فکر و نظر

کیا مودی حکومت واقعی بدعنوانی سے لڑنے کے لئے سنجیدہ ہے؟

ایسا لگتا ہے کہ مودی کے لئے بد عنوانی بھی بس ایک اور ‘ جملہ ‘ تھا کیونکہ بی جے پی کے ذریعے بد عنوانی کے لئے جن کو نشانہ بنایا گیا، وہ نہ صرف زندہ ہیں، بلکہ ان  کی قیادت میں پھل پھول بھی رہے ہیں۔

A.-Raja, Narendra Modi, Gopal Rai : PTI

فوٹو: پی ٹی آئی

2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی جیت اور دہلی کی گدی پر نریندر مودی کے براجمان ہونے میں ملک کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ قرار دئے گئے 2جی گھوٹالہ کا بڑا رول رہا۔اس جیت‌کے ساڑھے تین سال کے بعد خصوصی جج اوپی سینی، جن کی شہرت بےداغ ہے، نے فیصلہ سنایا، ‘ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ استغاثہ کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے۔ ‘

اس طرح سے اے راجا، کنی موجھی اور کئی ٹیلی کام افسروں اور پرموٹروں کو کلین چٹ مل گئی کیونکہ کورٹ نے ایک طرح سے یہ کہہ دیا کہ 2جی گھوٹالہ ہوا ہی نہیں،  سی بی آئی کورٹ کے سامنے مقدمہ چلانے لائق کوئی ثبوت پیش نہیں کر پائی۔

سینی کی ہی طرح، مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ پنجرے میں بند طوطے کی طرح سی بی آئی نے ایک شرمناک تفتیش چلائی۔ اس نے انل امبانی کو استغاثہ  کی طرف سے گواہ بنایا، جن کی سہولت کے مطابق یادداشت چلی گئی۔ (ان کے بیان کو یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ ) اس نے ان کو ایک ہوسٹائل گواہ کہنے  سے بھی انکار کر دیا۔ ایسا کیوں کیا گیا، اس کی جانکاری آج تک نہیں ہے۔

انل امبانی بھلے اپنی یادداشت کے چلے جانے کا مظاہرہ کر رہے تھے، مگر انہوں نے کمپنی کے کئی دستاویزوں پر اپنا دستخط ہونے کی تصدیق کی۔ مگر ان فیصلوں کے بارے میں پوچھے جانے پر، جن پر انہوں نے دستخط کئے تھے، انہوں نے کوئی جانکاری نہ ہونے کا دعویٰ کیا۔

اور امبانی ہی کیوں، سوال تو اس وقت کےکیگ ونود رائے سے بھی پوچھا جانا چاہیے، جنہوں نے پراسرار طریقے سے ٹیلی کام اور کوئلہ کے شعبوں میں ایک کے بعد ایک گھوٹالوں کو اجاگر کیا۔

آپ کو 1.76 لاکھ کروڑ روپےکے وہ اعداد و شمار یاد ہیں؟ ونود رائے کے مطابق 2جی گھوٹالہ کی وجہ سے ملک کو اتنی بڑی رقم کا نقصان ہوا تھا۔ سی بی آئی کے ساتھ رائے کو بھی ٹیلی کام سیکٹر کو تباہ کرنے کی کچھ ذمہ داری اپنے اوپر لینی چاہیے۔

کیا رائے اپنے ‘ خیالی نقصان ‘ کا جواب دیں‌گے؟ اجیت ڈوبھال جیسے کچھ دوسرے سابق سرکاری افسروں کی ہی طرح رائے نے بھی ایک طرح سے بی جے پی کوانتخابی مہم میں مدد پہنچائی۔ عام طور پر سبکدوشی کے بعد کیگ اس طرح کوئی کا عہدہ منظور نہیں کرتے،جس طرح کا عہدہ رائے نے قبول کیا بلکہ انہوں  نے روایت کو توڑنے کا کام کیا اور مودی نے ان کو بینک بورڈ بیورو کا سربراہ مقرر کر دیا۔ رائے  کرکٹ کنٹرول بورڈ، بی سی سی آئی کو بھی چلانے والوں میں شامل ہیں۔

اب رائے دنیا کو منھ کس طرح دکھائیں‌گے؟ منموہن سنگھ کے ذریعے اس کو ‘ اپنی حکومت کے خلاف بہت بڑا پروپگنڈہ قرار دئے جانے اور اس وقت کے ٹیلی کام وزیر کپل سبل کے ذریعے اس کو ‘ ونود رائے گھوٹالہ ‘ کہے جانے کے بعد بھی سابق کیگ نے پورے معاملے میں ایک سوچی سمجھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

