حقوق انسانی

یوپی کوکا :مرض سے زیادہ خطرناک ہے اس کا علاج

اصل میں اس قانون کے سخت  دفعات جن کا غلط استعمال ہونے کا پورا امکان ہے ہماری فکر کا خاص موضوع ہونا چاہیے۔

Photo Credit : StudyIQEducation/Youtube

Photo Credit : StudyIQEducation/Youtube

حال ہی میں اتر پردیش کی یوگی حکومت کے ذریعے ’یوپی کوکا ‘(The Uttar Pradesh Control of Organised Crime Act 2017)ایکٹ2017 لایا گیا ہے جودہشت گردی مخالف قانون (یواے پی اے1967) سے بھی سخت ہے۔ اس میں پولیس کو اس طرح کی طاقتیں دی گئی ہیں جو  آج تک کسی بھی قانون میں نہیں دی گئی ہیں۔ یوگی حکومت نے اس کو بڑی چالاکی سے اسمبلی کے بورڈ پر رکھا اور اگلے دن ہی اس کو صوتی ووٹ سے منظور بھی کرا دیا۔ زیادہ تر ایم ایل اے اور اپوزیشن کے ممبران تک کو بل کا مسودہ دستیاب نہیں کرایا گیا۔ اس وجہ سے زیادہ تر ایم ایل اے بل کی جمہوریت اور انسانی حقوق مخالف پہلوؤں کے بارے میں جان نہیں پائے،اوروہ اس پر کوئی بحث  اور اعتراض بھی نہیں کر پائے۔اس لیےاپوزیشن صرف اس کے مخالفوں ، دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف غلط استعمال کی بات کرتا رہا اوران  دفعات کی بات نہیں کر سکاجوپولیس کو بہت زیادہ پاوردیتاہے ۔ یہی حالت پریس کی بھی رہی۔ وہ صرف حکومت کے آرگنائزڈ کرائم پر قابو پانے کے دعوے اور اپوزیشنکے ذریعے اپنے خلاف غلط استعمال کے الزام کی ہی بات کرتا رہی۔ کسی نے بھی اس قانون کے سخت دفعاتاور پولیس کو دی جا رہی لامحدود طاقتوں پر کوئی گفتگو نہیں کی اور اعتراض نہیں کیا۔

فی الحال یہ بل اسمبلی سے پاس ہوکر ودھان پریشد کو بھیجا گیا ہے جس کو سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ کسی طرح وہاں سے بھی پاس ہو جاتا ہے تو پھر یہ صدر جمہوریہکو  بھیجا جائے‌گا جہاں پر اس کو اجازت مل جانے کا پورا امکان ہے۔ یہ بات دلچسپ  ہے کہ جو مایاوتی اس وقت اس کی مخالفت کر رہی ہے اسی مایاوتی نے اپنے دورحکومت میں 2008 میں اس کو اسمبلی اور ودھان پریشد سے پاس کراکر صدر کے پاس بھیجا تھا لیکن وہاں پر اس کو اجازت نہیں مل پائی تھی۔ فی الحال اپوزیشن کے ذریعے اس بل کی صحیح اور زور دار طریقے سے مخالفت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہ اسمبلی میں بڑی آسانی سے پاس ہو گیا۔ اپوزیشن صرف اس کے مخالفوں، دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف غلط استعمال کی بات کرتا رہا لیکن بل کی بےحد سخت دفعات اور پولیس کو دی جا رہی طاقتوں کی بات نہیں اٹھا سکا، جس کی وجہ سےبی جے پی کے لئے ان کی مزاحمت کرنا بہت آسان رہا۔

یہ بھی پڑھیں:کیا یوگی حکومت کے نشانے پر ہیں مسلمان ؟  

اصل میں اس قانون کے سخت  دفعات جن کا غلط استعمال ہونے کا پورا امکان ہے ہماری فکر کا خاص موضوع ہونا چاہیے۔ اس قانون کے تحت سب سے سخت دفعہیہ ہے کہ اس کی دفعہ 28 (2) میں سی آر پی سی کی دفعہ 167 جس میں عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گرفتار شخص کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق 15 دن، 60 دن اور 90 دن تک جیل (عدالتی حراست) میں رکھنے کے سابقہحق کو 60، 180 اور 365 دن کا تعین کرے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس قانون کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کو ایک سال تک عدالت میں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے جیل میں رہنا پڑ سکتا ہے جبکہ عام قانون کے تحت یہ مدت زیادہ سے زیادہ 90 دن ہی تھی۔ اس کے مقابلے میں دہشت گردی مخالف قانون کے تحت یہ مدت بالترتیب 30، 60 اور 90 دن ہی ہے۔ اس طرح گرفتار شخص کو جیل میں رکھنے کے معاملے میں یوپی کوکا زیادہ سخت ہے۔ اب اگر یوپی کوکا کے تحت ملزم شخص مقدمہ میں چھوٹ بھی جاتا ہے تو اس کوٹرائلکے دوران 365 دن تک جیل میں رہنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ پولیس بہت سے معاملوں میں بےقصور لوگوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتی ہے جہاں ان کو اس قانون کے تحت لمبے وقت تک جیل میں رہنا پڑ سکتا ہے۔

