ادبستان

2017: کتابوں سے کتنی روشن ہوئی کائنات

ہند و پاک کے ادیب ارجمند آرا،حقانی القاسمی ،خالد جاوید ،علی محمد فرشی ،محمد حمید شاہد،معید رشیدی اور ناصر عباس نیر کی پسندیدہ کتابیں۔

 تنقید کے نظریاتی پہلو پر اردو میں کتابیں خال خال ہی نظرآتی ہیں؛ارجمند آرا

ذہن و ضمیر کو بدلنے والا مکالمہ وجود میں نہیں آیا؛حقانی القاسمی

اردو فکشن کی روایت میں خواب سراب کی معنویت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛خالد جاوید

پاکستان میں ناصر عباس نیر کے میدان میں کوئی نقاد  ان کا ہم پلہ نہیں ؛علی محمد فرشی

معاملہ افسانے اور ناول کا ہو یا تحقیق وتنقیداوردوسری اصناف کا؛ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا؛ محمد حمید شاہد

اس سال میرے مطالعے میں جو شعری مجموعے آئے ان میں نئی نسل نے اپنے ہونے کا احساس دلایا؛معید رشیدی

کتابیں پڑھنے کے محرکات مختلف ہیں۔ کچھ کوضرورتاً پڑھا جاتا ہے اور کچھ اس لیے پڑھی جاتی ہیں کہ ان کے موضوع سے دل چسپی ہوتی ہے؛ناصر عباس نیر

سائبر لٹریچر کے یُگ میں کتاب کلچر کا مقدمہ لکھنے کے کیا معنی ہیں ؟ اس پر غور کرنے والے ذہنوں کو میں کوئی مژدہ نہیں سنانا چاہتا،لیکن رواں سال کی گزرتی ساعتوں میں جانے کیوں میں اس سوال سے الجھ گیا تھا۔اسی الجھن میں ،میں نے 2017 کے دنوں کو یاد کیا اور ان لمحوں کو گرفت میں لینے کی  کوشش کی جن میں سیاسی ڈسکورس اور خبروں کی کتر بیونت سے الگ کوئی تازہ  کتاب آنکھوں میں ٹھہر گئی ہو،آنکھوں  کے جالے صاف نہیں ہوئے تو یوں ہی  خیال آیا کہ کیوں نہ بر صغیر کے اہم اور معتبر لکھنے والوں کو اپنی اس الجھن میں شریک کروں اور ان سے براہ راست پوچھ لوں کہ 2017 میں اُردو اور اردو کے حوالے سے کسی بھی زبان کی کون سی دو ایک کتابیں آپ کو پسند آئیں ۔

میں جب یہ پوچھ رہا تھا تواس بات کا بھی احساس تھا کہ اُردو میں اس سال کئی اہم کام ہوئے۔ہمارے زمانے کی معروف ادیبہ اور Activistارن دھتی رائے کے نئے ناول  کا ترجمہ ارجمند آرا نے’ بے پناہ شادمانی کی مملکت ‘کے نام سےمکمل  کیا ،جو اشاعتی مرحلے میں ہے۔یوں کہہ سکتے ہیں کہ  کلینڈر کے بدل جانے سے دنوں کا حساب نہیں ہوتا ،سو ارجمند کے اس ترجمے کو ہم نئے سال میں ملاحظہ کریں گے۔2017 میں غالب پر گوپی چند نارنگ کی ایک اہم کتاب انگریزی میں شائع ہوئی ۔ اس نوع  کے خوش کن احساس کے ساتھ جانے کیوں یہ بھی لگا کہ رواں سال کی سیاسی رسہ کشی نے ہم سے سکون کا وہ لمحہ شاید چھین لیا ،جس میں ہماری یادداشت ہم سے مکالمہ قائم کرتی اور ہم  کتابوں کا تذکرہ کرتے ۔

یوں تومیں ادبی منظر نامے سے مایوس نہیں ہوں ،لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے زمانے میں  کتابوں کی معاشرت بڑی غیر مہذب ہے ۔ہاں جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر لکھنے والے ہر زبان میں کم ہی ہوتے ہیں،سو لکیر پیٹنے والوں کی تعداد میں گراں قدراضافہ اور اس پر لہلوٹ ہوجانے والوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شایدہم ہی نک چڑھے قاری ہیں۔جانے کیوں کتابوں سے خوف آنے لگا ہے کہ کتاب نویسوں کی نئی کھیپ  نامحرموں پر نظر ہی نہیں پھیرتی ۔

میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ کتاب نویسی کے نام پر اب ادیب/ادب پیدا نہیں ہوتے یا یہ کہ ہمارا زمانہ مصنف کا نہیں کلر کوں کا ہے۔یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ یہ زمانہ فقط لکھے ہوئے خیال کو متبادل جملوں  میں دیدہ دلیری کے ساتھ پیش کرنے کا ہے۔ان باتوں کی اہمیت  اس لیے بھی نہیں کہ کتاب نویسوں  کو’ قوم ‘کی ذہنی تائید حاصل ہے۔

ہاں دودھ میں پانی یا پانی میں دودھ والی کتابیں پڑھنے کی مجبوری نہیں ہونی چاہیے تھی ،لیکن کیا کیجیے کہ آب و ہوا کی آلودگی نے ہمیں اس کا عادی بنا دیا ہے۔بات ہر پھر کر وہیں پہنچ جاتی ہے کہ کلر کی کو کمپیوٹر نے اور آسان  بنادیا ہے۔مومن کی صنم پرستی کیا اچھی شریعت تھی ،لیکن ہمیں اپنی ناکامیوں سے یوں کام لینا آیا کہ مضامین فلاں کو دفتیوں میں لپیٹ کرہم  صاحب کتاب کے کالم میں اپنے نام کا املا مع رنگین فوٹو کے لکھتے ہوئے اتراتے پھرتے ہیں ۔ترتیب کاری کی بدعت میں مبتلا مقدمہ نویسوں کو ہی صاحب کتاب مان لیا گیا ہے ۔حالاں کہ ادب فہمی کے نام پر ان کو صرف’ اردو‘ آتی ہے۔کتاب نویسوں کی جماعت نے کتابوں کا وہی حال کیا ہے جو ہماری سیاست نے اس ملک کا کیا ہے۔

بقول منٹو فرمائشی تحریریں سیٹھ کا مال ہوتی ہیں ،اور ہمارے سیٹھ بھی خود صاحب کتاب ہیں ۔شاید اس لیے ہمیں اپنی کتابوں سے زیادہ اس کے سرورق پر اپنا نام ہی حاصل کتاب معلوم ہوتا ہے۔یہ لوگ شایدمنٹو کی طرح شراب بھی نہیں پیتے پھر جانے کون سی مجبوری ہے کہ کتاب بنانے کی دھن میں شعر بنانے کی لت سے زیادہ مبتلا نظر آتے ہیں ۔اعداد وشمار کے مطابق کتابیں ہندی فلموں سے زیادہ ریلیز ہورہی ہیں اور ہندوستان کی تمام زبانوں کی فلموں کی بات کریں تو شاید اردو کتابوں کی تعداد بہت کم فرق سے دوسرے نمبر پر آئے۔ابھی ہندی ساہتیہ کے سال رواں کی اہم کتابوں کے حوالے سے ایک آن لائن فیچر پڑھ رہا تھا ،اس میں ایک تربیت یافتہ قاری کا کمنٹ بھی درج تھا ،ان کا کہنا ہے کہ وہ ان میں سے کسی بھی  کتاب کو اپنی ریک میں رکھنا پسند نہیں کریں گے،اور ہماری مجبوری یہ ہے کہ جو کتابیں ہمیں نہیں پڑھنی وہ کتاب نویس ہمیں جبراً اپنے دستخط کے ساتھ دے جاتے ہیں۔گویا ہم ایسی کتابیں پیدا کرتے ہیں جن کی کوکھ بانجھ ذہنوں سے شرمائی پھرتی ہیں۔ادب کے  طالب علم کی حیثیت سے میری بھی خواہش ہے کہ ہم اپنی کتابوں کے لیے علامہ کی طرح سے کہہ سکیں ؛ اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم

لیکن ذوق کا بھی کیا کہ کتابیں ہمارے خیالوں کی طرح بد صورت ہوتی جارہی ہیں؛بہر کیف2017کی کتابوں کے جائزہ کو یہاں پیش کرتے ہوئے میں نےسوچا تھا کہ اپنی طرف سے کچھ نہ لکھوں ،مگر دردوغم تھے جو جمع ہوگئے ۔اس درد وغم میں ہمارے اہم لکھنے والوں کے احساس بھی شامل ہیں کہ کئی لوگوں نے مجھ سے میرے سوال کے جواب میں ہی سوال کر دیا کہ اچھا اس سال کوئی ایسی کتاب آئی تھی کیا؟اس کے باوجودہند و پاک کے کچھ اہم لکھنے والوں کی تحریریں موصول ہوئیں ،جن کوآپ کے سامنے(ابجدی ترتیب ) پیش کر رہا ہوں۔

