فکر و نظر

یروشلم میں ٹرمپ کی مداخلت ،فلسطینی قیادت کے لیے امتحان

اب جبکہ یہ معرکہ سر ہوگیا ہے، فلسطینی قیادت کو بھی اپنے اندر جھانکے اور حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے کی ٖضرورت ہے۔

Jerusalum_DW

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس بڑے پیمانے پر امریکی دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے 128 ممالک نے القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیئے جانے کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دئے، اس سے یقیناًفلسطینی کاز کو تقویت ملی ہے۔ اندیشوں کے برعکس ہندوستان نے بھی اپنے نئے قریبی حلیف امریکہ کے بجائے فلسطین کے تئیں اپنی روایتی پالیسی کو برقرار رکھا۔ مگر نئی دہلی نے آخر وقت تک اپنی چوائس کو خفیہ رکھا۔ چونکہ اگلے ماہ اسرائیلی وزیرا عظم بنجمن نیتن یاہو ہندوستان کے دورہ پر آنے والے ہیں، اس لئے لگتا تھاکہ شاید ہندوستانی مندوب ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہیں گے۔ذرائع کے مطابق دیر رات جب یہ ظاہر ہوگیا کہ یورپی اور اسلامی بلاک متحد ہوکر ووٹنگ کرنے والا ہے، تو وزیر اعظم نریندر مودی نے مندوب سید اکبرالدین کو غیر حاضر رہنے کے بجائے ووٹنگ میں شرکت کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر ترکی نے قائدانہ کردارکرکے امریکہ کے اس فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی۔اب جبکہ یہ معرکہ سر ہوگیا ہے، فلسطینی قیادت کو بھی اپنے اندر جھانکے اور حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے کی ٖضرورت ہے۔

 1993میں اوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غازہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان کوئی زمینی رابط نہیں ہے۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے ، وہیں غاز ہ میں اسلامک گروپ حماس بر سر اقتدار ہے۔ جہان پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ دونوں تنظیمیں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہی ہیں۔ مگر چند برس قبل امریکی صدر بارک اوبامہ کی شہ پر مسلم ممالک سعودی عرب ، مصر اور ترکی نے مصالحت کا کردار ادا کرکے حماس کو قائل کرادیا تھاکہ وہ مغربی کنارہ کی محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی مجوزہ براہ راست بات چیت میں روڑے نہیں اٹکائے گا اور نہ ہی بات چیت میں شریک افراد کو غداری وغیرہ کے القابات سے نوازے گا۔ مگر اس سعی سے اگر ایکارڈ یا ایگریمنٹ کی صور ت میں کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو اس پر فلسطینی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائیگا اور عوامی قبولیت کی صورت میں سبھی فریقوں کو منظور ہوگا۔

 مگر چونکہ امریکہ اب ثالث کے بجائے ایک فریق بن چکا ہے، اس بات چیت کا مستقبل اب مخدوش نظر آتا ہے۔ پچھلے سال دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟ انہوں نے کہا: ”حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حماس 2006ء کے نیشنل فلسطین اکارڈ پر کار بند ہے، جس کی رو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی ایگریمنٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں طاقت ور بننے کی ضرورت ہے۔

 دو گھنٹہ تک چلنے والے اس انٹرویو میں خالد مشعل نے بتایا کہ عالم اسلام کا موجودہ بحران یقیناً مسائل کی جڑ فلسطین سے توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران جتنی جلدی اس کو سمجھ سکیں ان کے لئے بہتر ہے، ورنہ بربادی ان کا مقدر ہے۔عرب ممالک اور امریکی امداد کی بدولت غازہ کے مقابلے مغربی کنارہ میں خاصی خوشحالی اور ترقی نظر آتی ہے۔ جریکو قصبہ میں ایک عالیشان کیسینو کے علاوہ مختلف شہروں رملہ، حبران (الخلیل)، بیت اللعم میں نئے تھیٹرکھل گئے ہیں، جہاں تازہ ترین ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے کیلئے بھیڑ لگی ہوئی ہوتی ہے۔ جریکو کے کیسینو میں اسرائیلی علاقوں سے جوئے کے شوقین یہودی بھی داو لگانے کیلئے ہر رات پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش بیت اللعم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے 10کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کیلئے یہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول کے استاد نے بتایا کہ 14سال قبل وہ ایک بار یروشلم گئے تھے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحر میت جانے کیلئے یہودیوں اور فلسطینیوں کیلئے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بد ترین مظاہرہ ہے۔

