فکر و نظر

لالو یادو سنت نہیں ہیں ،لیکن…

’ یہ صحیح ہے کہ میں نے آپ کو ’سورگ ‘نہیں دیا لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے آپ کو آواز نہیں دی ‘

PTI12_23_2017_000065B

Photo : PTI

لالو یادو نے بہت پہلے کہا تھا؛’ یہ صحیح ہے کہ میں نے آپ کو ’سورگ ‘نہیں دیا لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے آپ کو آواز نہیں دی ‘اور پچھلے جمعہ کو لالو کو چارا گھوٹالے میں جس بات کی سزا ملی وہ صرف اور صرف وہی تھا کہ اس نے بہار کی اکثریت دبےکچلے سماج کو آواز دیا تھا۔

لیکن ٹھہریے، اس کا مطلب یہ تو قطعی نہیں ہے کہ لالو پوری طرح ایماندار ہیں! میرا سوال یہ ہے کہ کیا جگن ناتھ مشر ایماندار ہیں جن کو اسی معاملے میں بری کر دیا گیا؟ اس لئے اس سے جڑا سوال اتناہی موزوں ہے کہ سیاست میں ایمانداری کی بات تو سب کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کتنے لوگ کرتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ جب صاف ستھری سیاست پر کوئی عمل ہی نہیں کرتا ہے تو کسی بہوجن یا دلت قیادت کو کیسے سزا دے دی جاتی ہے اور طاقتور اشرافیہ  قیادت کیسے اسی یا اسی طرح کے معاملے میں بری کر دیے جاتے ہیں!

دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ جب صاف ستھری سیاست  پر عمل کوئی بھی نہیں کرتا ہے تو کچھ گنےچنے لوگوں کو ہی اس کی سزا کیسے دے دی جاتی ہے اور اکثر لوگ کیسے اسی یا اسی طرح کے معاملے میں بری ہو جاتے ہیں؟موجودہ دور میں بالکل نئی نسل جوان ہو چکی ہے اس لئے اس کو چارا گھوٹالہ سے جڑی کچھ باتیں جاننا ضروری ہے، ورنہ نظریات کی بنیاد پررائے بنانے کے کئی برے انجام ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں ٹوجی معاملے میں بھی جج صاحب کا کچھ ایسا ہی اندازہ تھا۔ تو چارا گھوٹالہ کی حقیقت یہی ہے کہ یہاں لالو یادو کے دور سے کافی پہلے شروع ہو گیا تھا۔

جب لالو یادو 10 مارچ، 1990 کو کرسی پر بیٹھے تو روٹین کے تحت انتظامی پھیر بدل میں اس افسر کا بھی تبادلہ کر دیا، جس کی قیادت میں یہ گھوٹالہ چل رہا تھا۔ لالو یادو کو سابق وزیراعلیٰ جگنّاتھ مشر نے ایک خط لکھا اور لالو نے اس افسر کے تبادلے پر روک لگا دی۔ بعد میں اس کا نتیجہ اتنی بڑی لوٹ‌کی شکل میں سامنے آیا۔ سال 1996 میں لالو یادو نے اس کی جانچ‌کے حکم دیے۔ لیکن لالو یادو کو گھیرنے کی تیاری سیاست اور نوکرشاہی کا ایک بڑااشرافیہ طبقہ کر رہا تھا۔ ایسے کئی اسباب تھے جس سے وہ کمیونٹی پریشان تھی۔

اب کچھ باتوں پر تھوڑا رک‌کر غور کریں۔ لالو یادو نے 10 مارچ، 1990 کو بہار کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انہوں نے آکاشوانی سے نشر ہونے والے اپنے پہلے پیغام میں ریاست کی عوام سے کہا تھا کہ ہماری پہلی ترجیح سب کو تعلیم اور سب کو روزگار دینا، ہوگی، دوسری ترجیح ریاست سے بڑی تعداد میں ہو رہی ہجرت کو روکنا، ہوگی اور تیسری، اب تک ہو رہی بد عنوانی پر روک لگاکر رکی ہوئی ترقی کی رفتار کو پھر سے شروع کرنا، ہوگی۔اگلے دن یعنی کہ 11 مارچ، 1990 کے پٹنہ سے نکلنے والے اخباروں کا اہم صفحہ دیکھیں تو آپ کو ایسا لگے‌گا کہ لالو یادو نے وزیراعلیٰ کے روپ میں حلف نہیں لیا تھا بلکہ لالو کا اوتار ہوا تھا جس کے پاس کوئی معجزہ ہے!