 تنقید کے نظریاتی پہلو پر اردو میں کتابیں خال خال ہی نظرآتی ہیں؛ارجمند آرا

ارجمندآرادرس و تدریس سے وابستہ  ہیں،تحقیق وتنقید کے علاوہ ترجمہ ان کا خاص میدان ہے ۔2017کو ان کے لیے ان معنوں میں  خاص کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ارن دھتی کے نئے ناول ’منسٹری آف اٹ موسٹ ہپی نیس ‘کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے ۔ارجمند نے اپنی پسند کی تین کتابوں پر رائے دی ہے ،وہ لکھتی ہیں ؛ The Evolution of Ghalibانگریزی کی اس اہم کتاب میں غالب کے ذہنی اور فنی ارتقا کا مطالعہ ان کی شاعری کے ارتقائی سفر کی روشنی میں کیا گیا ہے۔تاریخی ترتیب سے غالب کی شاعری پر ابتدائی کام کالی داس گپتا رضا نے کیا تھا ۔اسی ترتیب کو سامنے رکھ کر حسن عبداللہ نے اب غالب کی زندگی کے مختلف مراحل میں آنے والی فنی اور ذہنی تبدیلیوں کا تجزیہ کیا ہے۔

محقق نقاد ڈاکٹر تنویر احمد علوی چالیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف و مولف اور مرتب ہیں ۔زندگی بھر ادب و تحقیق سے وابستہ رہے ۔ان کے مضامین جو مختلف رسالوں میں نصف صدی تک شائع ہوتے رہے ،ڈاکٹر ثمرجہاں نے یکجا کر کے تنویر احمد علوی کا جہاں معانی (جلد اول) کے نام سے مرتب کر دیے ہیں۔جلد اول میں مطالعات ذوق،غالب اور ان کے معاصرین پر نیز بارہ ماسہ کی روایت پر علوی صاحب کے مضامین شائع کیے گئے ہیں ۔تحقیق کے طالب علموں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔

تنقید کے نظریاتی پہلو پر اردو میں کتابیں خال خال ہی نظرآتی ہیں۔بیانیہ یا Narratologyپر یہ ایک اہم کتاب (بیانیات)قاضی افضال حسین نے ترتیب دی ہے۔بیانیے کے فن پر مغربی مفکرین کے ترجمہ شدہ مضامین سے لے کر اردو کے معتبر نقادوں کے مضامین زیب کتاب ہیں ۔اردو کے حوالے سے انگریزی میں لکھنے والے شکوہ محسن مرزا کے بھی دو مضامین شامل ہیں ۔

ذہن و ضمیر کو بدلنے والا مکالمہ وجود میں نہیں آیا۔ ہاں خوشی کی بات یہ رہی کہ صارفی معاشرت میں کتاب ثقافت کی سانسوں کو آکسیجن ملتی رہی؛حقانی القاسمی

تخلیقی تنقید کی روشنی بانٹنے والے نقاد ،ادیب اور صحافی حقانی القاسمی نے 2017کی کتاب ثقافت کے سانسوں کی آکسیجن کی بات کی ،لیکن …اور لیکن کے بعد جو لکھا وہ ملاحظہ کریں کہ ؛اب کے برس بھی بس یہی ہوا کہ نہ لفظوں کی زمین شاداب ہوئی، نہ احساس کا افق وسیع ہوا،نہ تنقیدی مباحث کے نئے دریچے وا ہوئے، نہ فکر و نظر کی نئی کھڑکیاں کھلیں۔کوئی بھی thought provoking کتاب یا تحریر نظر کے دائرے میں نہیں آئی۔ معاشرے کے ذہن و ضمیر کو بدلنے والا کوئی بھی مکالمہ وجود میں نہیں آیا۔ ادب سمندر میں کوئی نئی لہر یا کوئی نئی موج پیدا نہیں ہوئی۔

