حقوق انسانی

یوپی کوکا قانون :کیا ریاست کو پولیس راج میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں یوگی؟

یوپی کوکا والے معاملوں کی رپورٹنگ میڈیا میں نہیں ہو سکتی اس کے لئے الگ سے جرمانے کا اہتمام ہے۔ یعنی ابھی میڈیا بھلےہی اس قانون کو مافیا اور مجرموں پر حملہ مان رہی ہے یا جان بوجھ کر مشتہر کر رہی ہے لیکن یہ قانون دراصل میڈیا پر بھی ایک بڑا حملہ ہے۔

Photo: PTI

Photo: PTI

اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود جمعرات کواتر پردیش کی یوگی حکومت نے مکوکا کی طرز پر یو پی کو کا (Uttar Pradesh Control of Organised Crime Act) کو قانونی شکل دے دی ہے۔اتر پردیش کا یہ نیا قانون عوام مخالف قانون ہے۔ یہ وہی قانون ہے جس کو207-08 میں مایاوتی  حکومت بھی لانا چاہتی تھی لیکن مرکز اور ریاست میں الگ الگ حکومت ہونے کی وجہ سے اس قانون کو مرکز سے منظوری نہیں ملی تھی۔اب مایا وتی اس قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔

یہ قانون پہلے کےتمام قوانین سے زیادہ عوام مخالف ہے۔ یہ بات اس طرح  سمجھ میں آ جاتی ہے  کہ یوپی کوکا کی مثال مہاراشٹر میں نافذ قانون مکوکا سے دی جا سکتی  ہے خود اترپردیش حکومت نے یہ کہا ہے۔ مکوکا کی وجہ سے مہاراشٹر میں  بےگناہ لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ،اورجن کا مقدمہ لڑنے کی وجہ سے مشہور وکیل شاہد اعظمی کا قتل کر دیا گیا۔

اصل میں مکوکا ، ٹاڈا اور پوٹا کی جگہ پر لایا گیا ایسا قانون ہےجو لوگوں کے بہت سے آئینی حقوق کا ایک بار میں قتل کر دیتا ہے۔ اس کے بعد جیل سے رہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ یوپی کوکا، اسی کی نقل ہے۔ اس بار یوپی کوکا جب لایا گیا تو مایاوتی  حکومت میں بڑے پیمانے پر ہوئی مخالفت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا گیا  کہ یہ قانون زمین مافیا یا کان کنی مافیااور اسمگلر کے خلاف لایا گیا قانون ہے۔ سرکاری ہو چکی میڈیا نے بھی  اسی طریقے سے رپورٹنگ کی۔ کچھ نے تو چھوٹے مافیا کی فہرست جاری کر کے یہ بھی اعلان کر ڈالا کہ اب اس قانون کے آ جانے کے بعد ان کی خیر نہیں۔ میڈیا گھرانے بہت ہی اچھی طرح  سے جانتے ہیں کہ کان کنی مافیا ہوں یا زمین مافیا یہ تمام یا تو خودپارلیامنٹ میں پہنچے لیڈر ہیں یا کسی ایسے ہی لیڈر کے رشتہ دار یا دوست یا چاپلوس ۔ تو کیا خود اپنے اوپر شکنجہ کسنے کے لئے حکومت یہ قانون لائیہے۔ ظاہر ہے ہرگز نہیں ،یہ لوگوں کی آنکھ پر پردہ ڈالنے کا ایک بھونڈا طریقہ بھر ہے۔ اس کے نشانے پر وہ لوگ ہیں جو کسی بھی طرح سے  حکومت مخالفت کرتےہیں۔ مایاوتی کے وقت میں یوپی کوکا یا اس بار کے یوپی کوکا پر نظر ڈا لیں تو یہی اصلیت سامنے آتی ہے۔

