام جماعت مل‌کر مسلم خواتین کے مدعوں کا حل تلاش کریں۔ آگے ہم دوسرے مدعوں کو لےکر کوشش کرتے رہیں‌گے۔

جئے پور کی سماجی کارکن اور مسلم وومین ویلفیئر سوسائٹی کی نائب صدر نسیم اختر نے کہا، طلاق ثلاثہ کے معاملے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ حکومت نئے قانون میں مسلم خواتین سے منسلک دوسرے مدعوں کو بھی شامل کرے۔ سبھی کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ مسلم خواتین کی زندگی بہتر ہو۔ غور طلب ہے کہ نسیم اختر اپنی بہن کے تین  طلاق  سے متعلق معاملہ کو سپریم کورٹ گئی تھیں۔سماجی کارکن اور مسلم وومین لیگ کی جنرل سکریٹری نائش حسن نے کہا، ہم چاہتے ہیں کہ آگے چل‌کر قانون میں نکاح حلالہ، کثیرالازدواجی، قلیل مدتی شادی اور بچّوں کے تحفظ کے مدعوں کو بھی شامل کیا جائے۔ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ لوگ متاع کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں جو خواتین کے خلاف ایک طرح کا جنسی جرائم ہے۔ ان مدعوں کا حل کیا جانا ضروری ہے۔

حکومت نے گزشتہ 15 دسمبر کو اس مجوزہ قانون کے مسودہ کو منظوری دے دی جس کے تحت ایک بار میں تین طلاق  یعنی طلاق بدّعت کو غیر قانونی اور ناقابل قبول ٹھہرایا جائے‌گا اور ایسا کرنے والے شوہر کو تین سال جیل کی سزا ہوگی۔ ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ مسلم خواتین کی شادی کے حقوق کے تحفظ بل پر مرکزی کابینہ نے غور و فکر کی اور اپنی منظوری دی۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی صدارت والے انٹر منسٹریل گروپ نے بل کا مسودہ تیار کیا تھا۔ اس گروپ میں وزیرخزانہ ارون جیٹلی، وزیر خارجہ سشما سوراج،  وزیر قانون روی شنکر پرساد اور وزیر ریاستی قانون  پی پی چودھری شامل تھے۔مجوزہ قانون صرف ایک بار میں تین طلاق  کے معاملے میں نافذ ہوگا اور اس سے متاثرہ کو حق ملے‌گا کہ وہ مناسب گزارا بھتہ کی مانگ کرتے ہوئے مجسٹریٹ سے رابطہ کر سکے۔غور طلب ہے کہ گزشتہ 22 اگست کو سپریم کورٹ  نے ایک بار میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔

مسلم خواتین کے حقوق کی پیرو کاری کرنے والی تنظیم   بی ایم ایم اے  نے کانگریس کے نو منتخب صدر راہل گاندھی سمیت ملک کے اہم حزب مخالف رہنماؤں کو حال ہی میں خط لکھ‌کر سفارش کی ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے ایک بار میں تین طلاق پر پابندی عائدکرنے کے لئے لائے جا رہے بل کی حمایت کریں۔طلاق ثلاثہ کے معاملے میں سپریم کورٹ  میں متاثر مسلم خواتین کی پیروکاری کرنے والی بی ایم ایم اے کی شریک بانی نورجہاں سفیہ نیاز اور ذکیہ  سومن نے 15 دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ تنظیم نے راہل کے علاوہ ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی، سپا کے صدر اکھلیش یادو، بسپا کی صدر مایاوتی اور سی پی آئی (ایم) کےجنرل سیکریٹری سیتارام یچوری کو بھی خط لکھا ہے۔