لیکن کچھ ہی مہینے بعد 7 اگست، 1990 کو وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارش کو نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ لالو یادو نے اس فیصلے کا کھلےدل سے استقبال کیا۔ وجہ یہ بھی ہے کیونکہ ان کی پارٹی جنتا دل نے منڈل کمیشن کی سفارشیں نافذ کرنے کا انتخابی وعدہ کیا تھا۔پھر 15 اگست کو وی۔پی سنگھ اسی بات کو لال قلعے کی فصیل سے دوہراتے ہیں۔ منڈل کمیشن کے فیصلے کو نافذ کرنے کی مخالفت پورے ملک میں تشدد کے ساتھ  شروع ہو گئی۔ پٹنہ کے ایک پروگرام میں وزیراعلیٰ لالو یادو کی منڈل مخالفوں نے زوردار مخالفت کی۔ اسی جلسہ میں لالو یادو نے پہلی بار کھلے الفاظ میں منڈل مخالفوں کو یہ کہہ‌کر للکارا کہ جو بھی آدمی ریزرویشن کی مخالفت کرے‌گا اس کو بولڈوزر سے کچل دیں گے۔

وزیراعلیٰ کے روپ میں لالو یادو کا یہ بھیانک روپ پہلی بار بہار کی عوام کے سامنے آیا۔ اگلے دوتین دن کے اندر پٹنہ میں ہی ریزرویشن مخالفوں کے ایک بڑے مظاہرہ پر پولیس فائرنگ میں بی۔این کالج کے طالب علم شیلیندر رائے کی موت ہو جاتی ہے۔ یکایک لالو یادو کی امیج اخباروں اور ذرائع ابلاغ میں بدمعاش یا ولن کی بنائی جانے لگی۔ کل ملا کر لالو کے پاس محض 4 مہینے 27 دن کا وقت تھا جب وہ بہار کے وزیراعلیٰ تھے۔ اس کے بعد اشرافیہنوکرشاہی، اشرافیہمیڈیا، اشرافیہ اکادمی، جاگیردار اور سماج کے موثر طبقوں کے لئے ان ساڑھے چار مہینوں میں ہی لالو یادو ایسا دیوہیکل شخص بن گئے جس کو کسی بھی قیمت پر عہدے سے ہٹانے کی مہم چھڑ گئی۔

دوسری طرف لالو یادو اپنے کام سے بھی اقتدار پر گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ منڈل کی کاٹ کے لئے لال کرشن اڈوانی رتھ یاترا پر نکل پڑے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں لالو یادو نے بطور وزیراعلیٰ ایک کل جماعتی ریلی کو خطاب کیا۔ لالو یادو کی اس تاریخی تقریر کو یاد کیجئے جس میں وہ اڈوانی سے رتھ یاترا ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے خبردار بھی کرتے ہیں کہ چاہے ان کی حکومت رہے یا چلی جائے، ہم اپنی ریاست میں دنگافساد نہیں پھیلانے دیں‌گے۔ جہاں واویلا کھڑا کرنے کی کوشش ہوئی، اس سے سختی سے نپٹا جائے‌گا۔ جتنی ایک وزیر اعظم کی جان کی قیمت ہے، اتنی ہی ایک عام انسان کی جان کی قیمت ہے۔ آخرکار لالو نے اڈوانی کو سمستی پور میں گرفتار کروایا۔

اڈوانی کی گرفتاری کے بعد لالو نے جس سرگرمی سے قانونی انتظام کو اپنے کنٹرول میں لیا اس سے عام لوگوں میں ان کی امیج ایک ماہر منتظم کی بنی۔ گاندھی میدان کی بکنگ کے لئے کلکٹر کے دفتر میں جاکر آپ پرانی فائل کو پلٹیں یا پھر 1996 تک کے پٹنہ سے نکلنے والے اخباروں کا صفحہ پلٹیں تو آپ کو پتا چلے‌گا کہ پٹنہ کے گاندھی میدان میں کتنی چھوٹی چھوٹی ذاتوں کی ریلی ہو رہی تھی جس میں خاص مہمان لالو یادو تھے۔ ان ریلیوں میں اس ذات کے رہنما لوگ وزیراعلیٰ لالو یادو سے طرح طرح کی ڈیمانڈ کرتے تھے اور لالو اس کو نبٹانے کی یقین دہانی کرواتے تھے۔