 ہاں خوشی کی بات یہ رہی کہ صارفی معاشرت میں کتاب ثقافت کی سانسوں کو آکسیجن ملتی رہی۔ سائبر لٹریچر کے عہد میں پرنٹ کلچر مرا نہیں، زندہ رہا۔ حسب معمول مختلف اشخاص اور ادبی اصناف پر کتابیں شائع ہوتی رہیں۔ لیکن ذہن کو مسخر و مہمیز کرنے والی شاید ہی کوئی کتاب مطالعاتی میز پر آئی ہو۔ اس میں کچھ قصور میری نارسائی کا بھی ہوسکتا ہے۔ ہاں کچھ کتابوں نے تھوڑی سی توجہ ضرور کھینچی ہے، کچھ رسائل کے خاص شماروں نے ضرور متاثر کیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ پاکستان یا دیگر ملکوں میں دو ہزار سترہ کا تخلیقی اور ادبی افق تابناک رہا ہو مگر ہندوستان میں کچھ ہی کتابیں ایسی ہیں جن میں کچھ امکانات نظر آتے ہیں۔

پروفیسر ارتضیٰ کریم کی کتاب ’اردو صحافت کے دو سو سال‘ جو دو جلدوں پر محیط ہے اس نے اسے لیے متوجہ کیا کہ ایک عرصے کے بعد ایک ایسی دستاویز سامنے آئی جس میں صحافت کے جملہ مسائل و متعلقات اور موضوعات کا بحسن و خوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے عہد اور عالمی تناظر میں اردو صحافت کی نئی تفہیم اور نئے امکانات کے حوالے سے اچھی گفتگو کی گئی ہے۔ صحافت کے علاقائی، قومی اور عالمی منظرنامے پر محیط یہ ایک حوالہ جاتی کتاب ہے اس لحاظ سے دو ہزار سترہ کی قابل ذکر کتابوں میں اس کا شمار کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر عشرت ناہید کی مرتب کردہ ’حیات اللہ انصاری کی کہانی کائنات‘اس لیے اچھی لگی کہ یہ ایسے فکشن نگار کی تخلیقی بازیافت ہے جس نے اردو کو بامعنی، بامقصد کہانیاں دی ہیں اور اردو ادب کو افادی تناظر سے جوڑا ہے۔ آج کے عصر کو جن کہانیوں کی زیادہ ضرورت ہے، حیات اللہ انصاری نے اسی طرح کی کہانیاں لکھی تھیں۔ ان کی کہانیوں کے مسائل اور موضوعات ہمارے آج کے حالات سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ حیات اللہ انصاری کا بیانیہ آج کے عہد کی ضرورت ہے۔ عشرت ناہید نے حیات اللہ انصاری کے افسانوی آفاق سے روبرو کرانے کی اچھی کوشش کی ہے۔

جمال اویسی کی’نقش گریز‘اس معنی میں نظموں کی اچھی کتاب ہے کہ اس میں نظموں کی نئی قرأت کا وظیفہ قارئین کو بتایا گیا ہے۔ ان کی نظموں میں آج کی وجودیاتی کشمکش کا بہت اچھا بیان ہے۔ ارضی انسانی مسائل اور متعلقاتِ حیات پر ایک نئی نظر اور ایک نیا زاویہ سامنے آتا ہے۔ ان کی نظموں میں تفہیم حیات و کائنات کا ایک نیا تناظر ہے اور ان کی سوچ ہماری معاصر نسل سے ذرا مختلف ہے۔ اس لیے ان کا نظمیہ لہجہ بھی جس میں کہیں کہیں پر برہمی اور بیزاری ہے بہت متاثر کرتا ہے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہے!

اردو فکشن کی روایت میں خواب سراب کی معنویت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛خالد جاوید

ممتاز فکشن نویس خالد جاویدنے تنقید کی دو الگ الگ کتابوں پر رائے دیتے ہوئے انیس اشفاق کے ناول خواب سرائے کوامتیازی نشان کا حامل قرار دیا ۔وہ لکھتے ہیں؛2017میں شائع ہونے والی عتیق اللہ کی کتاب مغرب میں تنقیدکی روایت اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ اردو میں پہلی بار مغربی تنقید کی روایت کو تفصیلی اور مبسوط انداز میں بیان کیا گیاہے۔افلاطون سے لے کر اب تک ،نوتاریخیت یاژاک دریدا تک مغربی تنقید کے ارتقا کے تمام پہلوؤں کا اس کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے۔عتیق اللہ اردو کے اہم ترین نقادوں میں شمار کیے جاتے ہیں ان کی یہ تصنیف تنقید کے خدوخال کو سمجھنے میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔

2017میں انیس اشفاق کا ناول خواب سراب شائع ہواہے۔اردو میں یوں تو گزشتہ کئی سالوں سے ناول کی گویا ایک بھیڑ سی لگ گئی ہے۔مگر انیس اشفاق کا یہ ناول ایک امتیازی نشان کا حامل ہے۔رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کو نقطہ آغازبنا کر لکھنؤ کی تہذیب اور اس کی معاشرت کو انسانی رشتوں کے حوالے سے جس طرح پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اردو فکشن کی روایت میں خواب سراب کی معنویت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

imdad imam

سرورالہدیٰ کی تصنیف امداد امام اثر کا شمار بھی 2017کی اہم کتابوں میں کیا جانا چاہیے۔حالی اور شبلی کے ہم عصر نقادوں میں امداد امام اثرکا نام بہت اہم ہے مگر ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ۔سرورالہدیٰ کی یہ کتاب ایسی کمی کا ازالہ کرتی اور امداد امام اثر کی تنقید کے نمایاں عناصر کو اجاگر کرتی ہے۔

پاکستان میں ناصر عباس نیر کے میدان میں کوئی نقاد  ان کا ہم پلہ نہیں تاہم  نئے ناقدین ان سے بہ رضا و رغبت   اکتساب کررہے ہیں؛علی محمد فرشی

علی محمد فرشی نظم کے  ممتاز شاعراور صحافی ہیں انہوں نے 2017کو ترجیحی طور پر تخلیقی حوالوں سے دیکھا اور اپنی پسند کی چار کتابوں پر رائے دی ،وہ لکھتے ہیں ؛سرمئی نیند کی بازگشت‘نصیر احمد ناصر کی نثری نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس کا اختصاص وہ نظمیں ہیں جو معاصر نظم نگاروں کے لیے لکھی گئی، اگر ان نظموں کو الگ جمع کیا جائے تو ایک مختصر کتاب وجود میں آسکتی ہے۔ علی محمد فرشی، انوار فطرت،اقتدار جاوید، ابرار احمد، یامین،فرخ یار،پروین طاہراور روش ندیم کے نام کی گئی نظمیں خاصے کی چیز ہیں۔ ان کے علاوہ رشید امجد اور مظہر السلام کے لیے لکھی گئی نظمیں بھی قاری دل پر نقش ہو جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

سید مبارک شاہ  گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں ابھرنے والے شاعروں میں نمایاں مقام رکھتا ہے، ہر چند اس کی غزل بھی  اسلوبیاتی و معنیاتی سطح پر انفرادیت رکھتی ہے لیکن اس کی تخلیقی صلاحیت کا بہترین اظہار اس کی نظموں میں ہوا۔2015 میں اس کی اچانک موت سے ادبی حلقوں کو ایک خلا کا احساس ہوا۔ سلطان ناصر اور گل شیر بٹ  کےمرتب کردہ’کلیات ِ  سیدمبارک شاہ‘میں شاعر کے تین مطبوعہ مجموعوں ’جنگل گمان کے‘،’ہم اپنی ذات کے کافر‘اور ’مدارِ نارسائی میں‘کے علاوہ  شاعر کا غیر مطبوعہ مجموعہ ’دستک زمین پر‘بھی شامل کر کے کلیات کو جامع بنا دیا ہے۔

ناصر عباس نیر گزشتہ صدی ہی میں تھیوری کے صفِ اول کے چند ناقدین میں اپنی منفرد شناخت بنا چکے تھے۔  اب تک درجن بھر تنقیدی  کتابیں ان کے قلم سے برآمد ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں ان کے میدان میں کوئی نقاد  ان کا ہم پلہ نہیں تاہم  نئے ناقدین ان سے بہ رضا و رغبت  اکتساب کررہے ہیں۔2016 کے آخر آخر ان کی ایک کتاب شائع ہوئی لیکن اس کا چہرہ  2017 کے بالکل آغاز میں نمودار ہوا۔  ان کے افسانوں کا مجموعہ ’خاک کی مہک ‘تھا جس نے اچانک ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں افسانے سے کہانی منہا ہوئی تو افسانہ ڈھلوان کا سفر کرنے لگا۔ اس مجموعے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اردو  افسانے کے زوال کے آگے بھاری چٹان رکھ کر اسے مضبوطی سے جما دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

