فکر و نظر

امبیڈکرسے مودی اور سنگھ کے پیارکی حقیقت

امبیڈکر نے کہا تھا؛’اصل میں دنیا میں دو  ذات ہے، پہلا امیر اور دوسرا  غریب’۔مودی حکومت کی  نوٹ بندی، جی ایس ٹی، فلاحی کاموں سے سرکار کی کنارہ کشی  اور سرمایہ داروں کے مفاد کے لئے ہر روز  نئی پالیسی کا نفاذ کسی بھی طرح سے امبیڈکر کے نظریات سے میل نہیں کھاتے۔

Shri B.R. Ambedkar in his office.

7دسمبرکے روز دہلی میں واقع  ڈاکٹر بی آر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر(اے آئی سی)   کا افتتاح کرتے ہوئے ،  وزیر اعظم نریندر مودی نے  گاندھی نہرو خاندان پر بابا صاحب کو   نظر انداز کرنے کا الزام لگایا- حالانکہ انہوں نے اپنی پوری تقریر میں  گاندھی نہرو خاندان کابراہ راست نام نہیں لیا، پھر بھی وہاں موجود لوگ آسانی سے سمجھ گئے کہ  ان کا  اشارہ کس طرف تھا ۔

امبیڈکرکو نظر انداز کرنے  کا  وزیر اعظم کا  الزام  نیا نہیں ہے۔گزشتہ کچھ سالوں سے ،  بھگوا تنظیم آر ایس ایس اور اس کی معاون جماعتیں، امبیڈکر کو اپنا “دیوتا” اور خود کو ان کا ” سچا” مقلدبنانے  کی کوشش کر رہی ہیں ۔اس کے پیچھےان کا بڑا مقصد ہے یہ ہے کہ دلتوں کے بیچ  جگہ  بنائی جائے اور انہیں  ہندوتوکا  “فوٹ سولزر ” (پیدل سپاہی)  بنایا جائے۔

بھگوا تنظیم کی یہ سازش اس وقت  تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک دلتوں کے تعلقات سیکولر طاقتوں ،روشن خیالوں اور اقلیتی طبقات بالخصوس مسلمانوں، سے استوارہیں۔دلتوں کو اپنی طرف راغب کرنے لئے آر ایس ایس  اور  اس کی معاون تنظیمیں خود کو  بابا صاحب کا  پیروکار اور   مقلد  بتاتی  رہی ہیں وہیں دوسری جانب  وہ  اپنے حریفوں پربابا صاحب  سے  دغا کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔

اے آئی سی کو قائم کرنے کا مقصد  امبیڈکر کے نظریہ، فلسفہ اور  ان کے تعلیمات کو فروغ دینا ہے۔عالمی طور پر امبیڈکر تحریک سے وابستہ سرگرمیوں کے فروغ سے لے کر آپسی تال میل بنانے کی سمت میں کام کرےگا۔ثقافتی امور کے علاوہ ، عدم مساوات کے خلاف  لڑائی اور انسانی حقوق کی پامالی پرروک تھام اس ادارہ  کے اہم مقاصد میں شامل ہیں۔

مگر بہت سارے  امبیڈکر کے ماننے والوں  کا خدشہ ہے کہ  کہیں یہ ادارہ  بھی، امبیڈکر کے نام پر بننے والے دیگر اداروں کی طرح، بے  توجہی کا شکار نہ ہو جائے۔

مودی کی مذکورہ تقریر کو اسی سیاق اور پس منظر میں دیکھاجانا چاہئے۔   وزیر اعظم  نےاس تقریر کا زیادتر حصہ حریفوں کی تنقید  اور  مرکزی حکومت کی حصولیابی پر اپنی  پیٹھ تھپتھپانے میں صرف کیا۔  اپنی بات شروع کرنے  کے کچھ ہی منٹ کے اندر  وہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پائے اور  نہروگاندھی پر برس پڑے۔

  انہوں نے اس بات کی بھی قطعی پروانہیں کہ وہ آر ایس ایس کے “پرچارک” نہیں بلکہ بحیثیت ملک کے وزیر اعظم بول رہے تھے: ‘ان  (امبیڈکر)کے جانے بعد سالوں تک ان کے افکار  کو دبانے کی کوشش ہوئی۔ ملک کی تعمیرمیں ان کی خدمات کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔

لیکن بابا صاحب کے افکار کو  ایسے لوگ  ہندوستانی عوام کےتخیل سے قطعی ہٹا نہیں پائیں۔  اگر میں یہ کہوں کہ جس خاندان کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا اس  خاندان سے زیادہ لوگ آج بابا صاحب سے متاثر ہیں، تو میری یہ بات غلط نہیں ہوگی۔