لالو اپنےپہلےدور حکومت میں بد عنوانی کے خلاف ہرجگہ تقریر میں یہ بات بولتے تھے ‘ اگر میں گھوس کھاؤں‌گا تو میں گائے کا خون پیوں گا۔ ‘ عوام لالو کے بد عنوانی مخالفت نعرے کو بالکل اسی شکل میں لے بھی رہی تھی۔ میڈیا میں یہ  مشتہر کیا گیا کہ لالو کہتے ہیں ‘ بھورا بال صاف کرو ‘ (بھومی ہار، راجپوت، براہمن اور لالہ کو ختم کرو) حالانکہ لالو یادو نے اس بات کی لگاتار تردید کی۔ لیکن دبے کچلے بہاری سماج میں اس کا پیغام یہ گیا کہ لالو ہی صرف ایک ایسے رہنما ہیں جس میں اس کمیونٹی کو اوقات میں رکھنے کی صلاحیت ہے۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ریاست کے سب سے طاقت ور طبقوں کے عدم تعاون کے باوجود ان کی گرفت اقتدار پر مضبوط ہوتی گئی۔

لیکن کئی بار ایسی چوک بھی ہو رہی ہوتی ہے جو شعوری طور پر ان کے دل میں بھلےہی نہیں رہیہو، غیرشعوری طورپر وہ ساری چیزیں کر رہے تھے۔ 1991 اور 1996 کے پارلیامنٹ انتخاب اور 1995 کے اسمبلی انتخاب میں ان کی پارٹی کو ملی کامیابی نے ان کو اپنے خیرخواہوں سے دور کر دیا۔ اسی درمیان لالو کے دونوں سالوں نے مل‌کر ایک مطلق العنان اقتدار کا محور تعمیر کر لیا۔ اس میں لالو کی بیوی رابڑی دیوی کی حمایت تھی۔

میڈیا نے اس متوازی اقتدار کو ‘ جنگل راج ‘ کا نام دیا۔ لالو بھی کچھ کچھ خودمطلق العنان راجا کی طرح  پیش آنے لگے، باوجود اس کے اشرافیہ نوکرشاہی، اکادمی اور میڈیا کو لالو یادو نے جتنا بڑا چیلنج دیا ، وہ ہندوستانی جمہوریت میں نایاب مثال ہے۔ اسی سے جڑی لالو کی چوک یہ بھی رہی کہ انہوں نے ان طاقتوں کو چیلنج تو دے دیا لیکن اس کے متوازی کوئی ادارہ نہیں کھڑا کر پائے۔تھوڑا بہت اگر ان کا کنٹرول تھا تو وہ صرف نوکرشاہی تھی، جس میں دلتوں اور پچھڑوں کا ان کو تعاون تھا۔ نوکرشاہی سے جڑی اہم بات یہ بھی ہے کہ تب تک منڈل کی سیاست تو چل نکلی تھی لیکن منڈل سے تقرری نوکرشاہ محکمے میں آ نہیں پائے تھے اور اگر آئے بھی تھے تو ان کی تعداد محدود تھی۔

ان تھوڑے سے دلت پچھڑے نوکرشاہوں کی بدولت لالو کے دور میں کچھ ٹھیکے دار ضرور بنے لیکن وہ بیشتر لالو یادو کے ہم ذات تھے۔ کیونکہ دیگر پچھڑوں اور دلتوں کے پاس ٹھیکیداری کرنے کے لئے مناسب وسائل ہی نہیں تھے۔ بعد میں انہی ہم ذات ٹھیکے داروں کو مثال بنا کر لالو کی ایسی امیج پیش کی گئی کہ انہوں نے صرف اپنی ذات والوں  کو ہیفائدہ پہنچایا۔