یہ قانون پولیس اور پولیس کے ہی دوسرے اسپیشل فورسیز کو پہلے سے زیادہ طاقتور بناتی ہے۔ یعنی اس کے پاس کسی کو بھی برسوں  تک جیل میں سڑانے کے زیادہ قانونی ہتھیار ہوں‌گے۔ یہاں یہ دھیان دینے کی بات ہے کہ پولیس کو زیادہ طاقت دینے کا مطلب ہے حکومت کو عوام کے برعکس زیادہ طاقت ور بنانا۔ یعنی دراصل حکومت کے پاس اب زیادہ طاقت ہوگئی کہ وہ اپنے مخالفوں کو زیادہ وقت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رکھ سکیں اور غیر قانونی طریقے سے مخالفوں کا غیر قانونی قتل کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں:کیا یوگی حکومت کے نشانے پر ہیں مسلمان ؟  

پولیس کی مخالفت کرنے والے ملزم کی ضمانت ایک سال سے پہلے ہو ہی نہیں سکتی۔ ظاہر ہےاحتجاج کرنے والے  اس کے نشانے پر ہیں۔ جب بھی حکومت کے خلاف کوئیمظاہرہ کرتا ہے تو اس کو روکنے پولیس ہی آتی ہے اور احتجاجیوں کو حکومت کے نمائندہ کے طور پر پولیس کی ہی مخالفت سہنی پڑتی ہے۔ اس قانون کے ذریعے ایسےمخالفوں پر بھی یوپیکوکا لگ سکتا ہے ساتھ ہی سال بھر تک ضمانت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یعنی بی ایچ یو احتجاج میں لڑکیوں نے پولیس مظالم کی مخالفت میں جو پتھر برسائے اس کے لئے ان کو سال بھر بغیرضمانت کی جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

یوپی کوکا والے معاملوں کی رپورٹنگ میڈیا میں نہیں ہو سکتی اس کے لئے الگ سے جرمانے کا اہتمام ہے۔ یعنی ابھی میڈیا بھلےہی اس قانون کو مافیا اور مجرموں پر حملہ مان رہی ہے یا جان بوجھ کر مشتہر کر رہی ہے لیکن یہ قانون دراصل میڈیا پر بھی ایک بڑا حملہ ہے ۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ابھی اگر کسی بےقصور کو پولیس کی کوئی ایجنسی گرفتار کر لیتی ہے تو میڈیا کبھی کبھی اس کی سچائی کو سامنے لانے کا کام بھی کرتی ہے۔ لیکن اس قانون کے بعد میڈیا کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اس کے لئے اس کو سزا دی جا سکتی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر برمحل ہوگا کہ حال ہی میں یوگی حکومت نے ان پر چلنے والے کئی مقدموں کی رپورٹنگ نہ کرنے کی اجازت کورٹ سے حاصل کر لی ہے۔ یعنی میڈیا کی رپورٹوں سے یہ حکومت  ڈرتی ہے اور اس پر نکیل کسنے کی اس نے پوری تیاری کر لی ہے لیکن میڈیا ابھی بھی ان کے آگے سرتسلیم خم ہے۔

انسانی حقوق کی پامالیوں کے ساتھ اس قانون کی ایک نظریاتی خامی بھی ہے جو اکثر عوام مخالف قوانین کی ہوتی ہے۔ یوپی کوکا میں بھی خود کو بےقصور ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ملزم پر ہی ہے۔ یعنی مہذب سماج کے انصاف کا یہ اصول کہ کسی کو بھی تب تک الزام سے بری سمجھا جانا چاہئے جب تک کہ اس کا جرم عدالت میں ثابت نہ ہو جائے۔ لیکن یوپی کوکا میں آدمی کو پہلے دن سے ہی قصوروار سمجھا جائے‌گا۔ اور خود کو بےقصور ثابت کرنے کی ساری ذمہ داری اس پر ہی ہوگی۔