سفیہ نیاز نے کہا، طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کرنے سے متعلق بل پارلیامنٹ کے موجودہ سیشن میں پیش کئے جانے کی امید ہے۔ پارلیامنٹ میں اس بل کو منظور کرانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو تعاون کرنا چاہئے۔ راہل کو لکھے خط میں بی ایم ایم اے نے کہا، ہم ہندوستانی مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والے قانونی امتیازات کو ختم کرنے کے لئے آپ سے تعاون چاہتےہیں۔تنظیم نے کہا، گزشتہ کچھ سالوں میں مسلم خواتین نے خاندانی معاملوں میں انصاف اور مساوات کی مانگ کو لےکر اپنی آواز بلند کی ہے۔ سپریم کورٹ  نے 22 اگست کے اپنے فیصلے میں ایک بار میں طلاق ثلاثہ کو منسوخ کر دیا تھا، لیکن نکاح، حلالہ، کثیر الازدواجی، شادی کی عمر، بچّوں کے تحفظ جیسے مدعوں کی  ابھی تشخیص نہیں ہوئی ہے۔ مسلم خواتین کو ان کے قرآن میں دئے حقوق اور آئینی حقوق  دونوں سے محروم رکھا گیا ہے۔

بی ایم ایم اے نے حال ہی میں مسلم فیملی قانون کے نام سے ایک مسودہ تیار کیا تھا اور حکومت سے مانگ کی تھی کہ اسی کے طرز پر قانون بنایا جائے۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی قانون میں طلاق ثلاثہ کے علاوہ نکاح، حلالہ، کثیر الازدواجی، شادی کی عمر، بچّوں کے تحفظ جیسے مدعے بھی شامل کئے جائیں کیونکہ ایسا کئے بغیر مسلم خواتین کو پوری طرح انصاف نہیں مل پائے‌گا۔دوسری طرف، حکومت جو بل لا رہی ہے وہ صرف طلاق بدّعت سے منسلک ہے۔ اس کے تحت ایک بار میں تین طلاق دینے والے شوہر کو تین سال جیل کی سزا ہو سکتی ہے اور متاثرہ گزارابھتہ کی مانگ کرتے ہوئے مجسٹریٹ کا رخ بھی کر سکتی ہے۔بی ایم ایم اے نے راہل سے کہا،پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس میں حکومت کے بل پر بحث کے وقت ہمارے مسودہ  کو بھی آگے بڑھایا جائے۔ مسلم خواتین کے خلاف قانونی امتیازات کو ختم کرنے اور انصاف دلانے کے لئے ہم آپ کا تعاون چاہتے ہیں۔

مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عبّاس نقوی نے اتوار کو راجستھان کے الور میں کہا کہ ایک بار میں تین طلاق کے خلاف بل کو پارلیامنٹ کے موجودہ سیشن میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے‌گی اور امید ہے کہ تمام سیاسی جماعت اس کی حمایت کریں‌گے۔ نقوی نے کہا، کچھ لوگ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ یہ بل لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے لایا جا رہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مودی حکومت صرف مسلم خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لئے یہ بل لا رہی ہے۔

انہوں نے کہا، طلاق ثلاثہ کا معاملہ مذہبی نہیں بلکہ یہ غلط رسم و رواج  سے جڑا ہوا ہے۔ ستی پرتھا اور بچہ شادی کے خلاف قانون بن سکتے ہیں تو پھر طلاق ثلاثہ پر قانون کیوں نہیں بننا چاہئے۔ اس پر بہت پہلے قانون بن جانا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ شاید ووٹ بینک کی سیاست اس میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھی۔ پر اب قانون بنے‌گا۔

انہوں نے کہا، ہماری کوشش ہے کہ پارلیامنٹ کے اسی سیشن میں یہ بل پیش کیا جائے امید کرتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعت اس کی حمایت کریں‌گے۔ اس سے پہلے نقوی نے یہاں وزارت کی طرف سے منعقد پروگریس پنچایت میں کہا، طلاق ثلاثہ کا مدعا بہت لمبے وقت سے پریشانی کا موضوع بنا ہوا تھا۔ حکومت اس کو لےکر قانون لا رہی ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ قانون کسی کو پریشان کرنے کے لئے نہیں بن رہا ہے، بلکہ یہ مسلم خواتین کو ان کا آئینی حق دلانے کے لئے ہے۔

دریں اثنا بے باک کلیکٹواور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پندرہ تنظیموں اور تقریباً 100 کارکنوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے خواتین گروپس سے صلاح مشورہ ضرور کریں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ذاتی تجربوں کو شامل کیے بغیر کسی بھی طرح کا قانون بنانا انصاف نہیں دلا سکتا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)