‘ ہتھوا مہاراج سے بھی بڑا راجا ‘ بننے کا عمل اتنا خوفناک تھا کہ ان کے متعدد مددگار سرعام غنڈہ گردی کرنے لگے۔ اسی بیچ ایک معاملے میں چارا گھوٹالہ کا ذکر آیا اور لالو یادو نے اس معاملے کی جانچ‌کے حکم دے دیے۔ چارا گھوٹالہ کو اشرافیہ  نوکرشاہی، اکادمی اور میڈیا کے ذریعے دنیا کے سب سے بڑے گھوٹالہ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اس کے لئے ان ساری چیزوں کو لالو کے خلاف کھڑا کر دیا گیا جس کو لالو نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا۔ ‘ گوالا ‘ سے تیار لفظ گائے کو چارا سے جوڑ دیا گیا، ‘ گائے کے خون ‘ کی قسم کھانے والے کو گئوماتا کی غذا چرانے والا قرار دیا گیا۔ رہی سہی کسر سی بی آئی نے یوکے وشواس کو اس کی تفتیش سونپ‌کر پوری کر دی۔ یوکے وشواس کے دلت پس منظر سے ہونے کو اس شکل میں پیش کیا کہ ‘ پچھڑوں کے مسیحا ‘ نے ایسی حالت بنا دی ہے کہ ایک دلت کو اس کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے۔

لالو کو گرفتار کرنے کے لئے یوکے وشواس جج کی مدد سے صلاح و مشورہ لینے لگے، جبکہ لالو نے خود کہا تھا کہ میں چوبیس گھنٹے بعد سرینڈر کر دوں‌گا۔ یوکے وشواس کا یہ قدم پوری طرح غیر قانونی، غیر آئینی اور پروٹوکال کے خلاف تھا۔ قاعدے سے وشواس کے اوپر کڑی کارروائی ہونی چاہیے تھی، لیکن لالو سے چڑھے آئینی عہدوں پر بیٹھے اشرافیہ  لوگوں نے اس کی پرواہ نہیں کی کیونکہ اس کو ہر قیمت پر لالو یادو سے آزادی چاہیے تھی۔

یوکے وشواس کے اس کارنامہ پر تب سابق وزیر اعظم چندرشیکھر نے پارلیامنٹمیں کافی تیکھی تنقید کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا-” لالو پرساد نے جب خودہی کہا ہے کہ خود سپردگی کر دیں‌گے، تو 24 گھنٹے میں ایسا کون سا پہاڑ ٹوٹا جا رہا تھا کہ فوج بلائی گئی؟ ایسا ماحول بنایا گیا مانو ملک کا سارا کام بس اسی ایک مدعا پر ٹھپ پڑا ہوا ہو۔ لالو کوئی ملک چھوڑ‌کر نہیں جا رہے تھے۔ کسی کے کردار کو گرا دینا آسان ہے، کسی کی شخصیت کو توڑ دینا آسان ہے۔ لیکن ہم میں اور آپ میں قابلیت نہیں ہے کہ ایک دوسرا لالو پرساد بنا دیں۔ بد عنوانی مٹنی چاہیے، مگر بد عنوانی صرف پیسے کا لین دین نہیں ہے۔ ایک لفظ ہے ہندی میں جس کو ستیہ نِشٹھا یعنی صداقت یا ایمانداری کہا جاتا ہے، اگر صداقت (انٹیگرٹی) نہیں ہے، تو حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ سی بی آئی اپنی حد سے باہر گئی ہے، یہ بھی بات صحیح ہے کہ اس وقت فوج کے لوگوں نے، افسروں نے اس کی مانگ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسی حالت میں یہ واضح تھا کہ سی بی آئی کے ایک فرد نے اپنے حق کا غیرقانونی استعمال کیا تھی۔ اگر پولیس کے لوگ فوج بلانے کا کام کرنے لگیں‌گے، تو اس ملک کا سارا ڈھانچہ ہی ٹوٹ جائے‌گا۔ “