File Photo: Reuters

File Photo: Reuters

 اردن اور فلسطین کے درمیان بحر میت میں نمک کی مقدار 30 فیصد سے زیادہ ہے، اس لئے اس میں کوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ وہی سمندر ہے جس میں حضرت لوط ؑ کی قوم تباہ و برباد ہوگئی۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے400 میٹر نیچے ہے۔ چونکہ اس سمندر میں کوئی ڈوب نہیں سکتا، یہاں سیاح آرام سے پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک کثیر ملکی کمپنی اس سمندر سے کان کنی کرکے دنیا بھر میں جلدکی خوبصورتی اور علاج کے لئے Dead Sea Products سپلائی کرتی ہے۔ اس بحر کی تہہ کو جلدی امراض کے علاج کے لئے استعمال کرنے کا سہرا کراچی سے ہجرت کرنے والے یہودی سائنس دان زیوا گلاڈ کے سر ہے۔ خیر بیت اللعم جانے کیلئے ہندوستانی صحافیوں کے وفد کو فلسطینی اتھارٹی کے حواے کیا گیا۔ اونچی دیواروں کے درمیان بنے گیٹ پر مستعد اسرائیلی سیکورٹی دستوں نے کاغذات وغیرہ کی جانچ کے بعد جب جانے کی اجازت دی ، تو دوسری طرف کی دنیا کی ہی الگ تھی۔جہاں اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھاو اور تر قی دیکھ کر یورپ اور امریکہ بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند فاصلہ پر ہی فلسطینی علاقوں کی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کئی روز کے بعد پہلی بار بھکاری نظر آرہے تھے، نو عمر فلسطینی بچوں نے غیر ملکیوں کو دیکھ کر آوازیں لگانی شروع کی۔ وہ سگریٹ، لائیٹر وغیرہ کچھ ایسی چیزیں بیچ رہے تھے۔

 ایک جم غفیر نے پانی کے ایک ٹینکر کے آس پاس محشر برپا کیا ہوا تھا۔ پھول جیسے بچے کتابوں کے بستوں کے بجائے کین لئے پانی کے حصول کیلئے دھینگا مستی کر رہے تھے۔ شہر کے گورنر صالح التماری سے جب استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا، کہ پانی کے سبھی ذرائع پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور وہ صرف ایک مقدار تک فلسطینی علاقوں میں پانی فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہفتوں تک ٹینکر نہیں آتا ہے۔ آج بھی چار دن کے بعد ٹینکر آیا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل نے کربلا جیسی کیفیت برپا کی ہوئی ہے۔ گورنر سے ملاقات کے بعد جب وفد کے دیگر اراکین مارکیٹ میں شاپنگ کر رہے تھے، میں چند فلسطینی نوجوانوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان گورنر کے ساتھ ہماری بریفنگ میں بھی موجود تھا۔ اس نے کہا ، کہ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پانی آخر کہاں جاتا ہے اور عوام تک کیوں نہیں پہنچتا ہے؟ جب میں نے ہاں کہا، تو اس نے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کیلئے کہا۔ چند لمحوں کے تذبذب کے بعد میں اللہ کا نام لیکر سوار ہوگیا۔بعد میں اس جرات کا خمیازہ مجھے واپسی پر تل ابیب ایر پورٹ پر بھگتنا پڑا۔ جب وہاں سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا، کہ میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر ایک فلسطینی کے موٹر سائیکل پر کہاں گیا تھا؟

خیر چند گلیوں سے گذرنے کے بعد ہم پوش علاقہ میں وارد ہوئے۔ اس نوجوان نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداران اسی علاقہ میں رہتے ہیں۔ ایک عالیشان مکان کے گیٹ کے باہر موٹر سائیکل روک کر اس نے گھنٹی کا بٹن دیااور عربی میں آواز بھی لگائی۔ خیر کسی نے دورازہ کھول کر علیک و سلیک کے بعد اندر جانے دیا۔ مکان کے مالک شاید موجود نہیں تھے۔ جس نے بھی دروازہ کھولا تھا، وہ ملازم ہی لگ رہا تھا۔ مکان کے ارد گرد وسیع باغیچہ اور ایک وسیع سیویمنگ پول بنا تھا۔ ایک اور مکان کا بھی یہی حال تھا۔ معلوم ہوا کہ مکین یا تو رملہ میں یا بیرون ملک دورہ پر گئے ہیں۔کربلا جیسے حالات میں جہان عام فلسطینی العطش کی صدائیں بلند کر رہا تھا، لیڈروں کے ذریعے پانی کا یہ زیاں تکلیف دہ امر تھا۔