2014 کے انتخابی تشہیر کے دوران مودی نے کوئلہ اور ٹیلی کام گھوٹالوں کو دونوں ہاتھوں سے لپک لیا اور بی جے پی نے یو پی اے کی بد عنوانی کو ایک بڑا موضوعبنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی کے لئے بد عنوانی بھی بس ایک اور ‘ جملہ ‘ تھا کیونکہ بی جے پی کے ذریعے بد عنوانی کے لئے جن کو نشانہ بنایا گیا، وہ نہ صرف زندہ ہیں، بلکہ ان کی قیادت میں پھل پھول بھی رہے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی قرض نہ چکانے والے انل امبانی کو رافیل دفاعی سودےکے تحت ایک بڑا کنٹریکٹ دیا گیا ہے۔

یہ سب بدعنوان سرمایہ داروں کے لئے دہشت کہے جانے والے مودی کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ سی بی آئی کو طاقتور بنانے کا مودی کے دعووں کے باوجود یہ ہمیشہ کی ہی طرح وفادار طریقے سے نااہل بنی ہوئی ہے اور خاص طور پر تب تو اور جب ملزم ارب پتی یا لیڈرہوں۔

ہندوستانی صنعت کے معاملوں میں سیاست طاقتور ثابت ہوتی رہی ہے اور یہ انصاف کو مسدود کرتی ہے۔ سیاستدانوں کو قصوروار ثابت کرنے کے معاملے میں سی بی آئی کا ٹریک رکارڈ بےحد شرمناک ہے۔ لیڈر چاہے کسی بھی سیاسی پارٹی کے کیوں نہ ہوں، سی بی آئی آج تک کسی کو بھی قصوروار ثابت نہیں کر پائی ہے۔ ایسا ہی بڑے کاروباریوں کے معاملے میں بھی ہے۔

چنئی کے اپنے حالیہ سفر کے دوران دراوڑ منیتر کڑگم سپریمو ایم کروناندھی کو گلے لگانے میں مودی  ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔ جبکہ ان کی اور یو پی اے کی بد عنوانی کو انہوں نے 2014 کا خاص انتخابی موضوع بنایا تھا۔

بد عنوانی کے خلاف لڑائی لڑنے کی مودی کی قوت ارادی کا اصل امتحان اس سے ہوگا کہ سی بی آئی پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرتی ہے یا نہیں۔ شروعاتی اشارہ بتاتے ہیں کہ اس کا امکان کافی کم ہے، کیونکہ سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے اس فیصلے کا استقبال کیا اور اس کو قانونی طور سے کافی پختہ قرار دیا۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور اٹارنی جنرل بننے سے پہلے، روہتگی کچھ ملزمین کا بچاؤ کر رہے تھے۔

آج ہندوستان کو سب سے زیادہ درکارقانونی اداروں کی طرف سے جوابدہی کی ہے، تاکہ مالدار، مشہور اور رسوخ دار لوگوں کے اس طرح ہندوستان میں لوٹ کو انجام دینے کے باوجود قانونی گرفت سے بچ نکلنے کا تماشہ بند کیا جا سکے۔ آئیڈیل صورتیہ ہوتی کہ اس مقدمہ کو صحیح طریقے سے آگے بڑھانے میں ناکام رہے سی بی آئی افسروں کو برخاست کیا جاتا۔

اس گھوٹالہ کی تفتیش اور اس کا مقدمہ سپریم کورٹ کی دیکھ ریکھ میں چلایا گیا۔ اس لئے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بھی اس معاملے میں خود سے نوٹس لیتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں استغاثہ  نے مقدمہ کے ساتھ سمجھوتہ تو نہیں کیا؟

آخر ایک ایماندار سرکاری وکیل جس کو اس بات کی جانکاری ہے کہ یہ مقدمہ کس طرح سے چلایا گیا، آج سپریم کورٹ میں جج ہے۔ اصل میں اس طرح کے جرائم میں انصاف ،ہندوستان کے قانونی نظام  کی ساکھ کا سوال بن گیا ہے۔ لیکن جو کچھ بھی ہو، بی جے پی کو اقتدار میں لانے میں مدد کرکے 2جی گھوٹالہ نے اپنا مقصد پورا کر دیا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی ڈھاک کے تین پات والی حالت ہے۔