سی بی آئی کو لالو کے خلاف حد سے پار جانے کی گستاخی اور موقع اس وقت کے وزیر اعظم دیوگوڑا اور بعد میں آئی کے گجرال نے لالو کو کمزور کرنے کے لئے اسے کافی چھوٹ دے کر کی۔ کرناٹک کیڈر کے آئی پی ایس افسر جوگندر سنگھ کی قیادت میں یوکے وشواس وہی سب کچھ کر رہے تھے جس سے لالو کمزور ہوں۔ چارا گھوٹالہ کے نام پر لالو کی چمک مدھم ہونے لگی تھی۔ ملک بھر کی میڈیا چٹخارے لےکر رپورٹیں چھاپنے لگی کہ بہار میں کیسے اسکوٹروں پر سانڈ ڈھوئے جاتے تھے۔ اور کیسے ایک چرواہا گائے کا چارا کھا گیا۔ اس میں بھی لالو کی اس کہاوت کو ان کے خلاف استعمال کیا جس میں لالو کہتے تھے کہ میں بچپن میں بھینس چراتا تھا،چرواہا تھا۔

لالو اب سزا یافتہ ہیں اور انتخاب نہیں لڑ سکتے ہیں۔ لیکن سیاست میں پاکیزگی کی ضرورت پر اور لالو کی بد عنوانی پر ایسےایسے لوگوں کے بیان آ رہے ہیں، جن کے سایہ میں ہزاروں لاکھوں کروڑ روپیے کے منظم کارپوریٹ لوٹ کو انجام دیا جا رہا ہے۔ لیکن، ان کے خلاف ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے خلاف ملک کو تفتیش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ لالو کے خلاف ثبوت کھوجے گئے ہیں، کیونکہ سیاست کا تقاضا تھا کہ ثبوت ہر حال میں جٹانا ہے۔

سال 2014 میں ملک کے متوقع وزیر اعظم پورے ملک میں 453 انتخابی جلسے کرتے ہیں۔ اگر ایک انتخابی جلسہ پر اوسطاً خرچ صرف دو کروڑ روپیے مان لیا جائے تو یہ 900 سو کروڑ روپیے سے زیادہ کا خرچ ہوتا ہے۔ جبکہ ان کی پارٹی بی جے پی الیکشن کمیشن میں پوری پارٹی کی کل بجٹ کی تفصیل ہی صرف 714 کروڑ روپیے کا بتاتی ہے۔ نریندر مودی جب سے وزیراعلیٰ بنے، ہمیشہ اپنے ‘ صنعتی دوست ‘ کے چارٹیڈ ہوائی جہاز کا ہی استعمال کرتے دکھے۔ پاکیزگی کا یہی تقاضا ہے کہ جس دیوگوڑا نے لالو کو چارا گھوٹالہ میں نیست و نابود کر دینے کا بیڑا جوگندر سنگھ کو سونپا تھا، وہ جب وزیر اعظم منتخب ہوکر پہلی بار دلّی آئے تھے تو وہ چارٹیڈ ہوائی جہاز ان کے دوست اجے مالیہ کا تھا۔

پردھان سیوک بننے کے بعد اپنے قریبی صنعت کاروں کو کتنا فائدہ پہنچایا گیا ہے اس کا ذکر اتنی سختی کے باوجود کبھی کبھار ہی میڈیا میں آ پاتا ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے سرکاری بینکوں کو دیوالیہ تک بنانے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔ لیکن 89 لاکھ روپیے کی ہیراپھیری کے معاملے میں لالو یادو کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ اسی معاملے میں جگنّاتھ مشرا کو بری کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ کے کاسٹ اسٹرکچرنے بھی ان کی مصیبتوں کو کافی بڑھایا ہے۔

لالو یادو آج صرف ایک سیاسی آدمی نہیں بلکہ نظریہ بن گیا ہے۔ شمالی ہندوستان کی سیاست میں جتنی سماجی تبدیلی لالو یادو نے کی ہے، اگر اس کی کوئی مثال تلاش کی جائے‌گی تو ان کے قریب صرف مایاوتی آئیں‌گی۔ اور اس لئے انہی دونوں سے سب سے زیادہ گھبراہٹ برہمن وادی طاقتوں کو ہوتی ہے۔ شاید اسی بات کو دھیان میں رکھ‌کر وی۔پی سنگھ کہتے تھے، ‘ دروازے پر نیم پلیٹ کس کے لگے ہیں اس پر مت جائیے، اگر مظلوموں کی زندگی میں مثبت تبدیلی آتی ہے تو اصلی تبدیلی وہی ہے۔ “