اس قانون کا ایسا ہی دوسرا سخت پہلو پولیسریمانڈ کو لےکر ہے۔ فی الحال عام جرائم میں پولیس کو زیادہ سے زیادہ ریمانڈ 15 دن تک ہی مل سکتا ہے جبکہ اس قانون کی دفعہ 28(3) (اے) میں اس کو بڑھاکر 60 دن کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس دہشت گردی مخالف قانون میں پولیس ریمانڈ کی زیادہ سے زیادہ مدت 15 دن کی ہی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ پولیس ریمانڈ کے دوران پولیس حراست میں قیدیوں پر ظلم وستم (ٹارچر) کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی بار اس شخص کی موت تک ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں پولیس حراست میں ٹارچر کی شکایتں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور پولیس کسٹڈی میں اموات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ ویسے بھی اتر پردیش پولیسانسانی حقوق کی پامالی کے معاملوں میں ملک میں سر فہرست ہے جیسا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار سے واضح ہے۔ اس کے مطابق2013-14 سے2015-16 کے دوران پورے ملک میں سے 44 فیصد شکایتں اکیلے اترپردیش سے تھیں۔ اسی مہینہ 10 دسمبر کو ہیومن رائٹس ڈے  کے موقع پر اتر پردیش انسانی حقوق کمیشن نے بھی کہا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کی 67 فیصدشکایتں پولیس کے خلاف ہیں۔ اب یوپی کوکا کے تحت پولیس ریمانڈ کی مدت کو 15 دن سے بڑھاکر 60 دن کرنا پولیس کو ٹارچر کے لئے کھلی چھوٹ دینا ہے۔

اتناہی نہیں اس قانون کی دفعہ 33 (تین) میں جیل میں بند شخص سے ملاقات کے عمل کو بھی مشکل کر دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق جیل کے قیدی سے ملاقات کلکٹر کی پیشگی اجازت سے ہی ہو سکے‌گی اور وہ بھی ہفتے میں زیادہ سے زیادہ دو بار ہی۔ اسی طرح اس قانون کی دفعہ 28 (4) کے تحت ملزم کو کسی بھی عدالت سے پیشگی ضمانت نہیں مل سکے‌گی۔ اس قانون کی دفعہ 3 (بی) اور 5 میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ عدالت اس قانون کے تحت کسی معاملے میں عدالتی کارروائی کوشائع کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے جس کی خلاف ورزی کرنے پر متعلقہ شخص کو 1 مہینے کی سزا اور 1 ہزار روپے کا جرمانہ تک ہو سکتا ہے۔ اس طرح یہ قانون پریس کے اظہار کی آزادی کو بھی محدود کرتا ہے۔ اسی طرح اس قانون میں کسی شخص کے ایک معاملے میں سزا یافتہ ہونے کے بعد دوسرے معاملے میں بڑھی ہوئی سزا دئے جانے کا بھی اہتمام ہے۔

مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ اگرچہ یوپی کوکا آرگنائزڈ کو کم کرنے میں کچھ حد تک مفید ہو سکتا ہے لیکن اس میں ٹرائل کے دوران ملزم کو عام جرم میں زیادہ سے زیادہ 90 دن کے بجائے ایک سال تک جیل میں رکھنے اور پولیس ریمانڈ کی مدت 15 دن سے بڑھاکر 60 دن کیا جانا انسانی حقوق کی پامالی اور ٹارچر کو بڑھاوا دینا ہے۔ اس قانون کے کئی دفعاتدہشت گردی مخالف قانون سے بھی سخت ہیں جن کے غلط استعمال کا پورا امکان ہے۔

(مضمون نگار سابق پولیس انسپکٹر جنرل اورجن منچ اتر پردیش کے کوآرڈینیٹر ہیں۔)