یوپی کوکا قانون میں دیگر قوانین سے الگ تین مہینے بعد بھی ملزم کو پولیس ریمانڈ پر لیا جا سکتا ہے۔باقی قوانین سے الگ عوام مخالف قانون یو اے پی اے کی طرح یوپی کوکا میں بھی چارج شیٹ داخل کرنے کی معیّنہ مدت تین مہینہ نہ ہوکر 6 مہینہ ہے۔ یعنی چھے مہینے تک ملزم کو بغیرضمانت اور بغیر سماعت کے جیل میں رہنا ہوگا۔ یہ سیدھےسیدھے کسی بھی آدمی کے آئینی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اس قانون کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ کورٹ ڈیجیٹل ثبوتوں کو بھی منظوری دیتا ہے۔ یعنی فون پر کسی کی کسی سے ہوئی بات چیت ، ای میل پیغام یا کوئی تصویر۔ ان ثبوتوں کو عام طور پر عدالتیں اس لئے اہمیت نہیں دیتیں کیونکہ ان میں آسانی سے چھیڑچھاڑ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یوپی کوکا کے تحت ملزم کے خلاف یہ سارے ثبوت دیگر ثبوتوں کی طرح ہی جائز ہوں‌گے۔ صرف اتناہی نہیں اس کے آگے کی بات اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ یہ کہ ملزم کے خلاف ان ثبوتوں کو اکٹّھا کرنے کے لئے حکومت یا پولیس کسی کی بھی بات چیت رکارڈ کر سکتی ہے۔یہ پوری ریاست کی عوام کے حق رازداری پر ایک بڑا حملہ ہے۔

یوپی کوکا کے معاملوں میں کم از کم سزا 3 سال اور زیادہ سے زیادہ سزا پھانسی ہے۔ ساتھ ہی 5 لاکھ سے لےکر 25 لاکھ تک کا جرمانہ بھی۔آج بھی ملک بھر کی جیلیں متعینہ سزا کاٹ چکے لیکن جرمانہ نہ چکا پانے والے لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔ یوپی کوکا کے آ جانے کے بعد یہ سلسلہ اور بڑھےگاکیونکہ اتنا بھاری جرمانہ چکانے کی حالت میں غریب ملزم تو نہیں ہی ہوں‌گے۔ ابھی تو حالت یہ ہے کہ محض 25 ہزار جرمانہ نہ چکا پانے کی وجہ سے کتنے لوگ سالوں سے جیل میں قید ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون اسی پر نافذ ہوگا جس کا پہلے سے کم سے کم تین سال کا کوئی مجرمانہ رکارڈ ہو۔ لیکن یہ دلیل اس لئے کسی کو مطمئن نہیں کرتی کہ پولیس کس کا رکارڈ کب خراب بتاکراس قانون کو تھوپ دے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہر تھانے میں نامعلوم نام سے جتنے مقدمے درج ہوتے ہیں وقت آنے پر ان کو معلوم بنا دینا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اسی کمال سے وہ احتجاج کرنے والوں کو ایک مقدمہ سے بری ہوتے ہی دوسرے مقدمہ میں پھرسے جیل میں ڈال دیتے ہیں۔

اصل میں ریاست میں اور ملک میں بھی پہلے سے جتنے قانون موجود ہیں بے شک ان میں سے کئی عوام مخالف بھی ہیں ۔لیکن یہ مجرموں اور مافیاوں کو پکڑنے اور ان کو سزا دلانے کے لئے کافی ہے۔ مگرحکومتوں کی منشا ایسی  ہے ہی نہیں کیونکہ مجرم تو خود پارلیامنٹ اور اسمبلی میں ہی ہیں۔یہ اپنے نام پر نئے نئےاور کڑے سے کڑے قانون بنا کر عام لوگوں کو مجرم کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ چونکہ اس بار کی حکومت ہندو توا کے تانگے پر سوار ہوکر آئی ہے تو ظاہر ہے اس کا نشانہ ہندوتوا سے باہر کے لوگ زیادہ ہیں۔ اس بار آیا یوپی کوکا بھی ان کے  لئے لایا جا رہا ہے۔ مافیا ، دہشت گرد ، غداروطن اور مجرم تووہ لفظ ہے جو بعد میں ان پر چسپاں کئے جانے ہیں ۔