مودی کا یہ الزام پوری حقیقت کو بیان نہیں کرسکا۔  اس  بات سے کوئی  بھی انکار نہیں کر سکتاہے  کہ  جنگ آزادی کے دوران امبیڈکر کا  کانگریسی  رہنماؤں،  جس کی قیادت مہاتما گاندھی کر  رہے تھے،   سے اختلاف تھا۔ بار بار امبیڈکر   ذات پات اور دلتوں کے حقوق کےسوال کو قومی تحریک کے مرکز میں لا رہے  تھے ، جبکہ کانگریسی قیادت انگریزوں سےپہلے اقتدارحاصل کرنےکے نام پر،  ان سوالوں کو ٹال رہے تھے۔

جہاں  امبیڈکی دلیل تھی کہ سماجی اصلاحات کے بغیر سیاسی آزادی کے کوئی معنی نہیں ہیں اور ذات پات کی لعنت کو دور کئے بغیر  آزادی کا کوئی مطلب نہیں ہے،  وہیں کانگریسی قیادت ، جس میں اعلیٰ ذات اور بڑے سرمایہ داروں کا غلبہ تھا، اس سوال سے بچ رہے تھے ۔

تبھی  تو  کئی مواقع پر  امبیڈکر اور کانگریسی پارٹی کے  راستے الگ ہوگئے۔سائمن کمیشن کی  مخالفت ، گول میز کانفرنس ، پونا پیکٹ اور  بھارت چھوڑو  تحریک  نے امبیڈکر اور کانگریس کو دو طرف لا کر کھڑا کر دیا۔

Photo: bjp.org

Photo: bjp.org

ان اختلافات کے  باوجود ، امبیڈکر اور گاندھی کے ما بین    ڈائیلاگ بھی ہوا ،جس کو  سمجھے  بغیر جدید ہندوستان کی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔آزاد ہندستان کی آئین سازی میں بابا صاحب نے اپنا  کلیدی رول ادا  کیا اورپھروہ نہرو حکومت میں بطور (پہلے) وزیر قانون  شامل ہوئے ۔   لیکن  انہوں نے جلد ہی ہندو کوڈ بل  کے سوال پر نہرو حکومت سے استفیٰ دے دیا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ آزاد  بھارت میں، با باصاحب کووہ   مقام تب تک نہیں ملا جب تک دلت  سماج سیاسی طور پر بیدار نہیں ہوا اور  دلتوں کی سیاسی پارٹی بر سر اقتدار نہ آئی۔اگر اس  کوتاہی کے لئے نہروگاندھی خاندان قصوروار ہے تو ، آر آیس آیس ، جن سنگھ اور بی جے پی کیوں نہیں ہے؟ آر آیس ایس  تو1925 سےسرگرم ہے ، اس نے امبیڈکے لیے کیا کیا؟

 دوسروں  پر انگلی اٹھانے والےمودی ، عوام کو یہ  بھی بتانے کی ہمت رکھتے ہیں  کہ آر آیس ایس نے امبیڈکر کے افکار اور نظریات  کے فروغ اور  ان کے خواب کو پورا کرنے کے لئے  ابھی تک کیا کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس ہمیشہ سے امبیڈکر اور ان کے افکار کی مخالف رہی ہے۔

ان کی نام نہاد امبیڈکر نوازی  آج ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ آر ایس ایس نے جنگ آزادی میں نہ تو حصہ لیااور نہ ہی اس کے رضاکار انگریزی سلطنت سے بھڑے۔ ان کا اصل کام فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا کر ، عوامی اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ  امبیڈکر،    یا کسی بھی قدآور مجاہد آزادی کا ،  آر ایس ایس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ آج آر ایس ایس امبیڈکر کو لے کر جو بھی دعوی ٰکر رہی ہے، وہ سب اس نے حال فی الحال میں گڑھا ہے۔

ambedkar-panchjanya-organiser-samvada_org

 بابا صاحب کے  125ویں  یوم ولادت کے موقع پر، آر ایس ایس نے اپنے ترجمان “پانچ جنیہ” کا ایک پورہ شمارہ امبیڈکر کے اوپر شائع کیا تھا جس میں اس نے امبیڈکر کے حوالے سے ایسی ایسی بات کہی تھی جن سے ان  کا دور دور تک کوئی رشتہ نہیں ہے:

امبیڈکر نے ہندو دھرم کو دنیا کا سب سے بہتر مذہب بتایا؛امبیڈکر اسلام  اور عیسائی مذہب کو ہندوستانی نہیں  باہری ملک کا مذہب مانتے تھے؛ امبیڈکر اگر آج زندہ ہوتے تو آر ایس ایس کی خدمات دیکھ کر بہت خوش ہوتے؛ امبیڈکر کا موازنہ سوامی وویکا نند اور سردار پٹیل سے کیا گیا؛ امبیڈکر نے ملک کی بڑی خدمت کی کیوں کہ انہوں نے دلتوں کو  کمیونسٹ  ہونے سے روکا وغیرہ۔

