گراؤنڈ رپورٹ

بھوپال گیس سانحہ : 33 سال بعد بھی زمین کے اندرپانی میں موجود ہے زہر

 ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان میں صاف صفائی کی بات کرنے والی حکومتیں خود ہی اپنے شہریوں کو صحت مند ماحول کے حق سے محروم کر رہی ہیں۔

فوٹو : پی ٹی آ ئی

فوٹو : پی ٹی آ ئی

ماحولیات کے تئیں اپنی وابستگی کا مظاہرہ ہر حکومت کرتی ہے۔ بڑی بڑی منسٹری چلاتی ہے، کروڑوں کے بجٹ لاتی ہے۔ مرکز میں جہاں سینٹرل پالوشنکنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کام کرتا ہے تو ہر ریاست میں اسٹیٹ پالوشن کنٹرول بورڈ کام کر رہے ہیں۔عوامی پلیٹ فارم سے ملک کے پردھان سیوک سوچھ بھارت مہم کا نعرہ دے رہے ہیں۔ اس ساری قواعد کی بنیاد میں جو خاص باتیں ہیں وہ یہ ہےکہ صاف ہوا میں ہم سانس لے سکیں اور صاف پانی پی سکیں۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 21 بھی ہر ہندوستانی کو صحت مند ماحول میں رہنے کا حق دیتا ہے۔ اسی آرٹیکل 21 کے تحت ہی نیشنل گرین ٹربیونل آف انڈیا (این جی ٹی) کی بھی تشکیل ہوئی ہے۔

ان تمام تنظیمی قواعد کے درمیان وقت وقت پر حکومت اور اس کے مختلف محکمہ ماحولیاتی تحفظ کا پیغام دینےکا پروگرام انعقاد کرتے ہی رہتے ہیں۔ باوجود اس کے گزشتہ تین دہائیوں سے مدھیہ پردیش کا بھوپال شہر آہستہ آہستہ ماحولیات کے ہولناک قہر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکومتوں کے بیان اس پر کم ہی آتے ہیں، لیکن کم سے کم وہاں فعال این جی او اور سماجی  کارکنوں کا تو یہی ماننا ہے اور اس کی وجہ وہی یونین کاربائیڈ  کارخانہ ہے، جس سے نکلنے والی گیس نے بھوپال کی ہوا کو اتنا زہریلا کر دیا تھا کہ ہزاروں لوگ موت کے منھ میں سما گئے تھے۔

1984 کے اس حادثے کے بعد کارخانہ تو بند ہو گیا، ذمہ دار بھی ملک چھوڑ‌کر بھاگ گئے۔ لیکن اس کارخانے کے اندر موجوددوسری زہریلی سالمے اور ٹھوس باقیات وہیں کے وہیں رہے۔ آج تین دہائی بعد بھی 340 میٹرک ٹن کچرا اس کارخانے کے اندر رکھا ہوا ہے، جس کو محفوظ طریقے سے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ ابتک حکومتیں نہیں کر پائی ہیں۔وہیں اس سے بھی زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ تقریباً نصف صدی پہلے شروع ہوئی وہ قواعد جب یونین کاربائیڈ نے بھوپال کی سر زمین پر قدم رکھا تھا، رسمی طور پر تو ختم مان لی گئی ہے، لیکن یونین کاربائیڈ نے اس زمین میں جو زہر بویا، وہ آج بھی زمین کے اندر ہی اندر پھیل‌کر بھوپال کے باشندوں کے مستقبل پر اپنی نظر گڑائے ہوئے ہیں۔

اس کے لیے تین دہائیوں سے مختلف پلیٹ فارموں پر لڑائی لڑ رہے بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کے ستی ناتھ شڑنگی بتاتے ہیں، ‘ 1969 سے یونین کاربائیڈیہاں قائم ہونا شروع ہوا۔ 68 ایکڑ رقبہ زمین ان کے پاس تھی۔ زہریلی کیمیاوں پر یہاں کام ہوتا تھا۔ زہریلاکچرا بھی نکلتا تھا، جس کو زمین میں ڈنپ کرنے کے لئے انہوں نے 21 گڈھے بنا رکھے تھے۔ 1977 تک یہی چلا۔ اسی سال یونین کاربائیڈ کے امریکی ہیڈکوارٹر کے منصوبہ کے مطابق کارخانے کے باہر 32 ہیکٹرزمین پر 3 تالاب بنائے گئے۔ ان تالابوں کو سولر اویپوریشن پونڈ (سیپ) نام دیا گیا۔ ان کو اندر سے ہائی ڈینسٹی پالی تھائیلین سے کور کیا گیا اور ٹاکسک انفلئینٹ (زہریلامادہ) ان میں ڈالنے لگے۔