نظموں کا در کھلتا ہے‘ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں اپنی شاخت قائم کرنے والے 20 نظم نگاروں کی تخلیقات کا مجموعہ ہے جسے نعمان فاروق نے انتخاب کیا ہے۔اس سے قبل وہ اسی دورانیے کے   نمائندہ غزل گو شعرا کا   انتخاب بھی پیش کر چکا ہے۔ زیرِ نظر مجموعے میں یامین، فرخ یار، پروین طاہر، شہزاد نیر،روش ندیم، سعید احمد، ارشد معراج، خلیق الرحمٰن، دانیال طریر،تابش کمال،داؤد رضوان،او رفہیم شناس کاظمی جیسے نظم نگاروں کی موجودگی اس  مجموعے کی وقعت میں  اضافے کا باعث قرار پاتی ہے۔ یہ تمام نظم نگار اپنی نظموں کے مجموعے پیش کر چکے ہیں۔اس کتاب سے ایک  اہم بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مشمولہ شعرا کی بہت بڑی تعداد شہر نظم  راولپنڈی سے تعلق رکھتی ہے۔

معاملہ افسانے اور ناول کا ہو یا تحقیق وتنقیداوردوسری اصناف کا؛ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا؛ محمد حمید شاہد

ممتاز فکشن نویس حمید شاہد فکشن تنقید بھی خوب لکھتے ہیں،انہوں نےرواں سال کےنثری ادب کا بھرپورجائزہ لیاتھا ۔ہمارے سوال کے جواب میں انہوں نے اپنی اس تحریر سے ترجیحی بنیاد پر چند کتابوں کے باب میں  اپنی رائے سے ہمیں نوازا۔وہ لکھتے ہیں؛ایک اور سال گزرگیا۔ اس سال بھی لکھنے والے اپنے قلم کا قرض ادا کرنے میں منہمک رہے اور اس کا اندازہ ان کتابوں اور ادبی جرائد سے لگایا جاسکتا ہے جو مجھ تک پہنچتی رہیں ۔معاملہ افسانے اور ناول کا ہو یا تحقیق وتنقیداوردوسری اصناف کا؛ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔

’’فرشتہ نہیں آیا‘‘ ناصر عباس نیر کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے ۔ اس دوسرے مجموعے میں بھی انہوں نے اپنے مختلف ہونے کی پہچان کو اور گہرا کیا ہے ۔ اس مجموعے میں ’’اباکے صندوق‘‘،’’ہو سکتا ہے یہ خط آپ کے نام لکھا گیا ہو‘‘،’’ فرشتہ نہیں آیا‘‘،’’کنویں سے کٹورے تک‘‘،’’ لوگو فوبیا ‘‘ اور’’ نیا حکم نامہ‘‘ نام کے افسانوں کے علاوہ حکایات و مابعد جدید کے عنوان سے گیارہ نثری پارچے بھی کہانی کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔

معروف فکشن نگار اور مترجم سید سعید نقوی کا نیا اہم کام’’بارش سے پہلے‘‘کے نام سے ایک ناول کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ قبل ازیں ان کا ناول ’’گرداب‘‘ آیا تھا جبکہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے اور تراجم کی بھی تین سے زیادہ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ’’پانی کی کمی تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے‘‘کتاب کھولتے ہی اس سرخی پر نظر پڑتی ہے جس کا حوالہ ناسا کا ایک تحقیقی مقالہ ہے ۔ سیاسی سماجی زندگی کو گرفت میں لینے والا یہ ناول بہت قریب کے زمانے کا ہے لہذابیانیے میں سارا منظر نامہ اور کردار دیکھے بھالے لگتے ہیں ۔

خالد فتح محمد کا نیا ناول’’کوہ گراں‘‘پانی کے بحران اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی المیے کو موضوع بناتا ہے ۔ خالد فتح محمد اس ناول میں عورت اور زمین کے درمیان نمو کا تعلق پیدا کرکے اسے نئی معنویت عطا کرتے ہیں۔حلیم، گڈو، دیسو، مادو اور فاطمہ جیسے کرداروں سے ایسی بستی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو سوکھے کی مار سے اجڑ گئی تھی ۔ ناول اسی بستی کو پھر سے آباد کرنے کی جدوجہد کا بیان ہے ۔ ناول کا بیانیہ کہیں کہیں بہت موثر ہو گیا جس کی ایک مثال:’’ گڈو! جب کوئی مرتا ہے، تو وہ مرتا نہیں زندہ ہو جاتا ہے۔مرنے والا جب زندہ تھا ۔۔تو ہمارے اندر اس کی شکایتوں سے بھرے ہوتے ۔ مر کر وہ ہمارے اندر زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘

محمد عامر رانا کا ناول ’’سائے ‘‘ بھی ہمارے قریب کے منظر نامے سے اگا ہے تاہم اس میں کرداروں کے وجودی کرب کو موضوع بنایا گیا ہے۔ محمد عامر رانا کے ناول میں کردار جس اذیت سے گزر رہے ہیں وہ رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں سائے بنا رہا ہے۔ لاہور کو لوکیل کرتے اس ناول میں کا اصل قضیہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ زندگی کی نامعقولیت کو کسی نظام، کسی ضابطے ، اصولوں کی کسی ترجیحاتی ترتیب سے معقول نہیں بنایا جاسکتا اور یہ کہ انسان اپنی ہونی شدنی کے کھونٹے سے بندھ کر یوں گھٹتے بڑھتے سائے جیسا ہو جاتا ہے کہ قنوطیت اور رجائیت جیسے الفاظ بھی وجودیت کے عذاب( جس کی ایک حد تک ہی اس ناول میں تظہیر ہو ئی ہے) میں اپنی معنویت کھونے لگتے ہیں۔

 اس سال میرے مطالعے میں جو شعری مجموعے آئے ان میں نئی نسل نے اپنے ہونے کا احساس دلایا؛معید رشیدی

معید رشیدی نئی نسل کے نقاد اور شاعر ہیں،اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں ۔انہوں نے 2017میں تنقید اور لسانیات کی دو اہم کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ،نئی نسل کی شاعری  کو اس سال کے حاصل کے طور پر دیکھا۔وہ لکھتے ہیں؛پروفیسر عتیق اللہ کا شمار ہمارے عہد کے نمائندہ شاعروں اور نقادوں میں ہوتا ہے۔حال ہی میں ان کی کتاب ’مغرب میں تنقید کی روایت‘شائع ہوئی ہے۔یہ کتاب قدیم یونان و روم سے دریدا تک کے تنقیدی تصورات سے مخاطبہ  ہے۔افلاطون کی شعریات اور ارسطو کے نظریۂ کتھارسس کو موضوع بناتے ہوئے انھوں نے یونانی شعریاتی روایت کی تجدید پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ اس روایت کی نشاندہی میں انھوں نے ہوریس کو پہلا مکمل ہیئت پسند نقاد، کوئن ٹلین کو تقابلی تنقید کا بنیاد گزار اور لانجائنس کو رومانی تنقید کا بانی قرار دیا ہے۔انھوں نے  قرون وسطیٰ اور دانتے، عہد نشاۃ ثانیہ، نوکلاسیکی تنقید، رومانی اور حقیقت پسند شعریات اورعہد وکٹوریہ کی تنقیدکے مباحث کو سمیٹ لیا ہے۔ بیسویں صدی کو انھوں نے قدیم و جدید شعریات میں تصادم و ادغام سے تعبیر کیا ہے۔آئی ۔اے۔ رچرڈز اور ٹی ۔ایس ۔الیٹ کو متن اساس مطالعے اور ادبی تنقید کے دائرۂ تفاعل میں توسیع بتایا ہے۔ علامتیت، پیکریت،دادائیت اورمارکسزم کی شعریات کا احاطہ کرتے ہوئے انھوں نے فروئڈ سے نین سی چودوروکی تحلیل نفسی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ادبی تھیوری کو نئے ذہنی انقلاب کی مظہر قرار دیتے ہوئے انھوں  نے سوسیئر، روسی ہیئت پسندی، ردتشکیل، نومارکسیت، تانیثیت، نوتاریخیت، تہذیبی مطالعے کی روایت اور نئی ترجیحات جیسے مسائل کو استدلال کے ساتھ پیش کیا  ہے۔ اس سال اس کتاب کی اشاعت کے لیے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان لائق مبارکباد ہے۔ہمارے عہد میں تنقید کے مسائل پر اتنی سنجیدگی سے کام کرنے والے کم ہیں۔یہ کتاب ان کے مغربی تنقید ی مطالعات کا نچوڑ ہے۔ فاروقی اور نارنگ کے بعد کی نسل میں عتیق اللہ کا نام سرفہرست ہے۔