امبیڈکر نوازی کا  دعویٰ کرنے والی بھگوا تنظیم  کل تک امبیڈکر اور ان کے افکار کے خلاف کھل کر بولتی تھی۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز گولولکر نے “منواسمرتی” کی تعریف  کی تھی، جس کی بابا صاحب نےاپنی  پوری زندگی تنقید کی اور اسے دلتوں اور دیگر پسماندہ ذات کی غلامی کے لئے ذمہ دار مانا- آر ایس ایس  کےترجمان  “آرگنائزر” نے سال 1949 کے شمارہ میں منواسمرتی  پر ایک اداریہ لکھا اور اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ آئین ساز کونسل کے ممبران منواسمرتی کی اہمیت پر غور نہیں کر رہے ہیں۔

سال 1990 میں آر ایس کی ایک معاون تنظیم وی ایچ پی،  جس نے رام مندر،بابری مسجد کا فتنہ کھڑا کیا تھا جس کی زد میں آکر سینکڑوں  افراد ہلاک ہو گئے، نے “دھرم سنسد”  کا  انعقاد کیا تھا    اور کہا تھا کہ  بھارت کا آئین ہندومخالف ہے کیونکہ وہ ہندومذہب کی کتابوں  پر مبنی نہیں ہے۔پس، آر ایس ایس جہاں اپنے آپ کو ہندو  دھرم کا محافظ مانتا ہے  اسےبابا صاحب نے پوری طرح سے  خارج کیا ۔

دوسروں کو کوسنے والے مودی یہ نہیں سمجھتے کہ خود وہ اور ان کی وراثتی تنظیم آر ایس ایس امبیڈکر کے نظریات سے کتنے دور ہیں۔ مودی” پوجا –پاٹ” اور توہم پرستی میں یقین رکھتے ہیں وہیں امبیڈکراپنی  پوری زندگی اس کی  تنقید کرتے رہے ۔بابا صاحب نے پوری زندگی  منطقی اور سائنٹفک نظریات کی بات کی ،  مگر مودی  قدیم ہندستان میں پلاسٹک سرجری  کے رواج کی بات کرتے ہیں۔

امبیڈکر کے نزدیک اقلیتی حقوق  جمہوریت کا اہم  حصہ  ہے۔ اگر سماج کے سارےطبقوں  کی نمائندگی کو یقینی نہیں بنایا جائےگا تو  ایک طبقہ دوسرے گروپ پر اس قدرمغلوب ہو جائےگا کہ وہ اس کی حق تلفی کر لےگا۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو  الیکشن میں ٹکٹ نہیں دیا جا رہا ہے اور پورا کا پورا الیکشن ہندو-بنام مسلم لڑا جارہا ہے۔ کیا یہ سب بابا صاحب کے افکار کو نظراندازکرنا نہیں ہے؟

گاندھی نہرو خاندان پر برسنے  کے بعد،  مودی نے  تقریر کا بقیہ حصہ اپنی حکومت اور اس کے منصوبوں  کی تعریف  میں وقف کیا۔سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سرکار کی معاشی پالیسی کو امبیڈکر  کے سماجی جمہوریت کے افکار و نظریات  سے وابستہ کر ڈالا!

یہ بات کسے معلوم نہیں کہ امبیڈکر اسٹیٹ سوشلزم (State Socialism)کے پیروکار تھے، جس کا سیدھا  مطلب ہوتا ہے ریاست   عوام کے فلاحی اور رفاہی پالیسی پر عمل کرےگی اور سماج کے غریب و محروم  طبقات کو  آگے لانے کے لئے ہمیشہ کوشاں  رہےگی۔

امبیڈکر  فیبئن(Fabian) سوشلزم   سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے  1936میں  انڈیپنڈنٹ لیبر پارٹی کی تشکیل دی تھی اور  یہاں تک کہا تھا کہ ‘اصل میں دنیا میں دو  ذات ہے، پہلا امیر اور دوسرا  غریب’۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، فلاحی کاموں سے سرکار کی کنارہ کشی  اور سرمایہ داروں کے مفاد کے لئے ہر روز  نئی پالیسی کا نفاذ کسی بھی طرح سے امبیڈکر کے نظریات سے میل نہیں کھاتے۔

اگر مودی صحیح معنی میں امبیڈکر کی تقلید کرتے ہیں تو ان کو خود احتسابی کرنی چاہے اور اپنی تنقید آر ایس ایس سے شروع کرنی چاہئے۔ نہرو-گاندھی خاندان کی غلطیوں کی نشاندہی کے لئے کوئی امبیڈکرکے ماننے والے  آئے تو بات مثبت سمت میں بڑھے گی۔

یہ مضمون 21 دسمبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا۔