ستی ناتھ بتاتے ہیں، ‘ سیپ نام اس لئے دیا کیونکہ اس میں جاکر پانی اڑ جاتا تھا اور گاڑھامواد نیچے جم جاتا تھا۔ لیکن بارش میں یہ اوورفلو ہو جاتے تھے۔ ‘ ستی ناتھ دستیاب دستاویزوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 1982 میں مقامی یونین کاربائیڈ کے ذریعے اپنے سینئرز کو بھیجے ٹیلیکس پیغام کے مطابق سیپ میں لیکیج کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، جو تمام ضروری تدابیر اپنانے کے بعد بھی درست نہیں کی جا سکی تھی۔

سیپ میں بھرے جانے والے کیمیا کا زہریلاپن کتنا مہلک تھا، اس کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بارش میں اوورفلو ہونے پر جب وہ کھیتوں میں پہنچتے تھے تو فصل جل جاتی تھی اور جانور مر جاتے تھے۔ اس تعلق سے مقامی پولیس تھانوں میں شکایتں بھی ہوئی تھیں، جن کا نپٹارہ یونین کاربائیڈنے معاوضہ دےکر کیا تھا۔ یہی مہلک زہر لیکیج کے ذریعے زمین کے اندر پہنچ رہا تھا۔

1984 میں دنیا کے اس ہولناک صنعتی سانحہ کے بعد یونین کاربائیڈبند تو ہو گیا۔ اس کو ایک سیاہ باب کا خاتمہ سمجھا گیا لیکن اصل میں یہ اس لامتناہی جدو جہد کی شروعات تھی، جس کو آج ستی ناتھ جیسے دیگر کارکنان آگے بڑھا رہے ہیں۔ جو زہر 15 سال تک یوکا زمین میں دباتا رہا، وہ آج بھی وہیں دفن ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ کچرا 10 ہزار میٹرک ٹن کے قریب ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھوپال گیس سانحہ :گیس متاثرین کے سب سے بڑے اسپتال میں ڈاکٹر کام کیوں نہیں کرنا چاہتے؟

سال 2004 سے مدھیہ پردیش کی عدالت عالیہ میں اسی زہریلے کچرے کے انجام دہی کو لےکر مقدمہ لڑ رہی رچنا ڈھینگرا بتاتی ہیں، ‘ 1989 تک سب حسب معمول تھا۔ لیکن یوکا انتظامیہ جانتا تھا کہ وہ اس زمین میں جو دباکر آیا ہے، وہ ایک نہ ایک دن اپنا اثر ضرور دکھائے‌گا۔ مستقبل میں کھڑا ہونے والے  مسئلہ سے نمٹنے کے لئے انہوں نے خود ہی خفیہ طور پر اسی سال علاقے کے زیر زمین پانی کی جانچ کی ۔ جس ایل ٹی-50 تکنیک کے ذریعے زیر زمین پانی کے زہریلے پن کی پیمائش کی گئی تھی، اس میں پانی میں مچھلیوں کو ڈال‌کردیکھا جاتا تھا کہ 50 فیصد مچھلیاں کتنے ارتکاز پر مرتی ہیں۔ ‘اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رچنا کہتی ہیں، ‘ ٹیسٹمیں ہر حالت میں 100 فیصد مچھلیاں ماری گئیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ پانی کے زہریلےپن کی سطح یوکا کی سمجھ سے بھی زیادہ تھی۔ ‘

 یونین کاربائیڈ کارخانہ

یونین کاربائیڈ کارخانہ

اس کے بعد سے ابتک یوکا اور اس کے آس پاس کے15 رہائشی علاقوں کو مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ٹیسٹ کیا گیا ہے، جن میں مدھیہ پردیش حکومت کے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنت، نیشنل اینوایرمینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (نیری)، گرین پیس انٹرنیشنل، پیپلس سائنس انسٹی ٹیوٹ (پی ایس آئی، دہرادون)، فیکٹ فائنڈنگ مشن آن بھوپال، مدھیہ پردیش پالوشن کنٹرول بورڈ (ایم پی سی بی)، سینٹرل پالوشن کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی)، سینٹر فار سائنس اینڈ اینوایرمینٹ (سی ایس ای، دلّی)، نیشنل جیوگرافیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این جی آر آئی) اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسیلاجی ریسرچ (آئی آئی ٹی آر) جیسے بڑے نام شامل ہیں۔