سچ مچ لالو یادو نے وہی کام کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج لالو یادو اقتدار کے گڑھے میں چلے گئے ہوں اور جیل میں ڈال دئے گئے ہوں، لیکن وہ صرف لالو یادو کی ہی خدمات ہیں کہ بی جے پی جیسی برہمن وادی پارٹی کو نتیش کمار، اپیندر کشواہا، جیتن رام مانجھی یا رام ولاس پاسوان سے معاہدہ کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے اکادمک اور دانشور بھی اخلاقی طور پر اتنے ہی ایماندار یا بےایمان ہیں جتنا کہ اس ملک کا کوئی بھی عام انسان ورنہ کیا وجہ ہے کہ ان کو عالمیتاریخ کی چھوٹی سی چھوٹی یا پھر لینن، بسمارک یا نیلسن منڈیلا کے ہر چھوٹےچھوٹے فیصلے کا واقعہ تفصیل سے یاد رہتا ہے لیکن لالو یادو کے ذریعے کی گئی انقلابی تبدیلی ان کو ‘ جنگل راج ‘ کی یاد دلاتے ہیں!

لالو کے خلاف فیصلہ جمہوری‎ نظام سے اعتماد ہٹاتا ہے۔ اگر لالو یادو موجودہ مرکزی حکومت کے خلاف اتنے جارحانہ نہیں ہوتے تو ہو سکتا تھا کہ لالو کو بھی جیل جانے کی نوبت نہیں آتی۔ لالو یادو جب بھی اقتدار میں رہے، فسادی اور نسل پرست طاقتوں کو اوقات میں رکھا۔

اس کے پہلے بھی تمام فیصلے آئے ہیں جو حیران کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ لالو عوامی لیڈر ہیں لیکن ایسے فیصلے سے وہ طبقہ بھی بےچین ہوتا ہے جس کی حمایت میں لالو آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر لالو کو چارا گھوٹالہ میں نہ پھنسایا گیا ہوتا تو ہو سکتا ہے لالو کی امیج کسی بھی مہانایک سے بڑی ہوتی کیونکہ ان کے دوسرے دور کی شروعات میں ہی چارا گھوٹالہ نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور تب سے ان کی پوری کوشش اس پھندے سے باہر نکلنے میں ہی ضائع ہوتی رہی، نہ کہ اقتدار میں بیٹھ‌کے فلاحی کام کرنے میں۔

لالو یادو جیسے رہنماؤں کی مشکل یہ ہے کہ سیاست کرنے کے لئے موٹا پیسہ چاہیے اور چونکہ پسماندہ یا دلت ،قبائلی ذاتوں سے آنے والے رہنماؤں کے پاس عوام کی حمایت تو ہوتی ہے لیکن ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ کارپوریٹ گھرانے ان کو پیسے دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ ‘ ڈیل ‘ کرتے وقت وہ ایسی شرطیں رکھتا ہے جو کارپوریٹ کے من موافق نہیں ہوتا اور ‘ سودا ہو نہیں پاتا ہے! لیکن تب تک اقتدار کا خون ان کے منھ میں لگ گیا ہوتا ہے۔ اور چونکہ اقتدار ان پچھڑےدلتوں کو کسی بھی قیمت پر چاہیے اس لئے بعد میں ‘ سمجھوتہ ‘ کا مضمون لےکر وہ تیار بیٹھے رہتے ہیں۔

کبھی کبھی بات بن جاتی ہے، زیادہ تر مواقع پر نہیں بن پاتی ہے۔ اس لئے آپ اس مذاق کو پائیں گے کہ جب کوئی بھی دلت پچھڑا ( مایاوتیکو چھوڑ کر) قیادت پہلی بار اقتدار میں آتا ہے تو جتنی افادی اسکیمیں وہ اپنے پہلے دور میں شروع کر تا ہے، اگلے دور میں وہی قیادت اس کو ختم کرنے کی تیاری کر رہی ہوتی ہے!

میڈیا سے شکایت آسان اور اکثر جائز بھی ہوتا ہے۔ جب تک خبروں کا خرچ آپ نہیں اٹھائیں‌گے، خبریں کارپوریٹ اور سیاست کے دباؤ میں آپ کے مفادات سے سمجھوتہ کرتی رہیں‌گی۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور سیاسی مبصر ہیں۔)