lisani

 اس سال لسانیات پر ’لسانی مسائل و مباحث‘(مرزاخلیل احمد بیگ)ایک اہم کتاب شائع ہوئی۔ یہ کتاب بیگ صاحب کے یک موضوعی مضامین کا مجموعہ ہےجولسانی مسائل و مباحث کومحیط ہے۔اردو کے لسانی مسائل سے دلچسپی رکھنے والے اہل علم اور محققین کے لیے یہ کتاب دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں جو مواد پیش کیا گیا ہے وہ بلا شبہ برسوں کی محنت اور جاں سوزی کا نتیجہ ہے۔

اس سال سرسید کا دوسوسالہ جشن ولادت منایا گیا۔ سرسید مطالعات میں شافع قدوائی نے ایک اہم اضافہ کیا۔ان کی کتاب ’سوانح ِ سرسید :ایک بازدید‘سرسید سے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کا نہ صرف ازالہ ہے بلکہ انھیں بہترین خراج تحسین بھی ہے۔

اس سال میرے مطالعے میں جو شعری مجموعے آئے ان میں نئی نسل نے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ ’یہ عشق ہے‘(عرفان ستار)،’دشت زاد‘(سہیل اختر)، ’واہمہ وجود کا‘(سالم سلیم) ،’سات دریاؤں کا پانی‘(دلاورعلی آزر)؛اس سال کے قابل ذکر مجموعے ہیں۔

کتابیں پڑھنے کے محرکات مختلف ہیں۔ کچھ کوضرورتاً پڑھا جاتا ہے اور کچھ اس لیے پڑھی جاتی ہیں کہ ان کے موضوع سے دل چسپی ہوتی ہے؛ناصر عباس نیر

ناصر عباس نیر اردو کے ممتاز نقاد ہیں ،حال کے دنوں میں ان کی تخلیقی شناخت کے طور پر ان کے افسانوں ہمارے سامنے آئے ہیں ۔ انہوں نے رواں سال کی کتابوں پر مجموعی رائے دی ہے ،نیر لکھتے ہیں ؛ہر سال میں کتنی کتابیں اور مضامین پڑھتا ہوں، اس کا حساب نہیں رکھتا۔ مختلف کتابیں پڑھنے کے محرکات مختلف ہیں۔ کچھ کوضرورتاً پڑھا جاتا ہے اور کچھ اس لیے پڑھی جاتی ہیں کہ ان کے موضوع سے دل چسپی ہوتی ہے اور بعض کتابوں کے مصنفین پسند ہوتے ہیں۔

 2017 میں کئی کتابیں پڑھیں؛ادب، تنقید ،تاریخ وغیرہ۔ جو کتابیں زیادہ اچھی لگیں ان میں ارن دھتی کا نیا ناول ’منسٹری آف اٹ موسٹ ہپی نیس ‘، اوم پرکاش والیمیکی کی جوٹھن،کامران اصدر علی کی سرخ سلام، اروند شرما کی دی رولرز گیز، آصف فرخی کی انتظار حسین کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر مشتمل کتاب چراغ شب افسانہ،کاشف رضا کا ناول چار درویش اور کچھوا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی کے لیے آصف فرخی نے اردو افسانے کے کئی انتخابات کیے ہیں، ان میں خالدہ حسین، مسعود اشعر، غلام عباس، نیر مسعود کے انتخابات پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ چند ماہ پہلے سنگ میل نے عصمت چغتائی اور بلونت سنگھ کے وہ افسانے شایع کیے ہیں جو ان کے مجموعوں میں شامل نہیں ہیں، گلدان اور آبگینہ بالترتیب۔ دونوں اچھے لگے۔ بلونت سنگھ کے خاص طور پر۔

ہند و پاک کے ادیبوں کی پسندیدہ کتابوں پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دو ہزار سترہ میں تصنیف و تالیف کے کئی اہم کام ہوئے۔ ان کو اگر ہم خانوں میں بانٹ کر دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس سال تخلیقی کاموں کو زیادہ پسند کیا گیا ،حالاں کہ تحقیق و تنقید کے جو حوالے (مغربی تنقید ،بیانیات ،لسانی مسائل ،غالب اور امداد امام اثروغیرہ)یہاں درج ہوئے ان کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اچھی اور بیش قیمتی کتابیں آج بھی لکھی جارہی ہیں ۔