ان میں سے صرف ایک ادارہ (نیری) کو چھوڑ دیا جائے تو باقی سبھی کے جائزے میں زیر زمین پانی میں آلودگی کی تصدیق ہوئی ہے، جس کا دائرہ وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ جو آخری جائزہ 2012-13میں آئی آئی ٹی آر نے کیا تھا اس میں یوکا کے تقریباً 3 کلومیٹر کے دائرے کی 22 بستیوں کے زیر زمین پانی میں نقصاندہ کیمیا پائے گئے تھے۔ستی ناتھ کہتے ہیں، ‘ اس کے بعد سے حکومت کی طرف سے نہ تو کوئی تفتیش کرائی گئی ہے اور نہ ہی اس مسئلہ کے حل کی کوشش کرنے کے لئے کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے۔ بیتے سال ہم نے اپنی ہی سطح پر ایک تفتیش کرائی ہے جس میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ اس زیر زمیں پانی کی آلودگی نے اب 10 بستیوں کو اور اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے۔ ‘

چنگاری ٹرسٹ کی فاؤنڈر اور گیس متاثر رشیدہ بی کہتی ہیں، ‘ دہائیوں سے ہماری لڑائی جاری ہے۔ حکومتوں سے کئی بار دہائی لگا چکے ہیں لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ پتا نہیں کہ وہ کیوں سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ پانی سیال کی شکل کا ہوتا ہے اور بہاؤ کے ساتھ اپنی جگہ بناتا رہتا ہے اور پانی کے ساتھ وہ کیمیا بھی اپنا دائرہ بڑھا رہے ہیں۔ ڈھائی دہائی پہلے تک آلودگی کا دائرہ 250 میٹر تھا جو اب پھیل‌کر 4 کلومیٹر ہو گیا ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ایک دن یہ پورے بھوپال کو اپنی چپیٹ میں لے لے‌گا۔ ‘

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس آلودگی کا انسانی صحت پر کیا اثر ہوگا؟ ستی ناتھ بتاتے ہیں، ‘ اس میں ڈائکلوروبینجین، پالینیوکلیر ایرومیٹک ہائیڈروکاربنس، مرکری، لیڈ جیسے تقریباً 20 کیمیا ہیں جو پھیپھڑے، جگر، کڈنی کے لئے بہت ہی مہلک ہوتے ہیں اور کینسر کے عامل کیمیا مانے جاتے ہیں۔ حمل کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ زچگی کیخرابیوں کی بھی وجہ بنتے ہیں۔

جن 32 بستیوں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے وہ وہی بستیاں ہیں جہاں 33 سال پہلے یوکا سے رسی گیس نے تباہی مچائی تھی۔ اب وہ اس آلودگی کی وجہ سے دوہری مار جھیل رہی ہیں۔ جن بیماریوں کی علامات ستی ناتھ نے گنائے، وہ یہاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔اگر کینسر جیسی بیماری کی بات کی جائے تو مدھیہ پردیش حکومت کی مہم ‘ بھوپال گیس سانحہ راحت اور بازآبادکاری محکمہ ‘ کے سالانہ انتظامیہ رپورٹ 2016-2017 میں درج اعداد و شمار تو یہی اشارہ کرتے ہیں کہ اصل میں زیر زمین پانی کی آلودگی اپنا اثر دکھا رہی ہے۔

رپورٹ میں ‘ معاوضہ سےمتعلق فیصلہ ‘ نامی پوائنٹمیں دکھایا گیا ہے کہ معاوضہ کی رقم میں اضافہ ہونے پر پیش کل 63819 دعویٰ کیس میں کینسر مبتلا گیس متاثرین کی تعداد 10251 تھی، 5250 کڈنی مریض تھے۔ وہیں 4902 لوگوں میں مستقل معذوریت پائی گئی۔ اس طرح کینسر اور کڈنی جیسی سنگین بیماریوں کے مریضوں کی تعداد تمام معاملوں کے 25 فیصدی کے برابر رہی۔

وہیں معذورلوگوں کی بات کریں تو رشیدہ بی بتاتی ہیں کہ اکیلے جے پی شہر کے آس پاس سے ہی ایک وقت میں 70 اپاہج بچّے سامنے آئے ہیں، جن کا علاج وہ اپنی چنگاری ٹرسٹ کلینک میں کرتی ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں، ‘ کیا عام حالات میں ایسا ممکن ہے؟ ‘ہر لحاظ سے یہ اعداد و شمار قابل غور ہیں۔ اس سب کے باوجودحکومتوں کی پیشانی پر  شکن تک نہیں ہے تو یہ تعجب کی ہی بات ہے۔ اگر یو  پی اے کے دوسرے دور اقتدار میں مرکزی ماحولیات کے وزیر رہے جےرام رمیش کو چھوڑ دیا جائے تو ابتک دوسرے کسی بھی لیڈر نے اس سے متعلق کوئی قابل ذکر پہل نہیں کی ہے۔

