خبریں

وزیر اعظم کے نام مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کا خط :طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دیے جانے سے حکومت گریز کرے

’حکومت اس سلسلہ میں قانون سازی کو ضروری خیال کرتی ہے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ان مسلم خواتین تنظیموں سے جو مسلم عورتوں کی حقیقی نمائندہ ہیں ،لازمی طور پر مشورہ کیا جائے۔‘

File Photo /PTI

File Photo /PTI

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وزیر اعظم کے نام اپنے اُس خط کا متن آج پریس کو جاری کر دیا جس میں طلاق بدعت کوسنگین تعزیری جرم میں بدلنے سے حکومت کوگریز کا مشورہ دیتے ہوئےمجوزہ بل کو بالعموم مسلم خواتین کے مفاد کے خلاف ،مطلقہ خواتین اور ان کے خاندان کے لئے موجب نقصان اور اس اقدام کو شریعت کے اصولوں سے انحراف کے رخ پر مسلم پرسنل لا میں مداخلت قرار دیا گیا ہے۔

بورڈ کے صدر سید محمد رابع حسنی ندوی نے مسٹر نریندر مودی سے اپنے مکتوب میں ان کی توجہ مجوزہ بل میں درج ایسے احکامات کی طرف مبذول کرائی ہے جن سے مذہبی اکائیوں کو آئین ہند میں فراہم کردہ ضمانتوں میں بھی مداخلت کا ارتکاب ہوتا ہے اور یہ سپریم کورٹ کے اسی سال 22 اگست کے فیصلہ کی روح کے بھی خلاف ہے ۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ ’’طلاق بدعت کے ‘غیر مؤثرعمل’ کوسنگین قسم کے تعزیری جرم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔جس کے لئے تین سال تک کی سخت سزائے قید کا دینا عورت اور اس کے بچوں کو نفقہ سے مکمل طور پرمحروم کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔لہذا اس کو کسی بھی طرح عورت اور اس کے بچوں کے مفاد میں نہیں کہا جا سکتا ہے۔

مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ )بل 2017کے تعلق سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے فیصلے کی طرف وزیر اعظم کی توجہ مبذول کراتے ہوئےمولانا نے کہا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ میں ہونے والی گفتگواور فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بل کی مجوزہ دفعات اس لحاظ سے بھی غیر ضروری ہیں کہ یہ دوسرے جاریہ قوانین کی دفعات کے بھی خلاف ہیں۔مزید یہ کہ گھریلو تشدد سے متعلق قانون 2005 اورگارجین شپ اینڈ وارڈس ایکٹ اور مجموعہ ضابطۂ فوجداری (Cr.P.C)پہلے سے موجود ہیں۔

بورڈ کے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لئے مولانا ندوی نے بل کی چند قابل اعتراض دفعات کا یو ں حوالہ بھی دیا ہے کہ:

’’دفعہ 2 میں لفظ ‘طلاق’ کی دی گئی تعریف، ‘طلاق بدعت’ سے تجاوز کرتی ہے جبکہ،سپریم کورٹ نے صرف طلاق بدعت کو ہی مسترد کیا تھا ، . مجوزہ تعریف طلاق بائن وغیرہ کو بھی شامل کر سکتی ہے ،جس کو سپریم کورٹ  نے غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے ،مگر،طلاق بائن کوبل کی دفعہ (ب)2 میں استعمال کے گئے الفاظ ‘ یا طلاق کی کوئی اور مماثل شکل جس سے فوری اور غیر رجعی طور پر طلاق واقع ہوتی ہو ‘کے معنی میں شامل ماننے سے بل کی دفعہ (ب)2۔مع دفعہ 3 کا اثر طلاق بائن وغیرہ کو بھی باطل اور غیر قانونی قرار دینا ہو سکتا ہے‘‘ ۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’’اس طرح کی تمام مطلقہ عورتوں کو نابالغ بچوں کی کسٹڈی دئے جانے کے قانون میں ،بچے کی فلاح وبہبود کے بنیادی اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے اور اس سلسلہ میں سائرہ بانو کے مقدمہ کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے ‘‘۔

’’مجموعہ ضابطۂ فوجداری کو نافذ کرتے وقت بدکاری کے تعلق سے موجودہ قانون کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے اور اس طرح کا مقدمہ کسی تیسرے کے اقدام پر متا ثرہ عورت کی مرضی کے خلاف بھی کیا جا سکتا ہے جس کا کہ خود اس عورت پرمنفی اثر پڑیگا‘‘۔

’’بل کا مسودہ تیار کرتے وقت قانون سازی کے پارلیمانی طریقه کوبھی نہیں اپنایا گیاہے۔ متعلقین / متاثرہ فریقوں /خواتین کی تنظیموں سے ،’غیر موثر طلاق‘ کے سلسلہ میں قانون سازوں کے سامنے حقیقی صورتحال اور مجوزہ قانون کے منفی اثرات اور عورتوں اور بچون کی فلاح وبہبود کو پیش کرنے کے لئے مشورہ نہیں کیا گیا‘‘۔

مولانا نے کہا ہے کہ ’’مذکورہ امور کے پیش نظر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کامرکزی حکومت سے اصرار ہے کہ موجودہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے اور اگر حکومت اس طرح کا قانون بنانا ضروری سمجھتی ہے تو حکومت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی حقیقی نمائندہ تنظیموں وغیرہ سے لازمی طور پر مشورہ کرے اور صرف اسی صورت میں ،آئینی ضمانتوں اور عدالت عظمی کے فیصلہ 22اگست2017 کی روشنی میں بل تیار کیا جائے‘‘۔

’’چونکہ مجوزہ قانون تمام مسلمانوں کو متاثر کرے گا ،اور اس کا اثر مسلم خواتین اور بچوں پر منفی پڑے گا اور یہ آئین ہند کی دفعہ 25میں فراہم کردہ حقوق اور بنیادی حق مساوات میں مداخلت ہے ،اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کریگا اور عوام میں بیداری پیدا کرے گا ‘‘۔

آخر میں بورڈ کے صدر سید محمد رابع حسنی ندوی نےوزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ اس بل کو آگے نہ بڑھائیں بلکہ اس بل کو واپس لے لیں اور اگر ان کی حکومت اس سلسلہ میں قانون سازی کو ضروری خیال کرتی ہے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ان مسلم خواتین تنظیموں سے جو مسلم عورتوں کی حقیقی نمائندہ ہیں ،لازمی طور پر مشورہ کیا جائے۔

ویڈیو  :کیا طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دیے جانے سے مسلمان عورتوں کو فائدہ ہوگا؟

واضح ہو کہ مرکزی کابینہ نے 15دسمبر کو ایک بل پاس کو منظوری دی ہے جس کے تحت ایک ساتھ تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا ہوسکتی ہے۔وزیر قانون روی شنکر پرساد کے مطابق مجوزہ قانون کا مقصد ملک میں مسلم خواتین کو انصاف فراہم کرنا ہے۔اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔

(خبررساں ایجنسی یواین آئی اردوکے ان پٹ کے ساتھ)