2010 میں جےرام رمیش نے نیری اور این جی آر آئی کو یوکا اور اس کے آس پاس کے علاقے میں زیر زمین پانی اور مٹی میں آلودگی کی تفتیش کرنے کا حکم دئے۔ لیکن یہ کوشش ان دونوں اداروں کی لاپروائی کی نذر ہو گئی۔ستی ناتھ بتاتے ہیں، ‘ انہوں نے صرف 9 فیصد حصے کے ہی نمونہ لئے کیونکہ ان کی تکنیک ایسی جگہوں پر ہی کام کرتی تھی جہاں کوئی درخت یا پودے اور کنسٹرکشن نہ ہوں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسی تکنیک کا استعمال ہی کیوں کیا! کوئی اور تکنیک اپنائی جا سکتی تھی۔ ان کا جواب غیر سنجیدہ تھا کہ ہم نے گیس راحت محکمے کو جھاڑیاں ہٹانے لئے کہا تھا، انہوں نے نہیں ہٹائیں، ہم کیا کرتے۔ ہمیں تو اپنا کام کرنا تھا نا۔ ‘

وہ آگے کہتے ہیں، ‘ جےرام رمیش نے ہماری مانگ پر پھر ایک پیئر رویو کمیٹی بنائی۔ یہ پوری طرح سرکاری تھی۔ اس نے بھی رپورٹ کے نتیجوں کو معتبر نہیں مانا۔’

Union-Carbide-chemical-Waste-photo-bhopal-dot-org

سرکاری اداروں کے طور طریقوں پر سوال اٹھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں ‘ نیری اپنی ایک رپورٹ میں کہتی ہے کہ کارخانے کے اندر خطرناک آلودگی ہے۔ کئی جگہوں پر زمین کے نیچے پانی میں  آلودگی ہے لیکن کارخانے کی دیوار کے باہر زیر زمین پانی عام حالت  میں ہے۔ کیا جادو سے وہ آلودگی دیوار کوپار نہیں کر رہی تھی؟ ان کی رپورٹ کہتی ہے کہ یہاں کی جو مٹی ہے وہ اتنی ناقابل سرایت ہے کہ اس کے نیچے پانی جائے‌گا ہی نہیں۔ اگر جائے‌گا بھی تو 23 سال بعد زمین کے نیچےپانی تک پہنچے‌گا۔ اور اسی سال ایک دیگر سرکاری ادارہ آئی آئی ٹی آر بتاتا ہے کہ بہت سارا زہر ہے پانی میں۔ بتائیے کس کو صحیح مانیں؟ ‘

اس بیچ حکومت کے بدلنے پر مرکزی ماحولیات کےنئے وزیر پرکاش جاوڑیکر بنے۔ نئی حکومت کی طرف سے بھی اس جانب کوئی دھیان نہیں دیا گیا تو غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے امریکی مددگاروں کی مدد سے اقوام متحدہ ماحولیات پروگرام (یونیپ) سے زمین کی صفائی کی درخواست کی، جو منظور بھی کر لی گئی۔

یونیپ نے یقین دہانی کرائی ہےکہ اس کے پاس زمین کی صفائی کرنے سے متعلق تمام ضروری وسائل موجود ہیں بشرطیکہ یونیپ کی شرطوں کے مطابق حکومت ہند ان سے صفائی کی گزارش کرے۔ یونیپ کے خط کو لےکر این جی او پرکاش جاوڑیکر سے ملے۔وہ بتاتے ہیں، ‘ ہم نے ان سے یونیپ سے رابطہ کرنے کی گزارش کی لیکن ان کا راشٹر واد بیچ میں آگیا۔ انہوں نے دو ٹوک کہہدیا کہ ہمارے ذریعے یونیپ سے کی گئی اپیل میں کچھ غیر ملکی شامل ہیں اس لئے اس پر غور نہیں کیا جا سکتا اور اس مسئلہ سےہم اپنی سطح سے نمٹنے میں اہل ہیں۔ ‘

ستی ناتھ پوچھتے ہیں، ‘ اگر وہ اہل تھے تو دہائیوں سے کیوں آنکھیں بند کئے رہے۔ اگر وہ اہل ہیں تو تب سے کیوں آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں؟ آج اس ملاقات کو 3 سال ہونے کو آئے۔ اور غیر ملکی لوگوں کے شامل ہونے کا سوال ہے تو کیا حکومت ہند امریکہ سے کاروبار نہیں کرتی۔ وہ امریکہ کی گود میں کھیلتے ہوئے بھی امریکی سے پرہیز کیسے کر سکتے ہیں؟ ‘

بہر حال اس کچرے کو کبھی انجام تک پہچایا جائے گا یا نہیں، یہ تو وقت اور حکومت کے دلمیں چھپا ہے لیکن وہ کچرا ماحولیات کو جو نقصان پہنچا رہا ہے اس کے نقصاناتبھوپال کی آنے والی نسلوں کو ہی ہوگا۔ ستم ظریفی ہے کہ سوچھ بھارت کی بات کرنے والی حکومتیں خود ہی اپنے شہریوں کو صحت مند ماحول کے حق سے محروم کر رہی ہیں۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)